کووڈ 19 کی ڈیلٹا قسم کو ’انڈین ویرئنٹ‘ پکارنے پر بحث: کووڈ کی مختلف اقسام کو نام کیسے دیے جاتے ہیں؟


Covid

گذشتہ برس مارچ میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنی ایک ٹویٹ میں کووڈ 19 کو ’چینی وائرس‘ کہہ کر پکارا تو اس کے بعد نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھی بلکہ امریکہ سمیت دیگر کئی مقامات پر ایشیائی شکل وصورت والے افراد پر نفرت انگیز حملوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا تھا۔

چینی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کی زبان کو ‘نسل پرستانہ’ اور نفرت پھیلانے والی کہا تھا اور اس وقت عالمی صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی متنبہ کیا تھا کہ اس وائرس کو کسی خاص برادری یا علاقے سے جوڑ کر دیکھانا غلط ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر اسی طرح کسی بھی ملک کو وہاں سے شناخت ہونے والی وائرس کی قسم کی بنیاد پر نفرت کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا تو ہو سکتا ہے آئندہ کچھ ممالک نئی اقسام پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں۔

کچھ ایسی ہی بحث اس وقت پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی جاری ہے اور بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ چونکہ برصغیر میں رہنے والے اکثر افراد کی شکل و صورت تقریباً ایک جیسی ہی ہوتی ہے لہذا کووڈ 19 کے ڈیلٹا ویرئنٹ کو ’انڈین وائرس‘ پکارنے سے صرف انڈین ہی نہیں بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کو بھی نفرت انگیز حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بحث گذشتہ روز بظاہر اسد عمر، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی جو پاکستان میں کووڈ 1 سے نمٹنے کے لیے تشکیل دیے گئے ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ بھی ہیں اور صدرِ پاکستان عارف علوی کے صاحبزاے عواب علوی کی ٹویٹس کے بعد شروع ہوئی جس میں انھوں نے کووڈ 19 کی ڈیلٹا قسم کو ’انڈین ویرئنٹ‘ کہ کر پکارا۔

یاد رہے انڈیا میں شناخت کی آنے والی کورونا وائرس کی اس قسم کو B1617 کہا جاتا ہے اور یہ گذشتہ برس اکتوبر میں دریافت ہوئی تھی۔

اسد عمر نے پاکستان میں جولائی کے مہینے میں کووڈ 19 کی چوتھی لہر کے متعلق خبردار کرتے ہوئے اس کی وجہ ایس او پیز کی خلاف ورزی، دوسری اقسام کے پھیلاؤ خاص کر ڈیلٹا کو قرار دیا جسے انھوں نے ’انڈین ویرئنٹ‘ کہا۔

وفاقی وزیر کی ٹویٹ کے فوراً بعد ہی کئی افراد انھیں یاد کراتے نظر آئے کہ ’کووڈ کی اس قسم کا نام ڈیلٹا ہے، سیاست نہ کریں‘۔

تاہم کچھ دیر بعد عواب علوی نے #IndianVariant کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ کیا ہم بحیثیت پاکستانی ’ڈیلٹا ویرئنٹ‘ کا لفظ استعمال کرنا چھوڑ سکتے ہیں اور اسے ’انڈین ویرئنٹ‘ کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس قسم کا آغاز انڈیا سے ہوا تھا لیکن انڈین لابی منفی بیانیے سے بچنا چاہتی ہے۔۔۔ آئیے ان کی باز پرس کریں اور اسے انڈین ویرئنٹ پکاریں۔

اواب کی ٹویٹ کو وفاقی وزیر ماحولیات زرتاج گل سمیت کئی افرد نے ری ٹویٹ کیا اور کئی افراد ان پر تنقید کرتے نسل پرستی کی بنید پر نفرت پھیلانے کا الزام عائد کرتے بھی نظر آ رہے ہیں۔

علی اقبال نے لکھا ’خدا نہ کرے اگر پاکستان میں کوئی نئی شکل سامنے آجائے تو کیا آپ کو اچھا لگے گا جب دوسرے ممالک اسے ’پاکستانی ویرئنٹ‘ پکاریں گے؟ لہذا سیاست یا ریاستی سطح کی عداوت کو اس وبائی مرض سے دور رکھیں! کیونکہ وائرس کسی کو نہیں بخشتا۔‘

کئی افراد ان سے یہ مطالبہ کرتے دکھائی دیے کہ اگر ’ایسا ہی ہے تو ذرا کووڈ 19 کو چینی وائرس کہہ کر بتائیں۔‘ جبکہ کئی افراد نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ ’کیا پولیو پاکستانی وائرس ہے؟‘

وہیں بیشتر کا ماننا ہے کہ اگر برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل میں شناخت ہونے والی اقسام کو برطانوی، افریقی اور برازیلین قسم پکارا جا سکتا ہے تو انڈیا میں شناخت ہونے والی قسم کو انڈین ویرئنٹ کیوں نہیں کہا جا سکتا۔

کچھ صارفین تو عالمی ادارہ صحت کو ہی موردِ الزام ٹھہراتے نظر آئے کہ جب برطانوی، جنوبی افریقن اور برازیلین وائرس کی شناخت ہوئی تو انھیں، ان کے ملکوں کے نام سے ہی پکارا جاتا رہا لیکن جیسے ہی انڈین ویرئنٹ شناخت ہوا، ڈبلیو ایچ او نے سب کے نام رکھ دے۔

عواب علوی نے تو پاکستانیوں کی رائے جاننے کے لیے ایک پول بھی چلایا تاہم انھیں مطلوبہ نتائج نہ مل سکے اور 32.8 فیصد کے مقابلے میں 67.2 فیصد صارفین نے ہی انڈین ویرئنٹ کو ڈیلٹا ویرئنٹ پکارنے کی حمایت کی۔

یہ ساری بحث ایک جانب، آئیے جانتے ہیں کہ کووڈ 19 کی مختلف اقسام کا نام کیا، کیسے اور کیوں رکھا گیا ہے۔

کووڈ 19 کی نئی قسم کا نام کیسے رکھا جاتا ہے؟

چین کے صوبے ووہان سے شروع ہونے والے سارس کوو-2 کے ارتقا کا عمل مسلسل جاری ہے اور مارچ 2020 میں عالمی ادارہ صحت نے کووڈ 19 کو عالمی وبا قرار دیا۔

اس کے بعد ستمبر 2020 میں پہلی بار کینٹ، برطانیہ میں شناخت ہونے والی الفا قسم سے لے کر اب تک اس وائرس کی کئی دیگر ممالک میں مہلک اقسام سامنے آ چکی ہیں۔

سارس کوو 2 وائرس کی مختلف اقسام کو ان میں پائے جانے والے تغیرات کی بنیاد پر نام دیے گئے ہیں جیسے برطانیہ میں شناخت کی جانے والی قسم بی.1.1.7، جنوبی افریقہ میں سامنے آنے والی قسم بی 1.351، برازیل میں شناخت ہونے والی قسم پی 1 اور انڈیا میں شناخت ہونے والی قسم بی 1.617.2 شامل ہیں۔

گذشتہ برس اکتوبر میں انڈین سائنسدانوں نے ڈیلٹا کی نشاندہی کی اور اسے عالمی ڈیٹا بیس میں رپورٹ کیا۔ ڈیلٹا قسم (B.1.61 میں تین ذیلی قسمیں B1.617.1، B1.617.2 اور B.1.617.3 شامل ہیں۔ ان میں سے بی 1.617.1 اور بی 1.617.3 کو ویری اینٹ آف انٹرسٹ کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔

ڈیلٹا پلس کے مختلف اقسام میں ڈیلٹا کے مقابلے میں ایک اضافی تغیر ہے۔ اس تغیر کو کے417 این کا نام دیا گیا ہے۔ ’پلس‘ کا مطلب ہے کہ ڈیلٹا کی مختلف حالتوں میں ایک اضافی تبدیلی پائی گئی ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈیلٹا پلس کی مختلف اقسام، ڈیلٹا سے زیادہ مہلک ہیں۔

اب اتنے نمبر اور پلس پلس نام ڈاکٹر اور سائنسدان کو شاید یاد رکھ سکتے ہیں لیکن میرا تو دماغ چکرا گیا لیکن بھلا ہو عالمی ادارہ صحت کا۔

کووڈ 19 کی مختلف اقسام کے پیچیدہ ناموں کو آسان بنانے اور ایسے ناموں سے گریز کرنے کے لیے جو کسی ملک کی بدنامی اور وہاں سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف نفرت کا باعث بن سکتے ہیں، عالمی ادارہ صحت نے 31 مئی کو کووڈ 19 کی مختلف اقسام کی شناخت ’یونانی حروف تہجی‘ سے کرانے کا نظام متعارف کرایا تھا۔

ایک حرف تہجی میں ایک ہی جیسی خاصیتوں کے حامل ویرئنٹ رکھے گئے ہیں اور اس نظام کے تحت کووڈ 19 وائرس کی برطانیہ میں شناخت کی جانے والی قسم بی.1.1.7 کو ایلفا کا نام دیا گیا ہے۔

اسی طرح جنوبی افریقہ میں سامنے آنے والی قسم بی 1.351 کو بیٹا، برازیل میں شناخت ہونے والی قسم پی 1 کو گیما اور انڈیا میں شناخت ہونے والی قسم بی 1.617.2 کو ڈیلٹا کا نام دیا گیا ہے۔

کووڈ اقسام

اس کے علاوہ کچھ ایسی اقسام بھی ہیں جن پر سائنسدان نظر رکھے ہوئے ہیں اور انھیں ’ویرئنٹ آف کنسرن یا انٹرسٹ‘ کا نام دیا جاتا ہے یعنی وائرس کی وہ اقسام جن کے بارے میں کچھ تشویش ہو اور ان پر نظر رکھی ہوئی ہے۔

ان اقسام میں امریکہ میں شناخت ہونے والی دو نئی اقسام کو ایپسیلین اور ایٹا، برازیل میں سامنے آنے والی ایک اور قسم کو زیٹا، انڈیا میں شناحت ہونے والی نئی قسم کو کیپا اور پیرو میں دریافت کی گئی کو لمبڈا جبکہ دیگر متعدد ممالک میں شناخت ہونے والی ایک قسم کو زیٹا کا نام دیا گیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی عہدیدار اور وبائی امراض کی ماہر ماریہ وان کرکوف کا کہنا تھا یہ نئے نام (لیبل) موجودہ سائنسی ناموں کی جگہ نہیں لیں گے بلکہ یہ بات چیت کے دوران نام لینے میں آسانی پیدا کرنے اور کسی ملک کو بدنمامی سے بچانے کے لیے دیے گئے ہیں۔

ماریہ وان کرکوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ وائرس کی نئی قسم کی شناخت کرنے اور اس کی اطلاع دینے پر کسی ملک پر تنقید جائز نہیں۔

اور اگر تمام یونانی حروفِ تہجی ختم ہو گئے تو گھبرائے نہیں ڈبلیو اچ او کے مطابق کہ ان 24 یونانی حروفِ تہجی کے ختم ہو جانے کے بعد وہ ناموں کے کسی اور نظام کو متعارف کروائیں گے۔

وائرس نئی قسم میں تبدیل کیسے ہوتے ہیں؟

Coronavirus up close

نئی اقسام کا سامنے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تمام وائرس خود کو تبدیل کرتے ہیں۔ مگر زیادہ تر کیسز میں یہ تبدیلیاں غیر اہم ہوتی ہیں۔ مگر کچھ تبدیلیاں ان کے پھیلاؤ کی صلاحیت بڑھا کر انھیں زیادہ خطرناک بنا سکتی ہیں۔

برطانیہ، برازیل اور انڈین اقسام تینوں میں ان کی سپائک پروٹین میں تبدیلی ہوئی ہے۔ سپائک پروٹین وائرس کا وہ حصہ ہے جو انسانی خلیوں سے جڑتا ہے۔

ان میں سے ایک تبدیلی جسے این 501 وائی کہتے ہیں، وہ بظاہر وائرس کے خلیوں کو متاثر کرنے کی بہتر صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ برطانوی قسم 70 فیصد زیادہ پھیل سکتی ہے تاہم حکومتی محقیقین نے اسے 30 سے 50 فیصد زیادہ پھیلنے والا قرار دیا ہے۔

جنوبی افریقہ اور برازیلی اقسام میں بھی مختلف تبدیلیوں کا امکان ہے۔ ان میں جو تبدیلی ہوئی ہے اس کا نام ای 484 ہے اور اس کی مدد سے وہ قوت مدافعت سے لڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق برطانوی قسم میں بھی یہ تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔

اس کے علاوہ انڈین قسم کے وائرس میں بھی متعدد اقسام کی تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں جو کہ اس کے انسانی قوتِ مدافعت کو مات دینے میں مدد دے سکتی ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp