ڈی آئی جی کی محبوبہ ( 2 )


(گزشتہ قسط کا آخری حصہ)

پاکستان سے دولت لوٹ کر مفرور یہ سیاسی اور سرکاری فرزندان توحید پیچھے رہ جانے والے سیاست دانوں، ہر قسم کے افسروں اور تھانے داروں کی کرپشن اور نا اہلی پر تبرہ بھیجتے ہیں۔ اللہ سبحانہ کو تواب الرحیم مان کر سب نے یہاں داڑھیاں رکھ لیں ہیں۔ دوران ملازمت جو مال کمایا ہے وہ بیگمات کے کولہوں کی چربی کے معاملے میں ہوا کی جسمانی خصوصیات (Physical Properties) کی مانند ہے۔ وزن بھی رکھتا ہے۔ حرارت سے پھیلتا ہے، دباؤ ڈالتا ہے، جگہ بھی گھیرتا ہے مگر دکھائی نہیں دیتا۔

ارے میں بھی کیسی جھلی (پاگل) ہوں اپنے بارے میں تو کچھ بتایا ہی نہیں اور درمیان سے داستان چھیڑ دی۔ پلیز ایک بات کا خیال رکھیں میں نے ٹوانہ صاحب، ظہیر، ماہی راج اور ایک اور اہم ہستی جن کا ذکر آگے آئے گا جو کچھ بھی بتایا ہے وہ اسٹیٹ سیکرٹ تو نہیں مگر اعتماد کا سلسلہ ہے۔ یہ نہ ٹوٹے، خیال رکھیے گا۔

٭٭٭ ٭٭٭

اب میں ذرا پٹڑی بدلوں۔ مجھے واحد متکلم (First Person Singular) میں گفتگو کرنا بالکل پسند نہیں۔ آپ اجازت دیں تو میں اپنی یہ داستان بیان کرنے کے لیے صیغہ غائب متکلم (Third Person Singular) استعمال کر لوں۔ کبھی آزمایے گا، تیسرا وجود یا تیسرا کنارہ بن کر جینے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اسی لیے تو ٹیپو اکثر کہا کرتے تھے تم خود کو کبھی میری آنکھوں سے چھپ کر دیکھو۔

سو صیغہ غائب متکلم یہاں سے شروع۔ پیٹر جاسوس بینو کے نور نظر، رشک قمر اس کے پہلے اصلی باضابطہ مرد ٹیپو جن کا تعلق، ملک کے ایک نام چیں جاسوسی ادارے سے تھا انہوں نے اسے بانہوں میں برہنہ سمیٹ کر ایک دن بتایا تھا کہ ہمارے مری والے اسکول میں جاسوس لوگوں کو سکھایا جاتا ہے۔ عام بن کر گھل مل رہو، ساس کے دماغ سے سوچو اور قاتل بن کر کام اتار دو۔

آپ کو ان ٹیپو صاحب کے بارے میں بھی بتا دیا جائے گا، پلیز ڈونٹ رش۔ نہیں بینو Rude نہیں۔ اس کا خیال ہے وہاڑی کی کلاسی لڑکیاں ایسے ہی بات کرتی ہیں۔ وہ جو بسوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ ساڈے پیچھے آئیں ذرا سوچ کے۔ وہ کہیں ان وہاڑی والیوں کے ڈی این اے کے بار کوڈ میں بھی چھپا ہوتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اسے ہلدی اور جلدی دونوں سے چڑ ہے۔ اسی ہلدی کی وجہ سے اس نے سجاوٹ بناوٹ کے ایام مہندی مایوں پر ابٹن نہیں لگایا تھا۔ اپنے منگیتر ظہیر کو بتا بھی دیا کہ شادی کے پیکج میں ہلدی شامل نہیں۔ کہنے لگا کہ پولیس کی پرانی گاڑیوں کا نیلام As and where it is basis یعنی ”جہاں ہیں جیسی ہیں“ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کوئی اور موقع ہوتا تو وہ اس مثال کے دینے پر اس کی لتاڑ لے لیتی مگر وہ کیا ہے۔ ٹیپو نے اسے بہت بعد میں یہ گر سکھایا کہ You catch somewhere، You drop somewhere۔ (کبھی پا لیا، کبھی کھو دیا۔ اچھا لٹریری ترجمہ ہے نا۔) بینو نے اپنے پینڈو بلما کے سینس آف ہیومر پر تبرہ پڑھ لیا۔ آئیں میں آپ کو اپنی یعنی بینو کی کہانی صیغہ غائب متکلم میں سناؤں۔

بینو کی زندگی میں اٹھارہواں برس بھوکمپ کا سال ثابت ہوا۔ ارے آپ کو نہیں پتہ بھوکمپ کیا ہوتا تو سن لیں ہندی میں بھوکمپ، بھونچال یا زلزلے کو کہتے ہیں۔

ان دنوں وہ اگر ٹھیک سے میک اپ کر لیتی تو اس کا حسن رہزن، تخریب کار دکھائی دیتا تھا، شد آتنک وادی۔ بیت اللہ محسود کے گروپ والا۔ کسی دن وہ یوں ہی منھ دھو کر، چھوٹی موٹی کریم اور لپ اسٹک لگا کر ٹھیک سے بال بھی بنا لیتی تو یہی حسن رہزن، غضب ناک جلووں کی فراوانی کی وجہ سے ہنگامہ پرور دکھائی دیتا۔ ایسا کہ اسے امن و امان کے تحفظ کی خاطر عوامی مفاد کے قانون ایم۔ پی۔ او کی دفعہ سولہ کے تحت حراست میں لیا جاسکتا تھا۔

قد اوسط سے قدرے نکلتا ہوا۔ رنگت گہیوں کی موسم خریف کی دھوپ میں چمکتی سنہری روپہلی بالیوں جیسی، آنکھیں بولتی ہوئی جن سے گفتگو کے شوق میں اکثر لوگ چپ۔ دریا میں ڈوب جاتے تھے۔ انجلینا جولی جیسے Pillow۔ Lips وہ بھی بغیر بوٹوکس کے، مانو کسی پیر سر مست کا تکیہ ہیں جہاں دم گھٹکوں کا اپنا مزہ ہوگا۔ ایسے لب ہائے لعلیں جن پر خوش نصیب عاشق کی سانسیں دم توڑ دیں۔ بدن کی تراش ایسی کہ قیمتی شراب بلور کی صراحی میں اتر کر منھ چڑاتی ہو۔ اپنے حسن سے بھی خود آگاہ نہ تھی۔ اس تغافل فطری وجہ سے اور بھی ہلاکت آمیز لگتی تھی۔ لباس کے معاملے میں رنگوں اور میٹریل کا شعور تھا مگر اپنی سماجی زندگی کے خنکی آمیز تقاضوں کی وجہ سے ذرا بے پرواہ تھی۔ گفتگو کا شعور پختہ اور لبھاؤ بھرا تھا۔ بھارتی اداکاراؤں ریکھا، تبو اور شسمیتا سین کو دیکھ، سن کر آواز اور جملوں کے تال میل کا بھاؤ بھید آ گیا تھا۔ ہنستی بھی ودیا بالن کی طرح پورے بدن سے تھی۔

ودیا بالن

اس پر کھیر میں زعفران کا مزہ ایسا کہ ناصر کاظمی۔ احمد فراز، جون ایلیا اور پروین شاکر کو تو جانو گھول کر پی رکھا تھا۔ مطالعے کی شوقین۔ اردو کا کون سا رسالہ، ڈائجسٹ، شاعر ادیب تھا جسے اس نے نہیں پڑھا تھا۔ انگریزی اس کا میدان نہ تھی۔ اس کمزوری کا احساس دلاؤ تو مسکرا کر کہتی ”ہم وہاڑی ملتان کی لڑکیاں، اداکارہ میرا اور عربوں کی طرح کم کم انگریزی سے بھی کام چلا لیتی ہیں“ ۔

بینو کے والد اور والدہ دونوں ہی وہاڑی۔ ملتان۔ شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ اس لیے اس نے تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔ اٹھارہواں سال اس کے لیے بھونچال کا سال ثابت ہوا۔ عجب اتفاق تھا کہ جس دن اس کا شناختی کارڈ بنا، عین اسی دن اس کا بی اے کا نتیجہ بھی آیا اور اسی دن اس کے ماموں۔ ممانی اپنے بیٹے ظہیر کا رشتہ بھی لے کر پہنچ گئے۔

بینو کے اکلوتے بڑے بھائی کی شادی اپنی ممانی کی سب سے چھوٹی بہن سے ہوئی تھی۔ یوں ظہیر سب سے طاقت ور امیدوار ثابت ہوا تھا۔ رشتے کے معاملے میں بھائی کی جانب سے دباؤ کا بھی سوچا جاسکتا ہے۔ بھائی نیوی میں تھا اور سیکانڈمنٹ پر سعودی عرب میں پوسٹنگ تھی۔

بینو کی والدہ کے اپنے بھائی بھابھی سے ہمیشہ سے خوش گوار تعلقات تھے۔ بھائی بہن میں پیار اور لحاظ بھی بہت تھا۔ ظہیر کی دونوں بہنیں اپنے گھر کی ہو چکی تھیں۔ دونوں کی شادی دو عدد خالہ زاد بھائیوں سے ہوئی تھی۔ رہتی بھی دور بارسلونا اور سڈنی میں تھیں۔ سو بینو کو سسرال کی جانب سے یک گونہ مانوس سی، طمانیت بھری یقین دہانی میسر تھی۔

ظہیر کے رشتے پر بینو کے والدین کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ بس اتنی شرط رکھی کہ بیٹی ان کا گھر چھوڑ کر نہیں جائے گی۔ یہاں میکے میں ہی رہے گی۔ سری لنکا اور چیچنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ روز روز کی ٓآوت جاوت اور تکا فضیحتی سے بچنے کے لیے ارمانوں سے پالا لڑکا ہی رخصت کر دیتے ہیں۔ ظہیر کے والدین یوں بھی کون سے پاکستان میں رہتے تھے۔ ان کی دنیا بیٹیاں اور نواسے نواسیاں تھے لہذا انہیں اس پر یوں بھی اعتراض نہ ہوا کہ بیٹے ظہیر کی تعیناتی پنجاب پولیس میں تھی سو اس کے لیے یہ گھر Home-Base تھا۔

خاندان اور برادری کے چکر میں وہاڑی میں بینو کے لیے رشتوں کی کوئی خاص چوائس بھی نہ تھی۔ ظہیر سے نہ ہوتی تو سلیمان، جمیل اور شیراز بھی اس کے کزن ہی تھے۔ ان کے رشتے بھی سرگوشیوں کی پائپ لائن میں تھے۔ اسے وہ بھی ایسے کچھ خاص پسند نہ تھے۔ سلیمان کی ساہیوال میں موبائل فون کی چھوٹی سی دکان تھی، جمیل رینالہ کے اسکول میں پڑھاتا تھا۔ شیراز ایک چھوٹے سے پرائیویٹ ہسپتال میں شفٹ انچارج تھا۔

والدین کو لگا کہ بینو، ظہیر کے ساتھ خوش رہے گی۔ وہ باقی سب کے مقابلے میں پڑھا لکھا ہے۔ مزاجاً بھی بہت شائستہ ہے۔ نوکری بھی بہت اچھی ہے۔ ملتان جہاں آج کل وہ ڈی آئی جی صاحب کا پی اے تعینات ہے وہاں سے بینو کے والدین کے گھر واقع وہاڑی کا زیادہ فاصلہ بھی نہیں۔ فوراً ہی ان کی طرف سے ہاں ہو گئی۔ بینو نے ظہیر کو کئی دفعہ دیکھا تھا۔ سنجیدہ مزاج، کم سخن، ظہیر کے بارے میں اس نے کبھی کسی خاص لگاوٹ سے سوچا نہ تھا۔ اپنی ہی ذات کے دھندلکوں میں گم، دیوار پر لگی تصویروں جیسا۔ ڈرائینگ روم میں کسی کونے کے لیمپ اسٹینڈ جیسا۔ چھت پر لٹکنے والے فانوس جیسی چھا جانے والی ہستی نہ تھا۔

وہ خود شوخ اور چلبلی جوانی کے معاملے میں اسپین کے مست سانڈ جیسی زور آور تھی۔ چاہتی تھی کہ کوئی بل فائٹر قسم کا مرد ہو۔ سرخ چادر لہرائے، تھکائے اور پیار کی تلوار گھپ سے دل میں گھونپ دے۔

اس کی تمنا تھی کہ اسے پہلے کوئی پیار کرے، کوئی چل (Chill) ہو، کوئی تھرل ہو۔ اس ہنگامہ آرائی میں شور مچے کہ یہ شادی نہیں ہو سکتی۔ خاندان میں کچھ مارا ماری دھیں پٹاس ہو۔ ایسے میں بالآخر گیت سنگیت کی چھنا چھن پر برقی قمقموں سے سجی وہ شام بھی آ جائے جب اس کا دیساں دا راجہ اپنے بابل دا پیارا دولہے کے روپ میں سفید گھوڑے پر دوستوں کی فائرنگ کے جلو میں سب دیکھتے رہ جائیں گے۔ لے جاؤں گا اک دن، قسم کی بارات لے کر آئے۔ رات ہو تو وہ ان بانہوں میں پگھلے جن میں چوری چھپے پگھلنے کے سپنے اس نے جوانی کی پہلی یلغار سے دیکھے تھے۔ یہ تو پہاڑی مقامات پر بوجھل سیاہ بادلوں کی یقینی برسات جیسی شادی تھی۔

یہ لڑکی بینو تو نہیں لیکن کچھ کچھ ملتی ضرور ہے اس سے

ظہیر کی پولیس ٹریننگ کالج سہالہ میں ٹریننگ مکمل ہو رہی تھی۔ اس کی ملتان پوسٹنگ کی عندیہ وہاں تعینات کمانڈنٹ صاحب محمود ٹوانہ، اسے دے چکے تھے۔ ٹوانہ صاحب کو خود بھی اس کورس کے خاتمے سے جڑی یہ خوش خبری مل چکی تھی کہ انہیں تبدیل کر کے ڈی آئی جی ملتان رینج لگایا جا رہا ہے۔ وزیر اعلی کی منظوری چیف سیکرٹری اور آئی جی صاحب کو پہنچا دی گئی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ تعیناتی کا حکم نامہ جاری ہونے کو تھا۔

بینو کا کزن پولیس افسر ظہیر ذہین، فرض شناس چپ چپ مگر تابعدار قسم کا اے۔ ایس۔ آئی تھا۔ دفتر کی راز داری میں دیوار پر لگے آئینے جیسا، بے لفظ اور بے ضرر۔ سفارش پر بھرتی دیگر پولیس افسران کی نسبت کمانڈنٹ صاحب کو وہ اپنے دیگر کورس میٹس کے مقابلے میں زیادہ پسند تھا۔ اس کا شمار بمشکل ان پانچ فیصد اے ایس آئیز میں ہوتا تھا جو خالص میرٹ پر چنے گئے تھے۔ پاکستان میں کامیاب انسانوں کے ناکام رشتہ دار بہت ہوتے ہیں۔ وہ اس سرخیل کی کامیابی کا خراج مانگتے ہیں۔ سالے بہنوئی، کزنز، بڑے ووٹرز گروپ سبھی کو کسٹم، پولیس، پی آئی اے، محکمہ مال میں رقم توڑ مال بناؤ، نوکریاں درکار ہوتی ہیں۔ ان محکموں میں انہیں لوگوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایسے میں اللہ نہ کرے کوئی چھوٹے صوبوں والا بڑے عہدے پر پہنچ جائے۔ چن چن کر اپنے ہم زبان، ہم قوم، حلقۂ انتخاب والے مال سرکار کو حلوائی کی دکان مان کر دادا کی فاتحہ پڑھنے کے لیے ان نکمے، سرکاری ڈاکوؤں کو بھرتی کرے گا۔

ٹوانہ صاحب ایس۔ پی کے رینک تک سندھ میں تعینات رہے تھے۔ ترقی کا پروانہ جاری ہوا تو وہاں سے ڈی آئی جی کے پھول کاندھے پر سجا کر پولیس ٹریننگ کالج سہالہ۔ راولپنڈی بھیج دیے گئے۔ صوبہ پنجاب میں یہ ان کی پہلی باقاعدہ تعیناتی تھی۔ سندھ میں بہت مال کمایا تھا اس کی زمین اور ایک فیکٹری باپ کے اور بہن کے نام سے پنجاب میں خرید لی۔ فیکٹری کا مالک پاکستان میں پیداواری لاگت، بالخصوص بجلی کے بڑھتے ہوئے دام سے تنگ آن کر سری لنکا اور دیناج پور بنگلہ دیش میں گارمنٹس فیکٹری ڈال رہا تھا۔ والد صاحب یہاں پاکستان والی فیکٹری میں منیجر تھے۔ سو کاغذات کی گڑ بڑ کی نیب کو سن گن نہ ملی۔

ملتان بطور ڈی آئی جی تعیناتی کے فوراً بعد ٹوانہ جی سے پہلے اپنا دفتر ٹھیک رکھنا چاہتے تھے۔ ظہیر اے ایس آئی یوں ان کے معیار پر پورا اترتا تھا۔ وہ مقامی بھی تھا اور، فطرتاً راز داں وفا شعار، خاموش طبع، حساب کتاب سے جینے والا ماتحت تھا۔ کمپیوٹر بھی بہت اچھی طرح چلا سکتا تھا۔

دوران تربیت ہی ظہیر کو ساتھیوں اور خرانٹ انسٹرکٹرز کی بول چال سے انداز ہو گیا کہ وہ اپنی افتاد طبع کی وجہ سے تھانے اور سہل پسند طبیعت کی بنیاد پر سیکورٹی کی ڈیوٹی کے لیے موزوں نہیں۔ وہ اپنے بڑے افسروں کے دفاتر سے اگر بطور پی اے یا آفس سیکریٹری کے جڑا رہا تو اس کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ جب تک پاکستان میں رہے ٹوانہ صاحب نے اس کا لالن پالن بھی خوب کیا۔ ملتان میں تو جغادری ایس ایچ او تک اس کی عزت کرتے تھے۔ خالی ہات ملنے نہ آتے تھے۔ پرانے پولیس افسر جانتے تھے کہ پیر، سرکاری افسر اور رنڈی کے پاس خالی ہات جانے سے نہ من کی سیوا ہوتی ہے نہ تن کی۔

ظہیر اور بینو کی شادی بلا تردد ہو گئی۔ ٹوانہ صاحب بھی خاص طور پر ملتان سے وہاڑی شرکت کے لیے آئے تھے۔

سہاگ رات گو بے حجاب تھی مگر وہ کچھ نہیں ہوا جس کا اسے ہنسی ٹھٹول میں رشتہ دار خواتین اور ٓآزمودہ کار سہیلیوں کی جانب سے بتایا گیا تھا۔ خود بھی تھکی ہوئی تھی۔ رات اہم تھی۔ جسم لباس وغیرہ کی قید سے آزاد ہوا اور مردانہ ہل چل سے بے نیاز، نیم برادرانہ کزنز والی آغوش دوستانہ کا سامنا ہوا تو اس نے جان لیا کہ اب یہ معمول شبینہ زندگی کا روٹین ہوگا۔ بقول احمد فراز شاخ بازو پر زلف کا سایہ یوں ہی ہر رات رویا کرے گا۔ بینو نے اس ایک رات کی مایوسی کو شال دوشالہ بنا کر خود پر اوڑھ نمائش کرنے کی بجائے میلے کپڑوں کی لانڈری میں بھیجی جانے والی حسرتوں کی گٹھڑی بنا کر حساس وجود کے اسٹور روم میں چھپا دیا۔ ظہیر کو سینے پر لٹا کر خود بھی سو گئی۔

معاملہ پہلی رات سے کئی اور راتوں تک جا پھیلا۔ بینو کو لگا کہ اس شادی میں جسمانی ناآسودگی کے علاوہ دید شنید کی محرومیوں کی بھی گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ ظہیر کم سخن، بے سک، منی مل (Minimal) سا مرد ہے۔ غصہ، انتقام، منفی جذبات، اشتعال، تشدد، طعنے نام کو نہیں، عمدہ ولایتی شمپو کے جھاگ جیسا۔ اس سے آنکھیں بھی نہیں جلتیں۔ اسے عورت سے بات کرنا اور نگاہوں سے برتنا نہیں تو کیا بلکہ مرد عورت کے حوالے سے کسی طور لپٹانے چومنے میں بھی کوئی دل چسپی نہیں۔

وہ اکثر ظہیر سے مذاق کرتی کہ سائیں میڈا جب کچھ نہیں کرنا تھا تو کزن تو میں پہلے بھی تھی اتنا پیار مروت، ایک آدھ بھاکر (سندھی میں ہم آغوشی ) دو چار چومیاں، ایک آدھ چونڈی، کولہے پر دو تین تھاپے ویسے ہی بغیر نکاح کے بھی ہوسکتے تھے۔ کزنز کے درمیان یہ سب گناہ کبیرہ تو کیا صغیرہ میں بھی نہیں شمار ہوتے۔ ایسے طعنے سن کر ظہیر بے بسی سے مسکرا دیتا تھا۔

بینو ذہین لڑکی تھی۔ انیس برس کی لڑکی کے لیے محرومی کا یہ زہر بہت ہلاکت آمیز ثابت ہو سکتا تھا مگر اس نے اسی زہر میں تریاق ڈھونڈا۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ انسان محض ایک دماغ ہے۔ بدن کے معاملے میں پاکستان کے آرمی چیف جیسا سپہ سالار، کمانڈر ارطغرل۔ ہمارے جسم کے ہر عضو اور عمل کا ایک ہی کام ہے کہ دماغ یعنی کمانڈر کا حکم چلتا رہے۔ یوں ہم سب اپنے دماغ کی فیکٹری کے غلام ہیں۔ بہتر ہوگا کہ دل کی ہمہ وقت پاسبان، عقل رہے۔ وہ اسے تنہا جب ہی چھوڑے گی جب اسے وہ تمام ذائقے دستیاب ہوں گے جو ظہیر کی رفاقت میں نہیں مل پاتے۔ طبیعات کی اصطلاح میں ایسی برق رفتار شعوری مسافت کا موازنہ Quantum Leap سے کیا جاسکتا ہے۔ جانو کسی لمحۂ فہم و ادراک میں صدیوں کی مسافت ساعتوں میں طے ہو جائے۔

بینو نے اس ازدواجی نا آسودگی پر شور مچانے اور دامن اٹھا کر اپنا پیٹ کھول کر سب کو دکھانے کی بجائے، خوش مزاجی اور رازداری کا اہتمام کیا۔ ماں کو تو اشارتاً بتا دیا کہ بستر کے موجودہ حالات بہت امید افزا نہیں۔ بستر کی اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان ہے۔ سمجھو کہ رات کی تاریکی میں رشتوں کے بھیانک تصادم کی وجہ سیکس کی وال اسٹریٹ کریش کر گئی ہے۔ ظہیر انسان بہت اچھا ہے مگر مرد ماٹھا (پنجابی۔ کمزور ) اور لجلجا ہے۔ اس کو علاج کی طرف رغبت دلاؤں گی۔ ملتان، جہانیاں، پاک پتن میں دور دور سے لوگ منتیں مانگنے آتے ہیں۔ اولاد لے کر جاتے ہیں اللہ مسبب الاسباب ہے۔

والدہ کو مطمئن کر کے خبر خلیدی دوستوں اور دیگر کزنز کو یہ کہہ کر ٹالا کہ ظہیر کے کیریر میں ترقی کے دو بڑے مراحل عنقریب آنے کو ہیں ان میں ایک تو یو این او کی پوسٹنگ کا انتظار ہے۔ سات سال بعد بینو کی پچیس برس والی سالگرہ کا کیک بیٹا پیٹ میں کھائے گا۔ ان تسلیوں کو جھوٹ کی گفٹ پیکنگ میں باندھ ایک طرف رکھ خود کھوج لگانے نکلی کہ دوسروں کی شادیوں میں لطف و کرم کے سوتے کہاں سے اور کیسے پھوٹتے ہیں۔

خاندان والیوں میں اکثر کی منجھی (چارپائی) کے نیچے ڈانگ (لاٹھی) گھمائی، سہیلیوں کے ازدواجی موسم کا جائزہ لیا تو ایک تلخ حقیقت کا ادراک ہوا۔ نتائج کی اوسط کے حساب سے کوئی شادی پرفیکٹ نہیں کہی جا سکتی۔ ہر جگہ کسی نہ کسی خامی اور بے لطفی کے آسیب منڈلاتے ہیں۔ وہ سہاگنیں جو تقریبات میں بہت لہک مہک رہی ہوتی ہیں، وہ بھی اس دکھاوے اور جلوے کے لیے طمانچے مار مار کے اپنے گال لال کرتی ہیں۔

تحقیق و تفتیش کا دائرہ وسیع ہوا تو یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ عشق اور شادی دونوں میں ناخوش رہنے کے وافر مواقع ہیں۔ میاں کا مزاج اگر پرتشدد نہیں۔ اسے اپنی کمزوریوں کا شعور اور احساس ہے تو شادی کو نبھاؤ۔ اسے گھر کے دروازے پر بے ضرر ٹاٹ کا پردہ بنا کر لٹکا لو۔ چینوں جاپانیوں نے اس میں اب نت نئے روپ نکال لیے ہیں۔ بہت سجل، نرم و نازک، من بھاؤنے، ہوادار۔ ان کا مقصد مگر صرف اوٹ کا اہتمام کرنا ہے۔ اس سے آنے جانے والوں کے لیے آمد و رفت میں رکاوٹ ڈالنا مقصود نہیں ہوتا

﴿جاری ہے﴾

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments