گہرے سمندروں میں کان کنی کی جانب پیش رفت

ڈیوِڈ شُکمین - بی بی سی سائنس ایڈیٹر


کیا سمندروں کی تہہ میں کانیں ایک حقیقت بننے والی ہیں؟

بحر الکاہل کے خطے میں واقع چھوٹے سے ملک ناؤرو نے یہ مطالبہ کر کے ہلچل مچادی کہ ڈیپ سی مائننگ یعنی گہرے سمندروں کی تہہ میں کان کنی کے لیے ضابطے اگلے دو برس کے اندر بنا لیے جائیں۔

بقائے ماحول کے لیے سرگرم تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اس سے معدنیات سے مالا مال سمندر کی تہہ میں ان کمپنیوں میں کان کنی کا تباہ کن رجحان پیدا ہوگا جو سمندر کی گہرائی سے قیمتی معدنیات نکالنے کے لیے بیتاب ہیں۔

مگر ڈیپ سی مائننگ کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ زیر آب ایسا کوئی منصوبہ برسوں تک شروع نہیں کیا جا سکتا۔

تو پھر پریشانی کیسی؟

یہ واویلا اصل میں اس خط کی وجہ سے مچ رہا ہے جس کے اندر دور رس اثرات کے حامل ایک بین الاقوامی معاہدے میں موجود بین السطور بعض باتوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

ناؤرو بحر الکاہل کے ایک جزیرے پر قائم ملک ہے جس نے اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی (آئی سی اے) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سمندر کی گہرائی میں کان کنی سے متعلق قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے عمل کی رفتار تیز کرے۔

اس نے سمندروں سے متعلق اقوام متحدہ کے میثاق، یو این کنوینشن آن دا لا آف دا سی، کی ایک ذیلی شق کا حوالہ دیا ہے جس میں لکھا ہے کہ اگر کوئی ملک یہ سمجھتا ہے کہ بات چیت کی رفتار سست روی کا شکار ہے تو وہ ’دو سال کی شق متحرک‘ کر سکتا ہے۔

ناؤرو کان کنی کرنے والی ڈیپگرین کمپنی کا پارٹنر ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ’عالمی برادری کی طرف سے اس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے، کہ وہ ضابطوں کو یقینی بنانے کے لیے ایسا قدم اٹھائے۔

اس کا کہنا ہے کہ کلائمیٹ چینج کا سب سے زیادہ نقصان اسے ہوگا اس لیے وہ سمندر کی تہہ میں پڑی چٹانوں تک، جنھیں نوڈلز بھی کہا جاتا ہے، پہنچنے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان چٹانوں یا پتھروں میں کوبالٹ اور دوسری ایسی دھاتیں بڑی مقدار میں موجود ہیں جو بیٹریوں میں استعمال ہوتی ہیں اور جن کا تیل و گیس کی بجائے توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے فائدہ اٹھانے میں اہم کردار ہے۔

اس سے کیا فرق پڑے گا؟

اگر آئی سی اے دو سال کے اندر ضوابط طے نہیں کر سکی تو وہ ناورو کو عبوری اجازت دیدے گی، مگر کوئی نہیں جانتا کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔

ڈیپ سی کنوینشن کوایلیشن کے میتھیو جیانی کا کہنا ہے کہ ’اس سے تباہی کا راستہ کھل سکتا ہے۔‘

اگر ناؤرو اور ڈیپگرین کو عبوری لائسنس مل جاتا ہے تو بہت سی کمپنیاں اور ممالک دو سال کے قاعدے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جس سے ایک افراتفری پیدا ہو جائے گی۔

’ایسے میں ضوابط ترتیب دینے کے لیے مذاکرات کا عمل مربوط اور منصوبے کے مطابق نہیں ہو پائے گا۔‘

انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی کیا کہتی ہے؟

اتھارٹی کے سیکرٹری جنرل مائکل لاوج نے بی بی سی کو بتایا کہ ناؤرو کے اقدام کے نتائج زیادہ برے نہیں نکلیں گے اور یہ کہ گہرے سمندروں میں مائننگ شروع کرنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔

اپولو ٹو

اپولو ٹو پروٹوٹائپ کی آزمائش جنوبی سپین کے ساحل پر 2019 میں کی گئی تھی

ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں کونسل آف آئی سی اے نے 2020 تک کان کنی سے متعلق ضوابط کو حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا تھا، مگر کووڈ-19 کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوگئی۔

اگر ناؤرو اور اس کی پارٹنر ڈیپگرین دو برس کے عرصے میں مائننگ لائسنس کے لیے درخواست دے بھی دیتی ہے تو اس کے اجرا میں کئی رکاوٹیں ہوں گی جن میں اینوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ اور نقصان کے ازالہ کا منصوبہ شامل ہے۔

لاوج نے مجھے بتایا کہ ’ضوابط کے موجودہ مسودے کے تحت بھی کسی درخواست کی منظوری کا عمل لمبا ہے اور اس میں کئی چیکس اینڈ بیلنسِز ہیں۔‘

اس میں کم سے کم دو سے تین برس کا عرصہ لگے گا جس کا مطلب ہوا کہ حقیقی کان کنی 2026 کے قریب ہی شروع ہو سکے گی۔

سمندر کی گہری تہہ پر کیا اثر پڑے گا؟

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھیں سمندر کی گہری میں موجود اِیکوسسٹم یا ماحولی نظام کا مکمل ادراک نہیں ہے مگر وہ جانتے ہیں کہ یہ اس سے کہیں زیادہ متحرک اور پیچیدہ ہے جتنا کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا۔

یہ نوڈلز یا چٹانیں لاتعداد جانداروں کا مسکن ہیں اور لاکھوں سال پہلے وجود میں آنے والی ان چٹانوں سے معدنیات نکالنا آسان نہ ہوگا۔

یہ بھی نہیں معلوم کے بھاری مشینوں کے استعمال کی وجہ سے سمندر کی تہہ میں دھول کے جو وسیع اور عریض بادل اٹھیں گے سمندری زندگی پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔

اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں وقت لگے گا اور اس کا ملنا دو سال کے اندر ممکن نہیں ہے جیسا کہ ناؤرو نے مطالبہ کیا ہے۔

مگر دا پیو چیریٹیبل ٹرسٹس سے وابستہ اینڈرو فرائڈمین کو خدشہ ہے کہ منظوری کا عمل تیز کر دیا جائے گا۔

’سمندر کی تہہ بہت وسیع، نامعلوم اور حیاتیاتی طور پر مالا مال ہے، اور آئی سی اے کو چاہیے کہ کسی بھی طرح کی کان کنی شروع ہونےسے پہلے وہ گہرے سمندروں کے ماحولی نظاموں کو محفوظ بنانے کے لیے تمام درکار وسائل اور وقت کو بروئے کار لائے۔‘

اس کے بعد کیا؟

جنگلی حیات کی بقا کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جسیکا بیٹل کا کہنا ہے کہ تمام خطرات کا صحیح معنوں میں جائزہ لینے کے لیے ایک ایسی مدت کا تعین کیا جانا ضروری ہے جس کے دوران کان کنی پر عارضی پابندی ہو۔

’ہمیں اس وقت تک تمام سرگرمیوں کو روکنا ہوگا جب تک ہمارے پاس سائنسی بنیادوں پر کوئی فیصلہ کرنے کے لیے شواہد میسر نہ آ جائیں۔‘

وہ دو سال کے اندر کان کنی شروع ہو جانے کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہیں کیونکہ ابھی مائننگ مشینیں ہی تیار نہیں ہیں، مگر جلدی میں ضوابط کی منظوری کے خدشے کے بارے میں زیادہ پریشان ہیں۔

’جیت کس کی ہوگی؟ احتیاطی اصول اور ماحول کا خیال رکھنے کی؟ یا تجارتی مفادات کی؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32468 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp