انڈیا میں ممتاز خواتین کی انٹرنیٹ پر ’نیلامی‘

گیتا پانڈے - بی بی سی نیوز، دہلی


انڈیا میں گزشتہ اتوار درجنوں مسلمان خواتین یہ جان کر حیران رہے گئیں کہ ان کے نام آن لائن پر قابل فروخت خواتین کی فہرست میں ڈال دیئے گئے ہیں۔

حنا خان جو ایک کمرشل پائلٹ ہیں اور جن کا نام ان قابل فروخت خواتین کی فہرست میں ڈال دیا گیا تھا انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس بارے میں ایک دوست نے ٹوئٹر پیغام کے ذریعےخبردار کیا۔

اس ٹوئٹر پیغام کے ذریعے وہ ‘سولی ڈیلز’ کے ایپ اور ویب سائٹ کو دیکھ سکیں جس نے خواتین کی تصاویر اور ان کے ‘پروفائز’ یا نجی معلومات کو عام کیا اور انھیں ‘ڈیلز آف دی ڈے’ بنا کر پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیے

آسام کے وزیراعلیٰ کی مسلمانوں میں زیادہ بچوں کی پیدائش سے متعلق دعووں کی حقیقت

خواتین محفوظ نہیں کیونکہ ’مرد سمجھتے ہیں کہ سڑکیں ان کی جاگیر ہیں‘

’مسٹر پرفیکشنسٹ سے مسٹر لو جہادی‘: طلاق کے بعد عامر تو خوش ہیں مگر چند لوگ برہم کیوں؟

کشمیر: سکھ لڑکیوں کی ‘جبری تبدیلی مذہب اور شادی’ میں حقیقت کیا اور فسانہ کیا

اس ایپ کے پہلے صفحے پر ایک نامعلوم خاتون کی تصویر لگائی گئی تھی۔ اس سے اگلے دو صفحات پر حنا خان نے اپنی سہیلیوں کی تصاویر دیکھیں۔ اس سے اگلے صفحے پر انھیں اپنی تصویر نظر آئی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے 83 تصاویر کی گنتی کی یہ اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہیں۔

‘میری تصویر انھوں نے ٹوئٹر سے لی اور اس پر میرا ‘یوزر نیم’ یا وہ نام لکھا جو میں ٹوئٹر پر استعمال کرتی ہوں۔ یہ ایپ 20 دن سے چل رہا تھا اور ہمیں اس بارے میں معلوم ہی نہیں تھا۔ اب بھی مجھے یہ سوچ کر جھرجھری آجاتی ہے۔’

اس ایپ پر یہ دکھاوا کیا گیا تھا کہ جیسے وہ ‘سولی’ خریدنے کا موقع دے رہے ہوں۔ سولی ایک ہتک آمیز اصطلاح ہے جو ہندو انتہا پسند مسلمان خواتین کو آن لائن ٹرول یا پریشان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ حقیقی طور پر کوئی نیلامی نہیں ہو رہی تھی اس ایپ کا مقصد صرف مسلمان خواتین کو بے عزت کرنا اور ان کی ہتک کرنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

حنا خان نے کہا کہ انھیں صرف اس وجہ سے نشانہ بنایا گیا کیونکہ ان کا مذہب اسلام ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک ایسی مسلمان خاتون ہیں جنہیں سنا جاتا ہے اور جن کو لوگ جانتے ہیں۔ ‘وہ ہمیں خاموش کرنا چاہتے ہیں۔’

انڈیا کی مسلمان خواتن

انڈیا میں مسلمان خواتین کو ہراساں کیا جانا کوئی انوکھی بات نہیں

’گٹ ہب‘ جس ویب پیلٹ فارم پر اس ایپ کو جگہ دی گئی تھی اس نے شکایات موصول ہونے کے بعد اس کو ہٹا دیا۔ اس کمپنی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ‘ہم نے اس سرگرمی کے بارے میں تحقیقات کرنے کے بعد اس ایپ کو استعمال کرنے والوں کے اکاونٹس کو معطل کر دیا ہے جو ہماری پالیسی کی خلاف ورزی تھا۔’

لیکن اس تلخ تجرے نے خواتین کو مجروح کیا ہے۔ وہ تمام خواتین جن کے نام اس فہرست میں ڈالے گئے تھے وہ سب معاشرے میں اہم مقام رکھتی ہیں اور صاحب رائے خواتین ہیں۔ ان میں صحافی، سرگرم سماجی کارکن، فنکار اور تحقیق داں ہیں۔ ان میں سے بہت سی خواتین نے سوشل میڈیا پر اپنے اکاونٹس بند کر دیے ہیں اور دیگر کئی خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں مزید ہرساں کیے جانے کا خوف ہے۔

ایک خاتون نے بی بی سی ہندی سروس کو بتایا کہ ‘آپ چاہے کتنے ہی مضبوط اعصاب کی مالک ہوں لیکن جب آپ کی تصویر اور ذاتی معلومات کو عام کیا جاتا ہے اس سے آپ پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔’

بہت سی خواتین جن کی تفصیلات اس ایپ پر ڈالی گئی ہیں وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو ہوس پرست قرار دے رہی ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کا عزم کر رہی ہیں۔

ایک درجن سے زیادہ خواتین نے ایک گروپ تشکیل دیا ہے جو ایک دوسرے کو مدد اور تعاون فراہم کر رہا تاکہ پولیس میں شکایات درج کرائی جا سکیں اور ان میں حنا خان بھی شامل ہیں۔

ممتاز شہریوں، سماجی کارکنوں اور رہنماؤں کی نے خواتین کو اس طرح ہراساں کیے جانے پر آواز اٹھائی ہے۔ پولیس کا کہنا کہ اس بارے میں تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں لیکن انھوں نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ اس حرکت کے پیچھے کون ہے۔

جن لوگوں نے یہ ایپ بنائی ان سب سے جعلی شناخت استعمال کئیں لیکن حسیبہ امین جو حزب اختلاف کانگریس جماعت کی سوشل میڈیا رابطہ کار ہیں انھوں نے اس کا ذمہ دار ان اکاونٹس کو قرار دیا ہے جو اکثر مسلمانوں اور خاص طور پر مسلمان خواتین پر لفظی حملے کرتے رہتے ہیں اور جو دائیں بازو کی سیاست کی حمائت کرتے ہیں۔

https://twitter.com/girlpilot_/status/1412724267041509383

حسیبہ امین نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مسلمان خواتین کو اس انداز میں نشانہ بنایا گیا ہو۔ مسلمانوں نے اس سال مئی کی 31 تاریخ کو عید الضحی کا تہوار منایا تھا جب ایک یوٹیوب چینل پر ‘عید سپیشل’ چلایا گیا جس میں انڈیا اور پاکستان کی خواتین کی براہ راست ‘نیلامی’ کی گئی۔

حنا خان نے بتایا کہ ‘اس نیلامی میں لوگ پانچ اور دس روپے کی بولیاں دے رہے تھے اور وہ خواتین کو ان کے جسم اور جنسی کشش کو سامنے رکھتے ہوئے نمبر دے رہے تھے اور ان کو ریپ کرنے کی دھمکیاں بھی دے جا رہی تھیں۔

حسیبہ امین نے بعد میں بتایا کہ اس دن انھیں بھی ایک نام معلوم اکاونٹ نے ٹوئٹر پر نیلام کرنے کی کوشش کی۔

حنا خان نے کہا کہ بہت سے دیگر اکاونٹس جس میں سے ایک کا نام @sullideals101 تھا اس پر انھیں گالیاں دی جانے لگیں، ان کے جسم پر انتہائی جنسی اور نازیبہ زبان میں تبصرہ کیا جانے لگا۔

وہ سمجھتی ہیں کہ جن لوگوں نے انھیں ٹوئٹر پر نیلام کرنے کی کوشش کی وہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے سولی ڈیلز ایپ اور یوٹیوب ایپ پر ان کا نام ڈالا جو کہ اب اس پیلٹ فارم پر سے ہٹا لیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے ٹوئٹر نے کئی اکاونٹس کو معطل کر دیا اور یہ دعوی کیا کہ وہ اس ایپ کے پیچھے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن کے ذریعے خواتین کی بے عزتی کرنے، ان کی تذلیل کرنے اور ان کو ڈرنا ان کو خاموش کرنے میں بڑا کارگر ثابت ہوتا ہے۔

گزشتہ ہفتے دنی بھر سے دو سو کے قریب نامور اداکاروں، موسیقاروں، صحافیوں اور سرکاری حکام نے فیس بک، گوگل، ٹک ٹاک اور ٹوئٹر کے مالکان کو لکھا ہے کہ وہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔

دنیا بھر سے شامل لوگوں نے اس کھلے خط میں لکھا ہے کہ ‘انٹر نیٹ اکیس ویں صدی کا مرکزی چوراہا ہے۔’

کھلے خط میں کہا گیا کہ ‘یہاں پر بحث ہوتی ہے، برادریاں بنتی ہیں، اشیا فروخت کی جاتی ہیں اور لوگوں کی ساکھ بنتی ہے، لیکن جس پیمانے پر ان لائن کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اس کا مطلب ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کے لیے یہ ڈجیٹل ٹاؤن سکوائر یا مرکزی چوارہا محفوظ جگہ نہیں ہے۔’

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ سال انڈیا میں انٹر نیٹ پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ جتنی زیادہ کوئی عورت بات کرتی ہے اتنا زیادہ اس بات کا امکان ہے کہ اس کو نشانہ بنایا جائے۔

امریکہ اور برطانیہ میں جس طرح ایک سیاہ فام عورت کو ہراساں کیے جانے کا زیادہ امکان ہے اس طرح انڈیا میں اقلیتیوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو نشانہ بنائے جانے کا امکان ہے۔

نازیہ ارم جو انڈیا میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سابق ترجمان ہیں ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں بہت کم مسلمان خواتین ایسی ہیں جن کو سوشل میڈیا پر ہراساں اور نشانہ نہ بنایا جاتا ہو۔

انھوں نے کہا کہ ایک سوچے سمجھے طریقہ سے ان کا نشانہ بنایا جانے کا طریقہ پڑھی لکھی مسلمان خواتین سے مائک چھیننے کی ایک کوشش ہے، جو اپنی رائے دیتی ہیں اور اسلام وفوبیہ کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ ان کو خاموش کرنے، بدنام کرنے اور ان سے ان کی جگہ چھیننے کی کوشش ہے۔’

حسیبہ امین نے کہا کہ ہراساں کرنے والے کوئی خوف اور ڈر نہیں ہے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ وہ پکڑ نہیں جائیں گے۔

انھوں نے ایسے بہت سے واقعات کی مثال دی جن میں مسلمانوں پر ظلم کیا گیا اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہو۔ اس ضمن میں انھوں نے مسلمانوں کو سرے عام قتل کرنے کے مجرموں کو بی جے پی کے وزرا نے ہار پہنائے۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں اطلاعات و نشریات کے وزیر کو ہندوؤں کے ایک ہجوم کو مسلمانوں کو گولی مارنے کی ترغیب دیتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

جن مسلمان خواتین کے نام اس سولی ڈیلز کی فہرست میں ڈالے گئے ہیں ان کے لیے انصاف کا حصول بہت مشکل اور ایک طویل عمل ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ انصاف کے حصول کے لیے پر عزم ہیں۔ حنا خان نے کہا کہ پولیس اگر ان لوگوں کو نہیں پکڑتی جنہوں نے ان کا فروخت کرنے کے لیے لگایا تھا وہ عدالت سے رجوع کریں گی۔ ‘میں آخر تک اس کی پیروی کروں گی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp