نواز شریف کا آخری موقع


Steven Spielberg

چوہتر سالہ اسٹیون سپل برگ کو فلمی تاریخ کا سب سے کامیاب فلم ساز مانا جاتا ہے۔ کسی بھی پروڈیوسر ڈائیریکٹر کو اس قدر ایوارڈز اور اعزازات سے نہیں نوازا گیا جتنے اسٹیون سپل برگ اکیلے سمیٹ چکے ہیں۔ یوں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اسپل برگ کے عہد میں جی رہے ہیں۔ کسی بھی فلم میں جان ڈالنا جذبات کی شدت انڈیلنا کوئی اسپل برگ سے سیکھے۔ کئی ایسی سپر ہٹ فلمیں دیں جن میں کہانی برائے نام تھی لیکن منظر کشی اس قدر جاندار تھی کہ ناظر فلم کے سحر میں جکڑا رہتا ہے۔

اسٹیون سپل برگ فلم کی مشکل ترین کہانی چنتا ہے جس میں جذبات سے کھیلنا مشکل تر ہو لیکن پھر اس میں وہ شدت ڈالتا ہے کہ کئی بار جذبات چھلک جاتے ہیں۔ سیونگ پرائیویٹ رین میں جنگ کی ہولناکی کی اولین بیس منٹ ہوں، یا شینڈلر لسٹ میں یہودیوں پر مظالم کی منظر کشی کرنا ہو، جراسک پارک جیسی سائنس فکشن فلم، اور لنکن یا دی پوسٹ جیسی خالص تاریخی اور سیاسی فلمیں اسٹیون سپل برگ نے اپنے ناظرین کو کبھی مایوس نہیں کیا۔

اسٹیون اسپل برگ ایک اور کمال یہ بھی کرتا ہے کہ اچھوتے تخیلات پر فلمیں بناتا ہے جیسا کہ دی ٹرمینل جیسی فلم جس میں ایک فرد عجب سفارتی کشمکش میں پھنس جاتا ہے۔ یا وار ہارس ایسی فلم ہے جس میں جس میں فلم کا مرکزی کردار ایک گھوڑا ہے۔ اسٹیون اسپل برگ نے فلموں میں ہمیشہ نئے تجربات کیے لیکن قسمت کا دھنی ایسا رہا کہ ہمیشہ یہ تجربے کامیاب ہوئے۔

ایسا ہی ایک تجربہ فلم مین ان بلیک نامی سائنس فکشن کامیڈی فلم بھی ہے جس کے خیال مستعار کے لیے آپ تحریر یہاں تک پڑھ آئے ہیں۔ کامیڈی فلم مین ان بلیک میں ایک سائنسی آلہ دکھایا گیا ہے جو مطلوبہ انسانوں کی کسی مخصوص وقت کی یاداشت محو کر دیتا ہے۔ یعنی کمپیوٹر کی زبان میں میموری ڈیلیٹ کر دیتا ہے۔

لاکھ تحقیق کے بعد بھی مجھے ابھی کوئی ایسی فلم بھی نہیں مل سکی جو بتائے کہ کوئی ایسا آلہ بھی ہے جو انسانی شعور کو ڈیلیٹ کر دے۔ کوئی ایسا منتر ہے جو انسان کے فہم کو منہا کر دے۔ پہیا ایجاد ہو چکا تو اب ممکن نہیں کہ انسانیت بھول جائے کہ پہیے کی شکل کیسی ہوتی ہے۔ نسل انسانی کا مربوط تسلسل قائم رہے تو انسان کو آواز حروف زبان بیان کوئی بھلا نہیں سکتا۔ آسان لفظوں میں کہوں تو شعور کی واپسی ممکن ہی نہیں۔ اسٹیون اسپل برگ کی فلم کی مانند حقیقی دنیا میں کوئی آلہ ایسا نہیں جو انسانی شعور کو الٹا چلا دے۔ تاریخ کا مسلسل ماہ و سال کو کچلتا دھرا الٹ پھیر کے لفظ سے آشنا ہی نہیں۔

نہ جانے میرے دیس کے مقتدر اذہان کس خیال غلط میں ہیں کہ شعور کی جاگ کا عمل رک جائے گا۔ انشقاق کا رستہ مادے کی سرشت میں ہے۔ کیا پاکستان میں انسانی جینیات کے اصول بدلے جا سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔

تو پھر یہ اذہان شعور سے رزم آرا کیوں ہیں؟ سویرے کے مقابل آڑ رکھنے سے نور کا رستہ کبھی رک پایا ہے؟ انسان نے اپنے ارتقا سے حق حکمرانی کا تعین سیکھا ہے۔ یہ شعور کی پرداخت کا معاملہ ہے۔ جس فرد کو ایک بار شعور آ گیا کہ بائیس کروڑ عوام کو کس کے تابع کس معاہدے کی بالادستی میں رہنے کا حق حاصل ہے اس کا شعور واپس نہیں جا سکتا۔ اس کے شعور کو خوف کی فصیلوں سنگینوں اور جبر تلے خاموش تو رکھا جا سکتا فنا نہیں کیا جاسکتا۔

طے ہے کہ یہ شعور کی جاگ ایک آفاقی اصول کے طور تسلیم ہو گی کہ حق حکمرانی اس معاہدے کو ہی حاصل ہے جس کی بنیاد پر زمین کا ایک ٹکڑا ریاست کہلاتا ہے۔ اور اس کے تحت سویلین بالادستی کی اولین منزل ناگزیر ہے۔ جسے حصول کے بعد اگلی منزل ایک فلاحی ریاست کی جانب سفر کا آغاز ہو گا۔ یہ جنگ ایسی ہے جس کے مقدر میں فتح لکھ دی گئی ہے۔ کیونکہ دلیل اور شعور سے جنگ جیتنا ممکن ہی نہیں۔ تاریخ نے آج یہ اپنے صفحات میں اس جنگ کی فتح کا عنوان اپنے نام کرنے کا موقع نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو بخشا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے اس اعزاز کو اپنے نام کرتے ہیں یا کوئی معمولی مفاد کے عوض مصلحت کا شکار ہوتے ہیں۔ نواز شریف یا مریم نواز نے اگر آج یہ آخری موقع گنوا دیا تو کل کوئی اور عوامی فتح کا عنوان اپنے نام کر لے گا۔ لیکن یہ جنگ عوام کے حق حکمرانی پر منتج بہرحال ضرور ہو گی۔

کیونکہ شعور کی واپسی ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments