جیہان سادات: مصر کی خاتونِ اول جنھوں نے حقوقِ نسواں کی نوعیت بدل دی

سارا فاؤلر - بی بی سی نیوز


Egyptian human rights activist Jehan Sadat, First Lady of Egypt, UK, 10 November 1975.

جیہان سادات نے عورتوں کے حقوق اور امن عالم کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی

جیہان سادات سٹیج پر چند میٹر کے فاصلے پر کھڑی تھیں جب مسلح حملہ آوروں نے قاہرہ میں فوجی پریڈ کے دوران اُن کے شوہر پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی۔

ان کے شریکِ حیات، انور سادات کے، جو اُس وقت مصر کے صدر تھے، جسم میں کئی گولیاں پیوست ہو گئیں اور دو گھنٹوں بعد وہ ہسپتال میں ہلاک ہوگئے۔ یہ 6 اکتوبر سنہ 1981 کا دن تھا، اور اس واقعہ کے ساتھ ہی جیہان سادات کی خاتونِ اول کی حیثیت سے تمام سرگرمیاں اچانک ختم ہو گئیں۔

جیہان کا 88 برس کی عمر میں انتقال ہوا، انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سماجی انصاف اور خواتین کو بااختیار بنانے پر صرف کیا، اور اُن کی زندگی کا یہی مشن اُن کے شوہر کے قتل کے بعد بھی جاری رہا۔

امیریکن یونیورسٹی آف قاہرہ کے سیاسی مطالعہ کے شعبے سے وابستہ، پروفیسر نوحا بکر کہتی ہیں کہ ‘انھوں نے مصری سماج میں بنیادی تبدیلیاں متعارف کرائیں اور آنے والی نسلوں کو متاثر کیا۔’

رشتے کا مشکل فیصلہ

جیہان صفوت رؤف سنہ 1933 میں مصری نسل کے باپ اور انگریز ماں کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔ اس وجہ سے انھیں ایک متنوع زندگی کو سمجھنے کا بہتر موقعہ ملا، وہ کرسمس کی تقریبات دیکھتیں لیکن ناشتے میں انگریزی روایت کے ‘فاوا بینز’ کی بجائے کارن فلیکس نوش کرتی تھیں۔ پھر وہ رمضان کے دوران تمام روزے رکھتی تھیں۔

جنسی عدم مساوات کی ناپسندیدگی ان میں سکول کے زمانے سے سرایت کر گئی تھی جب انھیں بتایا جاتا تھا کہ بجائے اس کے وہ ریاضی اور سائنس کی تعلیم حاصل کریں اور یونیورسٹی جانے کی تیاری کریں۔ انھیں ایک لڑکی ہونے کی وجہ سے سلائی کڑائی اور کھانے پکانے کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ شادی کے لیے تیار ہوں۔

جیہان سادات نے اپنی خودنوشت ‘اے وومین آف ایجپٹ’ (مصر کی ایک عورت) میں لکھا ہے کہ ‘مجھے ہمیشہ اس فیصلے پر افسوس ہوا۔ میں کبھی بھی نہیں چاہوں گی کہ میری بیٹیاں اپنے مستقبل کے لیے اپنی مرضی کے راستے اختیار کرنے کے حق سے محروم ہوں۔’

اُن کے اپنے مستقبل میں بننے والے شوہر، انور سادات سے پہلی ملاقات پندرہ برس میں اُس وقت ہوئی تھی جب وہ اپنے ایک عزیز، جو کہ فوج کے ایک سابق افسر تھے، سے ملنے اُن کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب انور قید سے رہا ہوئے تھے تاکہ وہ برطانوی تسلط کے خلاف اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑیں۔

Marriage of Jehan and Anwar Sadat in 1949.

جیہان کے والدین نے اُن کو انور سادات سے شادی کرنے کی اجازت دینے سے پہلے کچھ سوچ و بچار کی۔ انور اُس وقت طلاق یافتہ تھے اور جیہان سے پندرہ برس بڑے تھے۔

اُس وقت جیہان کی ماں اپنی بیٹی کی شادی ایک انقلابی فوجی افسر سے جو طلاق یافتہ تھا اور جس کی عمر لڑکی سے دوگنی تھی، کرنے کے خلاف تھیں۔ لیکن انور نے ایک ملاقات میں اُن سے ایک انگریزی کے ناول نگار، چالرس ڈِکنز پر گفتگو کے دوران اُن کو جہیان سے شادی کے لیے قائل کر لیا۔ جیہان کی ماں نے بعد میں اپنی بیٹی سے کیا ‘وہ بہت ذہین ہے۔ اُس کا اچھا کردار ہے۔ وہ تمہارا بہت خیال رکھے گا۔ اور تمہیں بور نہیں ہونے دے گا۔’

ان کی شادی سنہ 1949 میں ہوئی اور تین خوش و خرم دہائیوں اکھٹے بسر کی۔ ان کے چار بچے ہوئے۔

مرکزِ نگاہ بننے والی پہلی خاتونِ اول

شادی کے تقریباً تین برس بعد اُن کے شوہر کا نام مصر کے گھروں میں ایک ہیرو کے طور پر لیا جانے لگا کیونکہ انھوں نے مصر میں جمال عبدالناصر کے فوجی انقلاب میں حصہ لیا تھا جس نے برطانیہ کے حمایت یافتہ بادشاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹا تھا جس کی وجہ سے مصر کی سیاست کا رُخ ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔

نئی حکومت میں انور سادات کا کئی اہم اعلیٰ عہدوں پر تقرر ہوا اور بالآخر وہ صدر ناصر کے انتقال کے بعد مصر کے صدر منتخب ہوئے۔

جیہان نے اُس وقت یہ عزم کیا کہ وہ سابق صدور کی بیویوں کی نسبت زیادہ فعال کردار ادا کریں گی۔ اسی لیے وہ اکثر سرکاری تقریبات میں شرکت کرتیں اور غیر ملکی دوروں کے موقع پر ان کی تصویریں اپنے شوہر کے ہمراہ اکثر شائع ہوتی رہتیں۔ اس کے علاوہ ان کی اپنے گھر پر کام کاج کرتے ہوئے اور اپنے خاندان کے ارکان کے ہمراہ تصویریں بھی عوامی دلچسپی کا موضوع بنیں۔

Egyptian President Anwar Sadat has cake and tea with his wife Jehan at their summer home in Alexandria 29 July 1972

جیہان اپنے شوہر انور سادات کے ہمراہ سنہ 1972 میں مصر کے شہر الیگزینڈریہ میں اپنے موسم گرما کے گھر میں۔

جیہان کا اُس کی سرکاری سرگرمیوں کے دوران پہلا مشہور ہونے والا تنازعہ سنہ 1960 کی دہائی میں پیدا ہوا تھا۔ وہ دریائے نیل کے ڈیلٹا میں، یعنی اس دریا کی وہ مُثلث نُما زمین جو سمندر میں اس کے دہانے پر بن جاتی ہے، میں رہنے والوں کی سخت زندگی سے آگاہ ہوئیں۔ وہ اس ڈیلٹا میں موجود تلّا نامی ایک گاؤں کی عورتوں کی مدد کرنا چاہتی تھیں جنھیں رقم کی شدید ضرورت تھی۔ انھوں نے طے کیا کہ اس دشوار علاقے کی عورتوں کی مدد کریں گی۔

انھوں نے اُس علاقے میں ایک باہمی تعاون کی ایک تنظیم قائم کی اور اُن عورتوں کو سلائی مشینیں دیں جس کو وجہ سے وہ عورتیں معاشی طور پر اپنے شوہروں سے آزاد ہوگئیں۔

جو سلائی مشینوں کا چھوٹا سے کارخانہ 25 سلائی مشینوں سے شروع ہوا تھا اُس میں جلد ہی 100 عورتوں نے کام کرنا شروع کردیا جو روزانہ چار ہزار یونیفارم یومیہ تیار کرتی تھیں۔

ڈاکٹرف نوحا بکر کہتی ہیں کہ ‘انھوں نے چھوٹی رقم کے قرضے دینے کا سلسلہ شروع کیا اور عورتوں کو بااختیار بنانا شروع کردیا — وہ اُن عورتوں کے سِلے ہوئے کپڑوں کی نمائش کا اہتمام کرتیں اور انھیں فروخت کرتیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اگر عورتیں معاشی لحاظ سے بااختیار ہوں تو وہ سیاسی طور پر بھی بااختیار ہو جائیں گی۔

تلّا میں عورتوں کے بننے والی تنظیم ‘تلّا سوسائٹی’ جیہان کی وجہ سے بننے ہونے والے کئی منصوبوں کا آغاز تھا۔ انھوں نے معذور سابقہ فوجیوں اور عام شہریوں کی بحالی کے پروگراموں کا بھی آغاز کیا اور کئی شہروں میں یتیم خانے بھی بنوائے۔

جیہان کے قوانین

ایک دہائی کے بعد جیہان نے مصر کے ایسے سماجی قوانین میں اصلاحات کی مہم کی حمایت کی جن میں تبدیلی کے بعد مصر کو عورتوں کو پہلی مرتبہ اپنے شوہر کو طلاق دینے کا بھی اختیار ملا، وہ طلاق کے بعد اپنے بچوں کو بھی اپنی تحویل میں رکھ سکتی تھیں۔

ان قوانین می اصلاحات کے لیے انھیں اپنے شوہر کو قائل کرنے کے لیے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اُن کا ذکر انھوں نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ انھوں نے اپنے شوہر سے کہا تھا کہ ‘انور، بمارے ملک کی نصف آبادی عورتیں ہیں۔ مصر میں جمہوریت فروغ نہیں پاسکے گی جب تک عورتیں اُتنی ہی آزاد نہ ہوں جتنے کے مرد ہیں۔ ہمارہ ملک کے رہنما کے طور پر تمہاری یہ ذمہ داری ہے کہ عورتیں بھی مردوں کے برابر آزادی محسوس کریں۔’

سنہ 1979 کی گرمیوں میں میں قدامت پسند مسلمانوں کے سخت ردعمل کے باوجود انور سادات نے جیہان کی خواہش کے مطابق عورتوں کو طلاق کا حق دیا اور اس کے علاوہ ایک اور قانون جاری کیا جس کے مطابق پارلیمان میں خواتین کی تیس نشستیں مخصوص کیں۔ ان تمام اقدامات جن پر بعد میں پارلیمان میں بھی قانون سازی کی گئی، یہ ‘ جیہان کے قوانین’ کے نام سے مشہور ہوئے۔

مروت کویوک جو قاہرہ میں سفارتکاروں کی بیویوں کی تنظیم کے سربراہ کے طور پر جیہان کو قریب سے جانتی تھیں، کہتی ہیں کہ ‘اُن (جیہان) کے اقدامات نے عرب عورتوں کے بارے میں دنیا کے تصورات کو بدل دیا اور آنے والی تمام خواتینِ اول کے لیے یہ طے کردیا کہ وہ سیاسی طور پر زیادہ فعال کردار ادا کریں گی۔’

Jehan Sadat widow of Anwar Sadat speaking to the Unique Lives and Experiences at Roy Thomson Hall on 28 April 2003

اپنے شوہر کی ہلاکت کے بعد جیہان اپنا وقت مصر اور امریکہ میں گزارا جہاں وہ مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتی تھیں۔

اکتالیس برس کی عمر میں جیہان نے دوبارہ سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے قاہرہ یونیورسٹی میں عربی ادب پڑھنے کے لیے داخلہ لیا —- یہ وہ وقت تھا جب اُن کے تین بڑے بچے بھی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

انھوں نے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور کچھ برس کے بعد ادب کے تقابلی جائزے کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ بعد میں انھوں نے قاہرہ اور امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم و تدریس کے لیے ملازمت بھی کی۔

نوحا بکر کہتی ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ جیہان نے اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کا دفاع کیا تھا اور یہ سب کچھ اُن دنوں بلیک اینڈ وائیٹ ٹیلی ویژن پر لائیو نشر کیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان سمیت کئی خواتین نہیں انھیں اپنے لیے ایک ایسی مثال کے طور پر دیکھا جس کے قدموں میں چلتے ہوئے وہ آگے بڑھیں۔

ڈاکٹر نوحا بکر کہتی ہیں کہ ‘جب میں تیس برس کی ہوئی تو بچوں کی پیدائش کے بعد میں نے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے دوبارہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ ایسا کرنے کے لیے میرے سامنے کون مثال تھی؟ وہ تھیں۔’

چھیالیس برس کی بیوا

سنہ 1978 میں انور سادات پہلے عرب رہنما بن گئے جنھوں نے اُس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کی سفارتی کوششوں کے بعد اسرائیل کے ساتھ امن قائم کیا۔ اُسی برس اسرائیلی وزیرِ اعظم مناخیم بیگن اور انھیں امن کا مشترکہ نوبل انعام دیا گیا۔

Egyptian president Anwar el-Sadat and his wife Jehan pose with President Jimmy Carter and First Lady Rosalynn Carter at the Pyramids, during a diplomatic visit by the Carters on 10 March 1979

اسرائیل سے امن معاہدے کے ایک برس بعد جیہان اور انور سادات اُس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر اور امریکی خاتون اول روزلین کارٹر کے ہمراہ اہرام مصر کے سامنے تصویر بنوا رہے ہیں۔

اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنے کے فیصلے نے مصریوں کی ایک بڑی تعداد کو ناراض کردیا تھا، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں اُن کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہاں تک کہ جیہان کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ وہ پہلے پہل تو اِس فیصلے پر حیران ہوگئی تھیں، لیکن وہ اُن کی حمایت کرتی رہیں۔’

جیہان نے ایک مرتبہ ایک یہودی میڈیا ‘دی جیوش کرونیکل’ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ‘اُن کا امن کا منصوبہ نہ صرف میرے لیے بلکہ پورے عالمِ عرب کے لیے ایک دھچکا تھا۔’

اس امن کے معاہدے پر دستخط کے دو برس بعد جس کی عالمی سطح پر بہت پذیرائی کی گئی تھی اور عالم عرب میں بہت مذمت کی گئی تھی، سنہ 1981 میں انور کو قاہرہ میں ایک فوجی پریڈ کی تقریب میں فوج میں مذہبی رجحان رکھنے والے افسران نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ یہ فوجی پریڈ سنہ 1973 کی مصر کی اسرائیل سے جنگ کی تقریبات کا حصہ تھی۔

جیہان کہتی ہیں کہ انھیں اور ان کے شوہر دونوں کو اپنی ذاتی سلامتی کے لیے اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے کے خطرات کا علم تھا۔

سنہ 2015 میں بی بی سی کے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا کہ انھوں نے انور سے کہا تھا کہ وہ بلٹ پروف جیکیٹ پہنا کریں، لیکن انھوں نے انکار کردیا تھا۔ ‘وہ اپنی حفاظت کا کبھی بھی خیال نہیں کرتے تھے۔’

جیہان کی عمر اُس وقت 46 برس تھی جب انور کو قتل کیا گیا تھا۔ اُس کے بعد کی اپنی باقی ماندہ زندگی کو انھوں نے امن کے لیے کی گئی کاوشوں کو دنیا بھر میں لیکچر دے کر تاریخ میں محفوظ کرنے کے لیے بسر کی۔

اپنی موت سے 12 برس پہلے انھوں نے امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں ‘انور سادات چیئر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ’ کے لیے لکھا تھا ‘امن — یہ لفظ، یہ نظریہ – یہ منزل – اس نے میری زندگی کو از سرِ نو ترتیب دیا ہے۔ میں ہر وقت امن کی امید کرتی ہوں اور اس کے لیے دعا کرتی ہوں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp