ماضی پرستی اور یادگاروں کی سیاست


ماضی ایک حقیقت جب کہ مستقبل ایک خیال ہے۔ ماضی کو یاد رکھنا یا فراموش کر دینا، ہر دو طرح سے اہم ہے۔ دانش وروں نے اپنے تئیں اس کی بہت سے وجوہات بیان کی ہیں۔ جیسے کہ معروف اسرائیلی مورخ اور ماہر سماجیات یہودا الکانا کا ماننا تھا کہ ”ماضی کو فراموش کر دینا ایک احسن قدم ہے کہ اس طرح آپ اپنے حال یا موجودہ عہد کو زیادہ فعال، بہتر اور مضبوط بنا سکتے ہیں اور اپنے حال کو اپنی شرائط کے مطابق گزار سکتے ہیں“ ۔

الکانا ماضی کو یاد رکھنے کے حوالے سے اسرائیلی قومی بیانیے کے سخت مخالف تھا، اس کا ماننا تھا کہ ہولوکاسٹ کسی قوم کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا، اس دکھ کی یادگار جسے یاد وشیم کا نام دیا گیا جس پر ترانے لکھوا کر سکول کے بچوں کو یاد کرائے جاتے ہیں، بے سود ہیں۔ یہودا الکانا کا تصور تاریخ اسرائیلیوں کے لیے کتنا سود مند ثابت ہوا یہ طے کرنا مشکل ہے۔ تاہم کسی بھی متن کے معنی محض ایک قوم کے لیے مختص نہیں کیے جا سکتے۔

جیسے کہ ایڈورڈ سعید نے الاہرام میگزین میں اپنے ایک کالم میں تحریر کیا تھا کہ ”بعض اوقات مقامی آہنگ والے متون میں یونیورسل اپیل ہوتی ہے“ ۔ دوسری طرف ہم دیکھیں تو تاریخ سے متعلق ایک بیانیہ فلسطینیوں کا ہے کہ کیسے صیہونی طاقت نے ان سے ان کی آبائی زمینیں ہتھیائیں، انہیں بے گھر کیا، اور اپنی آبادیاں قائم کیں۔ مزید یہ کہ فلسطینیوں سے اپنے علاقوں کی طرف واپسی کا حق بھی چھین لیا اور جب اسرائیلیوں کا دل چاہتا ہے وہ اندھا دھند بمباری کر کے فلسطینیوں کی نسل کشی کرتے ہیں۔

مارکیٹ کی ایک معروف حکمت عملی ہے کہ ڈسکورس کو عمومیت اور رپیٹیشن سے اتنا پھیلا دو کہ جھوٹ بھی درست اور حقیقت لگنا شروع کردے۔ معاصر اشتہار سازی اسی ایک حکمت عملی پہ چل رہی ہے۔ صارفین یا بعض اوقات قارئین ان اختراعیوں کو بدیہی حقیقتیں سمجھ کر مہابیانیوں کی سطح پر ان کو اختیار کرلیتے ہیں، لوگوں سے تجزیہ سازی کی صلاحیت چھین لی جاتی ہے اور پس متن یا بصری امیجز کے سرمایہ داریت یا استعمار اپنے فوائد حاصل کرتا رہتا ہے۔

سرمایہ داریت اور استعمار اس ضمن میں بڑے ناموں کے متلاشی رہتے ہیں، جو دانش ور بھی ہوسکتے ہیں صحافی بھی، اداکار بھی ہوسکتے ہیں موٹیویشنل اسپیکرز بھی، انفلوئنسرز بھی ہوسکتے ہیں اور شاعر ادیب بھی، مذہبی پیشوا بھی ہوسکتے ہیں پروفیسرز بھی، سیاست دان بھی ہوسکتے ہیں اور عام سیاسی کارکن بھی، یہ سب مل کر معصومانہ یا غیر دانستہ طور پر استعمار اور سرمایہ داریت کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ ایڈورڈ سعید کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے خاص کر فلسطینی سیاست اور صورت حال سے ”خدمات“ کو ہمیشہ سے ہی سراہا جاتا رہا ہے۔

ایڈورڈ سعید سمیت ہر وہ نام جس کی فیس ویلیو یا مارکیٹ ویلیو مستند ٹھہر جاتی ہے ان کے بیانیوں کو بھی حتمیت کے حلقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم ان بڑے ناموں اور ان کے کاموں کی رد تشکیلیت اور پس متن سیاست کو ان لاک کیا جائے تو غیر معمولی طور پر صدمہ ہوتا ہے۔ ایڈورڈ سعید بھی ایک ایسا ہی کردار ہے۔ ایک بڑا مگر متنازعہ نام۔ الکانا کے حوالے سے سعید اس بات کا قائل ہے کہ اسرائیلیوں کو اپنے ماضی کو فراموش کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔

تاہم دوسری طرف اسی امر کو فلسطینیوں کی امنگوں اور خوابوں کا قاتل سمجھتا ہے۔ یاسر عرفات کی انتظامیہ کی طرف سے تاریخ کو فراموش کر کے اپنی اس وقت کی سیاسی بصیرت اور معاشی صورت حال کے مطابق ایک قدم آگے کی طرف بڑھنے کی خو یقیناً فلسطینی عوام کے لیے مادی ترقی کا پہلا زینہ ثابت ہو سکتی تھی، لیکن سعید بغض یاسر عرفات اور شاید برتر سطح کے طریق کار برائے خدمت صیہونیت کے تحت فلسطینیوں کو بار بار یاد دلاتا رہا کہ تم سے زمینیں چھینی گئیں ہیں، تم پر مظالم ہوئے ہیں، تمہیں گھروں میں واپسی کا حق نہیں دیا جا رہا ، تم بے گناہوں کا مارا جا رہا ہے اور تم ماضی کو فراموش کر کے آگے بڑھ رہے ہو وغیرہ وغیرہ۔

آپ کو ایسے دانش ور بطور خاص مابعد نو آبادیاتی ڈسکورس میں ملیں گے جو ماضی کا رونا روتے رہتے ہیں آپ کو گزشتگاں کی کہانیاں سنائیں گے، اس ضمن میں ایک ہی معیار متعین ہونا چاہیے جس سے چیزوں کی وضاحت ہو سکتی ہے وہ مادی ترقی کا پیمانہ۔ آپ تاریخی حوالے سے مادیتی ترقی کا موازنہ کر کے دیکھ لیجیے گا کہ ایسی قوموں کی ادبی اور سماجی بیانیوں میں دکھ، استحصال، آنسو اور پچھتاووں کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔ دوسری طرف ترقی یافتہ اقوام مستقبل جو کہ محض ایک خیال ہوتا ہے کو تصویر کر لیتی ہیں ان کی کہانیوں، فلموں، ڈراموں اور روزمرہ میں مستقبل در آتا ہے بھلے وہ کتنا ہی مبہم کیوں نہ ہو وہ ہم سے کئی منزلیں آگے نکل جاتی ہیں۔

ایڈورڈ سعید جیسے بے شمار ”دانش ور“ ہمیں اپنے ارد گرد نظر آئیں گے جو پاکستانی سماج کو بیانوی تقسیم کا تحفہ دے کر عالمی سامراج یا استعمار کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ ماضی کو یاد رکھنا اور یاد کرنا دو الگ ”کیفیات“ ہیں۔ ان کیفیات کی تفہیم اکادمی کی سطح پر ہونی چاہیے۔ عام طور پر ہماری جامعات میں ادبی، علمی اور عمرانی حوالوں سے اہم شخصیات کی بت سازی کی جاتی ہے۔ ان کی تخلیقات کے پس پردہ کیا سیاسی اور معاشی عوامل تھے ان پر بات نہیں کی جاتی انہیں تحقیق کا حصہ نہیں سمجھا جاتا اور اگر سمجھا بھی جاتا ہے تو محقق کو طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہم اپنے عہد کے معروف بیانیوں اور معروف بیانیہ سازوں کے متون کے پس پردہ عزائم کا مطالعہ کر کے حال کو بہت بہتر سطح پر گزار سکتے ہیں کہ بیانیوں اور شناخت کے قضیہ سے پیٹ بھر سکتا ہے نہ مادی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments