کشمیر الیکشن اور تحریک آزادی کشمیر


حسب روایت آزاد جموں و کشمیر عام انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں کروانے کی یقین دھانی کے ساتھ الیکشن کمیشن 25 جولائی کو عام انتخابات کا انعقاد کرنے جا رہا ہے۔ سابقہ عام انتخابات کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ان ”آزادانہ“ ، ”منصفانہ“ اور ”غیر جانبدارانہ“ عام انتخابات کا انعقاد ’اسلام آباد میں برسر اقتدار جماعت کے لیے آزاد جموں و کشمیر میں اپنی حکومت کے قیام کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ”پاکستان میں حکمران جماعت کا ٹکٹ لو اور کامیاب ہو جاؤ“ فارمولا پر عمل کرتے ہوئے کشمیری سیاستدان حکمران جماعت کا ٹکٹ لینے کے لیے بڑھ چڑھ کر بولی لگاتے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے لیے تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز کے مالی اثاثوں کے سامنے تحریک انصاف آزاد جموں و کشمیر کے حقیقی کارکن بھی بے بس دکھائی دیے۔

قارئین کے علم میں اضافے کے لیے عرض کرتا چلوں۔ آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 49 سے بڑھ کر اب 53 نشستوں پر مشتمل ہے، جن میں سے 45 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں جن نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں ان میں 12 نشستیں پاکستان میں مقیم ان مہاجرین جموں کشمیر کے لیے مختص ہیں جو 1947 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ 12 میں سے 6 نشستیں صوبہ جموں اور 6 صوبہ کشمیر کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں۔ باقی 33 نشستوں پر آزاد جموں و کشمیر میں براہ راست انتخابات ہوں گے۔ کل 33 نشستوں میں سے میر پور ڈویژن میں اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 13 جبکہ پونچھ ڈویژن میں 11 اور مظفر آباد ڈویژن میں اسمبلی نشستوں کی تعداد 9 ہے۔ یاد رہے کہ اس بار براہ راست انتخابات میں چار نشستوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔

جبکہ خواتین کے لیے 5، ٹیکنوکریٹ، علماء مشائخ اور بیرون ملک کشمیریوں کے لیے ایک ایک نشست مخصوص ہے۔

آزاد جموں و کشمیر الیکشن کمیشن کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کے عام انتخابات 2021 ء میں 32 لاکھ 20 ہزار 546 رائے دہندگان اپنی رائے سے نمائندے منتخب کرسکیں گے۔ ان میں سے پاکستان میں مقیم مہاجرین کے حلقوں میں ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 3 ہزار 456 ہے۔ حتمی فہرست کے مطابق آزاد کشمیر کے 33 حلقوں میں 602 امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ جبکہ کشمیری مہاجرین مقیم پاکستان کے 12 حلقوں میں 122 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا۔

ان انتخابات کے لیے کسی بھی ایسی جماعت کو نا رجسٹر کیا گیا اور نہ ہی ایسے کسی امیدوار کو الیکشن میں حصہ لینے دیا گیا جو خودمختار کشمیر کے نعرے پر عمل پیرا ہوں۔ جبکہ ایک کالعدم جماعت کو عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے موزوں قرار دیا گیا جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس اقدام پر اور کشمیر الیکشن ترمیمی ایکٹ 2021 کی اس شق پر ہر جمہوریت پسند سیخ پا ہے۔

فارسی کے مشہور شاعر شیرازی نے کہا تھا کہ اگر کوئی مردہ پرندہ وادی کشمیر آ جائے تو وہ بھی زندہ ہو جاتا ہے۔ مگر جانے کشمیر کو کس کی نظر کھا گئی کہ کنٹرول لائن کے آر پار بٹے کشمیری ظلم و بربریت کی چکی میں مسلسل پسے جا رہے ہیں۔ اس طرف اپنے ہی منتخب کردہ سیاستدانوں کے مظالم جبکہ اس پار کے کشمیری بھارتی مظالم کا شکار ہیں۔ ریاست آزاد جموں وکشمیر، جدوجہد آزادی کشمیر میں ”بیس کیمپ“ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ بیس کیمپ چند چوہدریوں، سرداروں، لٹیروں، غنڈوں، بدمعاشوں اور چوروں کے ہاتھ آ چکا ہے۔ اور قانون ساز اسمبلی میں سیاستدان کم اور ”فنکار“ زیادہ ہیں۔ اب وقت آ پہنچا ہے کہ غیور کشمیری عوام ایسے ”فنکاروں“ سے جان چھڑا لیں۔

آزاد جموں وکشمیر کونسل تو ”کھاؤ پیؤ“ پروگرام بن چکی ہے۔ جس میں ہر وہ ”معتبر“ بیٹھا ہے جو کشمیر کونسل کی سیٹ کی ”بھاری قیمت“ ادا کر سکتا ہو۔ ہر محب وطن کشمیری تو آج تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب ایبٹ آباد جتنے بڑے شہر کو ایک ڈپٹی کمشنر چلا سکتا ہے تو پھر ریاست آزاد جموں وکشمیر میں درجنوں وزیروں اور لاتعداد ”امپورٹڈ مشیروں“ کی کیا ضرورت؟ صرف چار وزیر اس خطے کو چلا سکتے ہیں۔ اگر کسی کو میری اس بات سے اعتراض ہو تو وہ بریگیڈئیر حیات خان کا دور اٹھا کے دیکھ لے جو حقیقی معنوں میں اس خطے کی تعمیر و ترقی کا دور تھا۔

ایک طویل عرصے سے ریاست آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں ایسی ”شکلیں“ نمودار ہو رہی ہیں جو تحریک آزادی کشمیر کے حقیقی مقصد سے نا آشنا ہیں اور وزراء کی فوج کرپشن کے سوا کوئی اور کام کرنا گناہ کبیرہ سمجھتی ہے۔ ممبران قانون ساز اسمبلی ہر پانچ سال بعد اگلی مدت کے لئے ایسے ”انویسٹمنٹ“ کرتے ہیں جیسے ریاست آزاد جموں وکشمیر ایک ”انٹرپرائز“ ہو۔

سابقہ کچھ حکومتوں کے ”لچھن“ دیکھ کر تو معاہدہ امرتسر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت مہاراجہ گلاب سنگھ برطانوی حکومت کو ہر سال ایک گھوڑا، اعلی نسل کی 12 بکریاں اور تین جوڑے کشمیری شالوں کے پیش کرتا تھا جبکہ آج کے کشمیری مہاراجے نوجوان نسل کا ”مستقبل“ اپنے معاہدوں کی نظر کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج 70 فیصد پڑھے لکھے کشمیری نوجوان لاہور، راولپنڈی /اسلام آباد کے ہوٹلوں میں ”ویٹری“ کرنے پر مجبور ہیں۔

آج تحریک آزادی کشمیر نازک موڑ پر ہے۔ مودی حکومت ہر وہ حربہ استعمال کر رہی ہے جس سے کشمیریوں کی شناخت مٹائی جا سکے۔ ایسی صورتحال میں اس پار کے کشمیریوں پر ذمہ داری آتی ہے کہ وہ ایسے امیدواروں کا انتخاب کریں جو تحریک آزادی کشمیر کے پاسبان بن سکیں تا کہ ایک ایسی حکومت بنے جو ایک طرف تو اس پار کے کشمیریوں کی فلاح و بہبود کا سوچے اور دوسری طرف وہ حقیقی معنوں میں بیس کیمپ کا کردار ادا کرے۔

یہ الیکشن نہ صرف اس پار بلکہ اس پار کشمیریوں کی بھی قسمت بدل سکتا ہے اگر کشمیری رائے دہندگان اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں۔ اپنا قیمتی ووٹ برادری یا چند سکوں کے نام نہ کریں اور نہ ہی اپنا ووٹ بریانی کی پلیٹ یا پانچ سال بعد ایک مالا گلے میں ڈالنے والے پر ضائع کریں۔ گلی پکی کروانے، نلکا یا بجلی کی تار لگوانے جیسے جھوٹے وعدوں کی نذر بھی ہرگز نہ کریں۔ اگر آج کشمیری عوام نے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہ کیا تو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی کیونکہ یہ الیکشن کشمیریوں کے مقدر کا فیصلہ کرے گا۔

شاید کشمیریوں کے لئے آخری امید ایک ”صاف ستھری قانون ساز اسمبلی“ ہی ہے کیونکہ کشمیر کمیٹی والے تو مودی سرکار کے ظالمانہ اقدام کے خلاف بس احتجاجاً چند منٹ کی خاموشی کا اعلان کرنے کے بعد مسلسل خاموش ہیں۔

ریاست آزاد جموں وکشمیر آج پھر کسی کے ایچ خورشید، سردار ابراہیم خان، بریگیڈئیر حیات خان جیسے سچے پکے کشمیری کو پکار رہی ہے۔ آج 25 جولائی کا دن کشمیریوں سے تقاضا کرتا ہے کہ خدا کے لئے اب کوئی اور ”مہاراجہ ہری سنگھ“ نہ چنیں۔ اللہ مجھے اور آپ سب کو ووٹ کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments