اس رات کیا ہوا تھا؟


بارش اس قدر تیز تھی کہ یوں لگتا تھا جیسے بادلوں میں سوراخ ہو گئے ہوں اور پانی آبشاروں کی طرح برس رہا ہو۔ شام کا وقت تھا مگر گہرے کالے بادلوں کی وجہ سے رات کا گمان ہوتا تھا۔ ایسے میں دور تک دیکھنا بھی ممکن نہیں تھا۔ اچانک بجلی چمکی اور بادل زور سے گرجا۔ اس ایک لمحے میں مجھے سامنے ایک مکان نظر آیا جس کے دروازے پر شیڈ گویا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھا۔ میں لپک کر اس شیڈ کے نیچے آ گیا مگر یہ شیڈ مجھے بارش کے پانی سے بچانے سے قاصر تھا۔ ہوا تیز تھی اور میں شیڈ کے نیچے ہونے کے باوجود بری طرح بھیگ رہا تھا۔ میں نے سوچے سمجھے بغیر فوراً دروازے پر زور دار دستک دے ڈالی۔

مجھے امید نہیں تھی کہ دروازہ فوراً کھل جائے گا۔ ایسا لگتا تھا کہ دروازہ کھولنے والا بالکل دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا۔ جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک لڑکی تھی۔ اس کی عمر انیس بیس برس کے قریب رہی ہو گی۔ وہ دیدہ زیب لباس میں ملبوس تھی۔ لمبے سیاہ بال شانوں پر لہرا رہے تھے۔ میں ایک لمحے کے لیے اس کے حسین چہرے کو دیکھ کر کھو سا گیا۔ وہ میری طرف خالی خالی آنکھوں سے یوں دیکھ رہی تھی جیسے سمجھ نہ پائی ہو کہ کیا کہے۔

” سدرہ! کیا دروازے میں ہی کھڑی رہو گی، ان کو جلدی اندر لے آؤ۔“ ایک بھاری مردانہ آواز سنائی دی۔
لڑکی ایسے چونکی جیسے اچانک نیند سے جاگی ہو۔
”ابو! وہ نہیں ہیں، کوئی اور ہے۔“ اس نے اندر کی طرف رخ پھیرتے ہوئے کہا۔

تب ایک شخص دروازے میں آ کھڑا ہوا۔ اس کی عمر پچپن کے لگ بھگ ہو گی۔ داڑھی کے بال آدھے سے زیادہ سفید تھے۔ شلوار قمیص اور واسکٹ پہنے ہوئے تھا۔

”براہ کرم مجھے اندر آنے دیجیے۔ میں بری طرح بھیگ رہا ہوں۔“ اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کرتا میں نے جلدی سے کہا۔ اس نے میری طرف قدرے غصے سے دیکھا۔

”برخوردار! اس وقت میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ کوئی اور دروازہ کھٹکھٹائیے۔“
”جناب! بارش بہت تیز ہے، میں بارش کم ہوتے ہی چلا جاؤں گا۔“

”آپ کو سمجھ نہیں آئی کہ میں نے کیا کہا ہے، ہم اس وقت پریشانی میں ہیں اور میری بیوی۔“ اس نے تیز لہجے میں کہا مگر بات ادھوری چھوڑ دی۔

”ابو۔ ابو۔ امی کی حالت بگڑ رہی ہے۔“ لڑکی کی گھبرائی ہوئی آواز گونجی۔
”میں دیکھتا ہوں۔“ اس نے پلٹ کر کہا پھر میری طرف دیکھتے ہوئے دروازہ بند کرنے لگا۔

”کیا مسئلہ ہے؟ مجھے بتائیے، میں ایک ڈاکٹر ہوں۔“ میں نے فوراً صورت حال کا اندازہ لگاتے ہوئے تقریباً چیختے ہوئے کہا لیکن اس شخص پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے زور سے دروازہ بند کر دیا۔ میں نے مایوسی سے بند دروازے کو دیکھا پھر سڑک کی طرف دیکھا۔ اندھیرا بڑھ گیا تھا اور بارش کی تیزی میں کمی کے کوئی آثار نہ تھے۔ یک دم دروازہ کھلا۔

”تم ڈاکٹر ہو؟“ اس شخص نے تیزی سے سوال کیا۔
”میں آپ کو بتا چکا ہوں“ میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے بیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”اندر آ جاؤ“ اس نے جلدی سے کہا اور میں ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اندر داخل ہو گیا۔ یہ ایک درمیانے درجے کا مکان تھا۔ میں اس شخص کے پیچھے چلتے ہوئے ایک بیڈ روم میں داخل ہوا۔ بیڈ پر اس کی بیوی ساکت لیٹی ہوئی کراہ رہی تھی۔ آہٹ سن کر اس نے وحشت ناک نظروں سے میری طرف دیکھا۔

” خالدہ یہ ڈاکٹر ہیں؟“

میں نے فوراً آگے بڑھ کر عورت کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ نبض کی رفتار بہت تیز تھی۔ بلڈ پریشر چیک کیا تو کافی ہائی تھا۔ ”کیا یہ بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں؟“

”جی نہیں“ وہ شخص بڑبڑایا۔

”بہر حال فکر نہ کریں، میں نے ایمرجنسی کے لیے کچھ دوائیں رکھی ہوتی ہیں۔“ میں نے یہ کہتے ہوئے ایک بیگ سے ایک ٹیبلٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائی۔

”انہیں یہ گولی فوری طور پر کھلا دیں۔“

وہ لڑکی جس کا نام سدرہ تھا فوراً پانی کا گلاس لے کر آگے بڑھی۔ عورت نے بمشکل گولی نگلی اور پھر کراہنے لگی۔ عین اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔

”میرا خیال ہے وہ لوگ آ گئے ہیں۔ سدرہ دروازہ کھولو۔“ اس شخص نے چونک کر کہا۔

”جی ابو“ سدرہ نے قدم بڑھائے۔ وہ شخص میری موجودگی سے بے نیاز اپنی بیوی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ باہر سے کچھ آوازیں سنائی دیں تو وہ مڑا اور لاؤنج کی طرف بڑھا۔ میں بھی چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑا۔ لاؤنج میں ایک جوڑا موجود تھا۔ ایک خوبرو نوجوان سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ آنے والی لڑکی سدرہ سے لپٹی ہوئی تھی۔ اس لڑکی نے چمک دار قیمتی لباس پہنا ہوا تھا۔ بدن پر سونے کی زیورات بھی تھے۔ وہ نئی نویلی دلہن لگ رہی تھی۔ جب وہ سدرہ سے الگ ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں۔

”شاہدہ بیٹی۔“ اس شخص نے پیار سے کہا۔ لڑکی نے بھیگی ہوئی پلکیں اٹھا کر باپ کی طرف دیکھا اور سسکنے لگی۔ وہ شخص فوراً آگے بڑھا اور اسے گلے لگا لیا۔ شاہدہ کے شفاف گالوں پر آنسو موتیوں کی طرح پھسلنے لگے۔ کئی ساعتوں کے بعد اس شخص نے شاہدہ کو خود سے الگ کیا۔

”آؤ بیٹا! میرے گلے لگ جاؤ“

وہ نوجوان تھوڑا جھجکتے ہوئے آگے بڑھا۔ اس شخص نے خود آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ میں یہ جذباتی منظر دیکھ کر دم بخود تھا اور اس کی نوعیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔

”امی کہاں ہیں؟“ شاہدہ نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔

”بیٹا تمہاری امی کی طبیعت کچھ خراب ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دوا دے دی ہے۔“ اس شخص نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

شاہدہ نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ مجھ پر ڈالی اور تقریباً بھاگتے ہوئے اپنی امی کے کمرے کی طرف بڑھی۔
”امی۔ امی کیا ہوا آپ کو؟“ اس کی ماں نے بازو پھیلا دیے۔ وہ ماں سے لپٹ گئی۔
”بس بیٹا! اب میں ٹھیک ہوں“
بادل ایک بار پھر زور سے گرجا۔

”امی! آپ تو تپ رہی ہیں“ شاہدہ بولی۔ میں نے فوراً آگے بڑھ کر خالدہ کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ ”جناب واقعی یہ بخار میں مبتلا ہیں۔“ اس شخص کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

”میرا نام قوی ہے“
”قوی صاحب! میں انہیں کچھ دوائیں دیتا ہوں۔ امید ہے کچھ دیر میں بخار اتر جائے گا۔“
”میں اب ٹھیک ہوں ڈاکٹر صاحب۔“ خالدہ نے کہا مگر اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔

”آپ دوا دیں ڈاکٹر صاحب۔“ قوی نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔ اسے دوا دینے کے بعد سب اسی کمرے میں بیٹھ گئے۔ مجھ سمیت سب افراد گم صم بیٹھے تھے۔ کمرے کی فضا میں ایک عجیب سی پر اسراریت تھی۔ نوجوان سر جھکائے بیٹھا تھا۔ قوی صاحب جیسے خلا میں گھور رہے تھے۔ شاہدہ کی نگاہ اپنی ماں پر جمی تھی اور سدرہ سر جھکائے اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔ اسی کیفیت میں کئی منٹ گزر گئے۔ میں دونوں بہنوں کا موازنہ کر رہا تھا۔

دونوں بلا کی حسین تھیں۔ میں سوچنے لگا کہ قدرت نے شاید کسی خاص مقصد سے مجھے یہاں بھیجا ہے۔ میرے دل کی دھڑکنیں بھی بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ میں نے کئی بار چوری چوری سدرہ کی طرف دیکھا تھا۔ جسے کسی اور نے محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن سدرہ محسوس کر چکی تھی۔ اس نے ایک بار بڑی گہری نگاہ سے مجھے دیکھا پھر سر کو دھیرے سے جنبش دی جیسے منع کر رہی ہو۔ لیکن اس کی آنکھوں میں پسندیدگی کی جھلک تھی شاید وہ نہیں چاہتی تھی کہ کمرے میں موجود کوئی فرد اس بات کا نوٹس لے۔

”ابو کھانا لگاؤں؟“ آخر سدرہ کی آواز گونجی۔ قوی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر اپنی بیوی خالدہ پر نگاہ ڈالی۔ گولیوں کے اثر سے اس پر غنودگی سی طاری تھی۔

”فکر مت کیجیے، یہ دواؤں کے اثر میں ہیں۔ ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔“ میرا ہاتھ خالدہ کی نبض پر تھا۔

”ہوں۔ سدرہ بیٹی کھانا لگا دو“ قوی نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔ سدرہ اٹھی اور کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ دس پندرہ منٹ بعد ہم ڈائننگ ٹیبل پر تھے تاہم سدرہ کی ماں اپنے کمرے میں سو رہی تھی۔ کھانا خاصا پر تکلف تھا جس میں مرغ کا سالن، کوفتے، روسٹ، تکے، کباب، چاول، نان، کھیر سمیت کئی اور لوازمات بھی شامل تھے۔ جب قوی نے سدرہ سے کھانا سرو کرنے کے کہا تو میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میرے لیے یہ اچنبھے کی بات تھی۔

اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ چکا تھا۔ ”دھیان سے بیٹی“ سدرہ کا ہاتھ کپکپایا تو قوی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کسی قدر غصے سے کہا پھر میری طرف دیکھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اسے میری موجودگی بہت بری لگ رہی ہے لیکن اس نے مجھے خود ہی کھانے کے لیے روکا تھا۔ شاید وہ اپنی بیوی کی بیماری کی وجہ سے پریشان تھا۔ مجھے بھیجنا بھی نہیں چاہتا تھا۔

”ابو اس قدر اہتمام کی کیا ضرورت تھی میں تو آپ کی بیٹی ہوں“ شاہدہ نے باپ کی طرف دیکھا۔

”ہمارے داماد کے ساتھ تم پہلی بار آئی ہو۔ اچھا اب کھانا کھاؤ“ قوی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ نہ جانے کیوں مجھے اس کی مسکراہٹ مصنوعی لگی۔

سدرہ کے چہرے کا رنگ یک دم متغیر ہو گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ کسی شدید خوف میں مبتلا ہے۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے گلاس پکڑا اور دو تین گھونٹ بھرے جیسے اپنے خشک حلق کو تر کر رہی ہو۔ شاہدہ اور اس کا میاں چپ چاپ کھانا کھانے لگے۔ قوی بھی ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ میں نے بھی کھانا شروع کیا لیکن سدرہ نے ابھی تک ایک لقمہ بھی نہیں لیا تھا۔ کئی لمحوں کے بعد اچانک قوی کی نگاہ اس پر پڑی۔

”سدرہ بیٹی کس سوچ میں گم ہو؟ کھانا کیوں نہیں کھا رہی ہو؟“
”ابو مجھے بھوک نہیں ہے“ سدرہ بولی۔
”تھوڑا سا تو کھا لو“ قوی نے کہا۔

”جی ابو کھاتی ہوں“ اس نے کہا۔ لیکن میں نے دیکھا اس نے جیسے سلو موشن میں لقمہ بنایا پھر منہ تک لے جا کر واپس پلیٹ میں رکھ دیا۔ اس نے دو تین بار میری طرف بھی دیکھا تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ اچانک خالدہ کے کمرے سے کراہنے کی آواز آئی۔ سدرہ فوراً اٹھ کر اندر کی طرف بھاگی۔ میں بھی لپک کر پیچھے گیا۔ خالدہ جاگ گئی تھی۔ میں نے بخار کا جائزہ لیا۔ اور بلڈ پریشر چیک کیا۔ بخار ابھی تک نہیں ٹوٹا تھا مگر بلڈ پریشر بہتر تھا۔ دیگر افراد بھی کھانا چھوڑ کر آ گئے تھے میں نے انہیں تسلی دی کہ اب ان کی حالت پہلے سے بہتر ہے۔

ہم ایک بار پھر ڈائننگ ٹیبل پر آ گئے۔ بادلوں کی گھن گرج میں اضافہ ہو گیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایسی طوفانی بارش میں گھر کیسے جاؤں گا۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ موسم اس قدر خراب ہو جائے گا۔ شام کو میں ہاسپٹل کی ڈیوٹی آف ہونے کے بعد ایک ٹیکسی میں گھر کی طرف روانہ ہوا تھا۔ ابھی آدھا راستہ بھی طے نہیں ہوا تھا کہ گاڑی خراب ہو گئی تھی۔ جگہ ایسی تھی کہ کوئی اور سواری مل نہیں رہی تھی۔ میں پیدل ہی آگے بڑھنے لگا کہ شاید کوئی ٹیکسی یا رکشہ مل جائے۔ لیکن کالے بادلوں نے برسنا شروع کر دیا اور میں یہاں تک پہنچ گیا تھا۔

”ڈاکٹر صاحب اور کھائیے ناں“ قوی کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
”جی شکریہ میں کھا چکا“
”آپ کا بھی شکریہ۔ آپ کی فیس کتنی ہو گی؟“

”میں کیا آپ سے فیس لوں گا، میں تو آپ کا شکر گزار ہوں، آپ نے مجھے اس طوفانی بارش میں بھیگنے سے بچایا۔“

”بہت شکریہ! مجھے امید ہے اب آپ اپنے گھر جا سکیں گے“ قوی نے سپاٹ سے لہجے میں کہا۔ میں سمجھ گیا کہ اب یہاں مزید رکنا مشکل ہے۔ بادل نخواستہ بیرونی دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھولا تو تیز ہوا سے پانی کی بوچھاڑ گری۔

”قوی صاحب! ابھی حالات کچھ ٹھیک نہیں، اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ دیر رک جاتا ہوں۔ ابھی آپ کی مسز کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔ انہیں دیکھ لوں گا۔“ میں نے پلٹتے ہوئے۔

”ہاں آپ رک جائیں تو اچھا ہے“ شاہدہ شاید ماں کی بیماری سے پریشان تھی۔
”پلیز ابو! انہیں روک لیں“ سدرہ نے بھی ملتجی نظروں سے باپ کو دیکھا۔

”چلیں! آپ مہمان خانے میں رک جائیں، شاید ایک آدھ گھنٹے میں بارش رک جائے اور میری بیوی کی طبیعت بھی سنبھل جائے۔“ قوی نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔

”مم۔ میں آپ کو مہمان خانے تک لے چلتی ہوں“ سدرہ بولی اور آگے بڑھ گئی۔ میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر فرسٹ فلور کے ایک کمرے تک پہنچے۔ اس نے دروازہ کھولا۔ وہ ایک سادہ سا بیڈ روم تھا۔ اس نے اشارہ کیا تو میں اندر داخل ہوا تو وہ بھی لپک کر میرے پیچھے آ گئی۔ میں نے کسی قدر حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ بہت تیز تیز سانسیں لے رہی تھی۔ میں زیر و بم سے الجھ رہا تھا۔

”پلیز آپ کسی صورت یہاں سے جائیے گا نہیں۔ میں موقع ملتے ہی آپ کے پاس آؤں گی۔ مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔“ اس نے میرے قریب ہوتے ہوئے سرگوشی کی اور پھر تیزی سے واپس چلی گئی۔ میں کئی لمحوں تک ساکت کھڑا رہا۔

بادلوں کی گھن گرج مسلسل جاری تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ آج کی رات بارش تمام گزشتہ ریکارڈ توڑ دے گی۔ اچانک زور دار دھماکا ہوا جیسے بجلی نزدیک ہی کہیں گری ہو اس کے ساتھ ہی گھپ اندھیرا چھا گیا۔ ان حالات میں بجلی کا برک ڈاؤن سخت ناگوار گزرا لیکن کیا کیا جا سکتا تھا۔ اندھیرا اس قدر گہرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا اور میرے پاس کوئی لائٹر وغیرہ بھی نہیں تھا کہ روشنی کا کوئی ذریعہ بنتا۔ کئی منٹ گزر گئے پھر ہلکی سی روشنی ہوئی۔ دروازہ کھلا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی شخص کمرے کی طرف آ رہا ہے۔

روشنی بڑھی تو میں نے دیکھا کہ قوی ہاتھ میں موم بتی لیے دروازے میں کھڑا تھا۔ موم بتی کی لو تھرتھرا رہی تھی۔ اس کی روشنی میں قوی کا سپاٹ چہرہ خاصا خوفناک رہا تھا۔ جیسے کوئی مردہ ہو۔

”یہ موم بتی رکھ لیں، بجلی نہ جانے کب آئے گی۔“ اس نے موم بتی میری طرف بڑھائی۔ میں نے سر جھٹک کر موم بتی پکڑی تو اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی موم بتی کو اس موم بتی سے روشن کیا۔

”تھوڑی دیر بعد میری مسز کو چیک کر لیجیے گا“ اس نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے۔
”جی ضرور۔ فکر مت کیجیے۔“

اس کے جانے کے بعد میں نے کمرے کا جائزہ لیا اور ایک مناسب جگہ پر موم بتی لگا دی۔ کچھ دیر کے بعد اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی دروازے پر آیا ہے۔ میں نے فوراً سر اٹھا کر دیکھا وہ سدرہ تھی اور اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ حیرت یہ تھی کہ مجھے اس کے قدموں کی آواز سنائی نہ دی تھی۔ شاید وہ دبے پاؤں آئی تھی۔

”کیا ہوا؟ آپ کی والدہ تو ٹھیک ہیں؟“
”جی پہلے سے تو بہتر ہیں۔ میں کچھ اور کہنے آئی ہوں“ اس نے میرے قریب آ کر سر گوشی کی۔
”فرمائیے“ میں نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
”پلیز آہستہ بولیں۔“ اس نے پھر سرگوشی کی۔

میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ اس تاریک رات میں باہر زوروں کی بارش جاری تھی۔ میں اس اجنبی مکان میں تھا اور ایک خوبصورت نوجوان لڑکی میرے کمرے میں تنہا آئی تھی۔ وہ لڑکی جسے میں اس شام سے پہلے جانتا بھی نہیں تھا۔

”مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔“ لڑکی کی آواز گونجی۔ اس کا جسم کپکپا رہا تھا۔
”مجھے نہیں معلوم کہ آپ کس خوف میں مبتلا ہیں لیکن آپ کھل کر بتائیے، میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔“
”کھانا کھانے کے بعد آپ کو کچھ عجیب تو محسوس نہیں ہو رہا۔“ اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔
”کیا مطلب؟ کیا ایسا ہونا چاہیے تھا؟“

”مم۔ میں کیا کہوں۔ میں نے کل چھپ کر اپنے ماں باپ کی باتیں سن لی تھیں۔ مجھے شبہ ہے کہ کھانے میں زہر ملا تھا۔“ لڑکی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی رو دے گی۔

”یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ شاید اسی لیے تم کھانا نہیں کھا رہی تھیں۔ لیکن تمہارے ماں باپ ایسا کیوں کریں گے؟“ میں نے الجھ کر کہا۔

”ماں باپ نہیں صرف میرا باپ۔ مگر ابھی تک کسی کو کچھ نہیں ہوا۔ شاید میرا خیال غلط ہے۔ پتا نہیں مجھے آپ سے یہ بات کہنی چاہیے تھی یا نہیں۔“

”کہیں تم کسی نفسیاتی عارضے میں تو مبتلا نہیں۔ کوئی فوبیا؟ یا ایسا ہی کوئی اور مسئلہ؟“

”دیکھیے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ براہ کرم میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔“ لڑکی کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی لیکن دور سے اس کے باپ کی آواز سنائی دی۔ وہ اسے پکار رہا تھا۔

”مجھے جانا ہو گا۔“ لڑکی نے بے حد پریشانی سے کہا اور تیزی سے باہر نکلتی چلی گئی۔

میں سر تھام کر رہ گیا۔ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے موم بتی اٹھائی اور کمرے سے باہر آ گیا۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچا تو دیکھا کہ سب لوگ لاؤنج میں اکٹھے تھے۔ سدرہ کی ماں بھی وہیں موجود تھی۔ وہ باتیں کر رہے تھے۔

”ڈاکٹر صاحب! میری بیوی کی طبیعت اب بالکل ٹھیک ہے۔ آپ براہ کرم تشریف لے جائیے۔“ قوی نے آہٹ سن کر میری طرف مڑتے ہوئے کہا۔

”ابو! شاید ابھی امی کی طبیعت اتنی اچھی نہیں ہے۔“ شاہدہ بولی۔
”بارش ابھی تک رکی نہیں۔“ میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر قوی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
”ڈاکٹر صاحب بارش اگر صبح تک جاری رہی تو کیا رات بھر یہیں قیام کریں گے۔“ قوی کا لہجہ تلخ تھا۔
”جی اگر آپ اجازت دیں تو۔“ میں نے آہستگی سے کہا۔
”بہت شکریہ۔ میں ایسا ارادہ نہیں رکھتا۔“ قوی نے روکھے پھیکے لہجے میں کہا۔

اب میرے پاس اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ وہاں سے رخصت ہو جاتا۔ میں نے مردہ قدموں سے بیرونی دروازے کا رخ کیا۔ قوی میرے پیچھے تھا۔ جیسے ہی میں باہر نکلا۔ قوی نے بڑے زور سے دروازہ بند کر دیا۔ میں چھجے کے نیچے کھڑا تھا۔ ہر طرف تاریکی تھی اور بارش کی رفتار میں کمی کے آثار نہ تھے۔ کئی منٹ گزر گئے۔ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے بڑی آہستگی سے دروازہ کھلا ہے۔ میرا شک صحیح تھا۔ دروازہ ذرا سا کھلا کسی نے جھانک کر باہر دیکھا عین اسی وقت بجلی چمکی اور پھر اس نے اسی آہستگی سے دروازہ بند کر دیا۔

میں اندازہ لگا چکا تھا کہ دروازہ کھولنے والی سدرہ تھی۔ اس کی لمبی زلفوں اور اداس چہرے کو میں نے اسی ایک سیکنڈ میں دیکھ لیا تھا۔ میرے دل میں خیالات کا تیز بہاؤ جاری تھا۔ کیا اس نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے۔ کیا مجھے اندر جانا چاہیے۔ کہیں میں کسی مصیبت میں تو گرفتار نہیں ہونے والا۔

بالآخر میں نے دروازے پر ہلکا سا دباؤ ڈالا۔ دروازہ واقعی کھلا تھا۔ میں آہستگی سے اندر داخل ہوا۔ اندر موم بتیوں کی روشنی میں مجھے دیکھا جا سکتا تھا۔ میں محتاط انداز میں لاؤنج کی طرف بڑھا۔ اب ان سب کی آوازیں سنائی دینے لگی تھیں۔ انداز سے ایسا لگتا تھا کہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔

”بس اب یہ کھیل ختم ہو جانا چاہیے“ قوی نے اس بار تیز لہجے میں کہا۔

”ابو۔“ سدرہ چیخی۔ تب میں نے کھڑکی سے دیکھا کہ قوی کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔ شاید مجھے الٹے قدموں بھاگ جانا چاہیے تھا لیکن نہ جانے کیوں سدرہ کا خوب صورت چہرہ یک دم میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً اندر داخل ہو گیا۔ مجھے دیکھ کر وہ سب چونک اٹھے۔

”ڈاکٹر صاحب آپ تو چلے گئے تھے۔“ قوی گڑبڑا گیا۔
”آپ یہ ریوالور نیچے رکھ دیں۔“ نہ جانے اس وقت اتنی ہمت کہاں سے آ گئی کہ میری آواز خاصی بلند تھی۔

”آپ کے لیے یہی بہتر ہو گا کہ فوراً یہاں سے چلے جائیں۔ ہمارے معاملے میں ٹانگ نہ اڑائیں۔“ قوی نے سنبھلتے ہوئے گرجدار آواز میں کہا۔

میں نے ان سب کی طرف دیکھا۔ قوی کے سوا باقی سب کے رنگ اڑے ہوئے تھے۔ سدرہ تو باقاعدہ کانپ رہی تھی۔
”میں نہیں جاؤں گا“
”ٹھیک ہے تو پھر بھگتو“ قوی نے ریوالور کا رخ میری طرف کیا۔

”ابو قصوروار تو میں ہوں ناں۔ میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں مجھے گولی مار دیں لیکن کسی اور کا کوئی قصور نہیں، ان کو تو بخش دیں۔“ شاہدہ روتے ہوئے چیخی۔

”ہاں ہاں تم قصوروار ہو۔ تمہیں نہیں چھوڑوں گا لیکن اس سے پہلے اس مردود کو ماروں گا۔“ قوی ایسے چیخا جیسے پاگل ہو گیا ہو۔ اس نے اپنے داماد کی طرف انتہائی نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔

شاہدہ نے اس کا ارادہ بھانپ لیا وہ فوراً اپنے شوہر کے آگے آ گئی۔ اس کی ماں اور سدرہ بھی روتے ہوئے ان کی طرف لپکیں۔

”ہٹو سامنے سے“ قوی دھاڑا۔ اس کے بعد جیسے وہ مکمل پاگل ہو گیا۔ اس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ کمرہ گولیوں کی خوفناک آواز کے ساتھ انسانی چیخوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ قوی نے اپنے داماد ہی کو نشانہ بنایا تھا لیکن پہلی گولی شاہدہ کو لگی۔ اس کے بعد اس کی ماں خون میں نہا گئی۔ میں شاید قوی کی طرف بڑھا ہی تھا جب مجھے سدرہ اور اس کے بہنوئی کی آخری چیخیں سنائی دیں اس کے ساتھ ہی میرے دماغ پر بھی اندھیرا چھا گیا۔

میرے کانوں میں کسی پرندے کے چہچہانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میری آنکھیں بند تھیں اور میں کسی ٹھنڈی جگہ پر لیٹا ہوا تھا۔ پھر ایک جھٹکے سے میں نے آنکھیں کھولیں۔ مجھے ایک چھت دکھائی دی۔ میں نے فوراً ادھر ادھر دیکھا۔ میں کسی کمرے کے فرش پر لیٹا ہوا تھا۔ کمرہ خالی تھا اور گرد سے بھرا ہوا تھا۔ فرش پر پڑے رہنے کی وجہ سے میرے کپڑے بھی گرد سے بھرے ہوئے تھے۔ رات کے واقعات کسی فلم کی طرح میرے ذہن کے پردے پر چل رہے تھے۔ میں تیزی سے اٹھا اور تقریباً بھاگتے ہوئے گھر چھان مارا۔ سارا گھر خالی پڑا تھا۔

میرے سر میں دھماکے سے ہو رہے تھے۔ کنپٹیاں سلگ رہی تھیں۔ آخر ہوا کیا ہے؟

میں نے بیرونی دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔ دروازہ کھلا تھا۔ باہر نکل کر دیکھا۔ وہی چھجے والا مکان تھا۔ یہ لوگ کہاں چلے گئے؟ بارش رک چکی تھی۔ بادل رخصت ہو چکے تھے اور نیلا آسمان دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر پڑوس کے مکان پر دستک دی۔ ایک ادھیڑ عمر آدمی نے دروازہ کھولا۔ میری حالت دیکھ کر بری طرح چونک اٹھا۔

”براہ کرم میری حالت پر غور کیے بغیر بتائیے کہ اس مکان میں کون رہتا ہے؟ میں رات بارش سے بچنے کے لیے ان کے ہاں رکا تھا اور پھر۔“

حیرت سے اس شخص کی آنکھیں ابل پڑیں۔

”آپ اس مکان میں ٹھہرے تھے۔ مگر یہ تو پانچ سال سے بند پڑا ہے۔ ہاں کبھی کبھی کچھ عجیب سی آوازیں آتی ہیں۔ اسی لیے تو کوئی اس مکان کو خریدتا نہیں۔ ہم تو نئے آئے ہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ اس مکان میں ایک شخص اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی بڑی بیٹی نے اپنی مرضی سے بھاگ کر شادی کر لی تھی۔ اس شخص نے اپنے داماد اور بیٹی سے صلح کر کے اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا۔ تین چار دن بعد اس گھر سے ان سب کی لاشیں ملی تھیں۔ کسی نے ان سب کو گولیاں مار دی تھیں۔“

”کس نے گولیاں ماری تھیں۔“ میری آواز لرز رہی تھی۔

”پتا نہیں جی۔ ہمیں بھی کسی نے بتایا ہے۔ ہمیں تو اس مکان کے آگے سے گزرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔“ اس شخص نے کہا اور جیسے ایک سرد لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں اتر گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments