مسئلہ بلوچستان، مذاکرات یا مذاق رات


وفاق نے اس بجٹ کے بعد بلوچستان کے لئے 730 ارب کے پیکیجز دیے جن میں 131 mega projects شامل ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران حکومت نے اس ترقیاتی پیکیج سے قبل بلوچستان کے بہت سے میگا پراجیکٹس کو منسوخ بھی کر دیا تھا بلوچستان پر ایسی شفقت سی پیک میں دل چسپی ظاہر کرنا ہے یا بلوچستان کے حوالے سے اس حکومت کا بھی دانہ پانی کے بعد کچھ خواہشات کا اظہار کرنا ہے۔

اپنی خواہش کا اظہار تو وزیر اعظم عمران خان نے گوادر کے دورے کے موقع پر اس وقت کیا تھا جب وہ بلوچستان کے لئے میگا پراجیکٹس کا اعلان و افتتاح کر رہے تھے اسی دوران وزیراعظم عمران خان کے منہ سے سے یہ جملے سننے کو ملے کہ میں سوچ رہا ہوں بلوچستان کے ناراض مزاحمت کاروں سے بات چیت بڑھاؤں اور مذاکرات ہوجائیں۔

وزیراعظم کی طرف سے یہ سوچنا قابل تعریف عمل ہے اور ایسی حکمت عملی کو ہر صاحب عقل و خرد خوشی سے قبول کرے گا لیکن اگر ہم تاریخ کے دریچے سے پاکستان کی سیاسی قیادت کی ایسی کوششوں کو جھانکیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایک دوسری قیادت بھی ہے جو ایسے اختیارات ہی نہیں دیتی کہ سیاسی قیادت بلوچستان کے جہد کاروں سے حقیقی معنوں میں مذاکرات کر سکیں البتہ یہ اختیار سیاسی قیادت کو دی جاتی ہے کہ وہ بلوچستان پر ہونے والے مظالم پر ایک دوسرے کی مذمت کریں اور بلوچستان کے لوگوں سے معافی مانگیں اور یہ معافی ناموں کی اختیارات ایک تلخ تاریخ رکھتی ہیں۔

بلوچستان پر جب ایوب خاں نے ظلم کیا تو جناب بھٹو صاحب بلوچستان سے معافی مانگنے پہنچ گئے بھٹو کے دور کی مظالم پر جنرل ضیاءالحق معافی مانگنے پہنچ گئے ضیاء کی غلطیوں کی معافی نواز شریف بلوچ قوم سے مانگتے رہے اسی طرح نواز شریف کے دور کی زیادتیوں کی معافی مشرف مانگتے رہے پھر مشرف نے جو امن برباد کیا بلوچستان کا اس کی معافی جناب زرداری آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے ذریعے مانگتے رہے پھر نواز شریف صاحب نیشنل ایکشن پلان لے کر آئے اور اب بلوچستان پر رحم عمران کو بھی آ گیا یہ تلخ تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچستان کے مسائل سے کسی کو غرض نہیں ہاں وسائل پر تو سب کی نظر ہے۔

سب سے پہلے بنیادی نقطہ تفکر یہ ہے کہ بلوچستان میں امن کیسے آئے گا اور بلوچستان کیسے ترقی کرے گا اگر نیک نیتی سے دیکھا جائے تو بلوچستان میں امن ممکن ہے اور بلوچستان ترقی بھی کر سکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے امن و ترقی میں پاکستان کی ترقی ہے مگر سیاسی و عسکری قیادت کو بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا کہ وہ بنیادی وجوہات کیا ہیں جن کی وجہ سے بلوچستان کا خطہ ایشاء کی غریب ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے بلوچستان کے ساحل و وسائل پر باقی ملک ترقی تو کر رہا ہے لیکن بلوچستان میں تعلیم، روزگار، صحت، سمیت تمام بنیادی ضروریات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

بلوچستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے لاپتہ افراد کے لواحقین سالوں سے پورے پاکستان میں پیدل لانگ مارچ کے ذریعے، سڑکوں، چوراہوں پر مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے یہ بتا رہے ہیں کہ ہمارے بچے گناہ گار ہیں تو عدالت میں پیش کر کے قانون کے ذریعے فیصلے کیے جائیں اسلام آباد کی ٹھنڈی راتوں میں بلوچستان سے نکلتی گیس پر سکھ چین کی نیند سونے والے حکمران اس وقت کہاں تھے جب ڈی چوک پر بلوچستان کی مائیں ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں پاکستان کے حکمرانوں اور سپریم کورٹ کے انصاف کے منتظر تھی لیکن اس وقت بلوچستان کا کسی کو خیال تک نہیں آیا دو ہفتوں کے بعد عمران خان کو خیال آیا کہ بلوچستان کی مائیں بہنیں بیٹیاں اپنے پیاروں کی تلاش میں اسلام آباد کی سڑکوں پر بیٹھی ہیں۔

بلوچستان میں مذاکرات و معاہدوں کی ایک تلخ تاریخ ہے بلوچستان کے فیصلے قطعاً سیاسی قیادت نہیں کر سکتی کیونکہ ان کے پاس بلوچستان کے حوالے سے کوئی اختیارات ہی نہیں بلوچستان کے مسائل قیام پاکستان سے ہی شروع ہوئے ہیں جب قائد اعظم محمد علی جناح صاحب اور خان اف قلات احمد یار خان کے درمیان Stand still معاہدہ ہوا جس میں یہ واضح تھا کہ بلوچستان خودمختار ہوگا مگر فیڈریشن کے ساتھ ہوگا جس میں چند معاہدات بھی ہوئے کچھ پاکستان کے ذمے اور کچھ بلوچستان کے تاریخ گواہ ہے پھر اسی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی اور خان آف قلات کے خلاف فوج کشی کی گئی اور انہیں گرفتار کیا گیا اسی طرح ریاست کی جانب سے قرآن کو ضامن بنا کر نواب نوروز خان کے ساتھ پولٹیکل ایگریمنٹ کی خلاف ورزی ہوئی مذاکرات کے نام پر انہیں اور ان کے بیٹوں اور ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا نواب صاحب جیل میں انتقال کر گئے ان کے بیٹوں اور ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی، بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی نے جب 1972 میں بلوچستان کی داخلی خودمختاری مانگی تو بھٹو صاحب کو یہ بغاوت محسوس ہوئی اور وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت گرا دی اور بلوچستان میں گورنر راج قائم کیا، اسی طرح بلوچستان میں مذاکرات کے دوران ہی مشرف نے نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کیا جو پاکستان کی تاریخ میں سیاہ واقعہ تھا۔

یہ سب ہونے کے بعد بلوچستان کے مزاحمت کاروں سے عمران حکومت کی طرف سے مذاکرات کا سوچنا نیک عمل ہے لیکن بلوچستان کے مزاحمت کاروں کو مذاکرات کے نام پر تلخ رویوں کا سامنا رہا ہے اس کے بعد ان کی طرف سے پیش رفت کسی نعمت سے کم نہیں۔

وسائل سے مالا مال بلوچستان پاکستان میں ہر اعتبار سے منفرد اہمیت رکھتا ہے بلوچستان قدرتی گیس، سونا، چاندی، کوئلہ، تانبا، اونکس، اور بہت سے معدنیات سے بھی مالا مال ہے بلوچستان پاکستان کے چالیس فیصد رقبہ رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے لوگ غربت، تنگدستی، افلاس، بدامنی، کی حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

بلوچستان کے مسائل کا حل اسی میں ہے کہ وسائل کا منصفانہ تقسیم کریں، بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں گرانا بند کریں، لاپتہ افراد جو کہ ہزاروں میں ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کریں، بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ جیسے دہشتگردوں کی ریاستی سرپرستی بند کریں، ان جیسے بہت سے مسائل و مشکلات ہیں جو کہ اس وقت بلوچستان کے بلوچ و پشتون برداشت کر رہے ہیں اور یہی وہ بنیادی باتیں ہے جو بلوچستان میں ریاست مخالف ذہنیت کو تقویت دے رہے ہیں اور بہت سے نوجوان پہاڑوں کا رخ کر رہے ہیں جو کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہیں بلوچستان کے مسئلہ کو حل کرنے اور مزاحمت کاروں سے کامیاب مذاکرات کے لئے پاکستان کے سیاسی و عسکری قیادت کو بلوچستان کے بنیادی مسائل کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments