درد تو اچھا ہوتا ہے


درد سے ہمیں ہمدردی ہے۔ درد بے چارا پاکستانی فلموں کے ولن کی طرح ہر دم مطعون اور ملعون گردانا جاتا ہے۔ بس کچھ جو سمجھے تو خواجہ میر درد اسے سمجھے اور اپنا تخلص ”درد“ فرما کر اسے توقیر عطا فرمائی یا پھر شان الحق حقی نے درد کو لذت سے معمور کیا۔ کہتے ہیں

لذت درد سے آسودہ کہاں دل والے
ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے

لیکن آج ہم ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ درد تو اچھا ہوتا ہے۔ زندگی کی ابتدا ہی درد زہ سے ہوتی ہے۔ زندگی کو عدم سے وجود میں لانے کے بعد بھی درد، خود کو ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں کر لیتا بلکہ تا حیات ہمارے محافظ کا کردار ادا کرتا ہے۔

جی قارئین کرام درد ہمارا محافظ ہے۔ درد ایک الرٹ الارم ہے جو ہمارے جسم پر شب خون مارنے والی حقیقی اور متوقع شر انگیز اور ضرر رساں سرگرمیوں سے باخبر کرتا ہے۔ اگر درد نہ ہو تو ہم تو بے خبری میں مارے ہی جائیں۔ ذرا سوچیں اگر گرم توے پر ہاتھ پڑ جائے یا چھری ہاتھ کو چھو جائے، یا پاؤں پر کیڑا یا سانپ کاٹ لے تو یہ درد کا الرٹ الارم ہی ہے جو آپ کو ضرر رساں شے سے پیچھے ہٹنے اور خطرے کا سد باب کرنے کی مہلت دیتا ہے۔

اپنڈکس یا پتے کی سوزش ہو، گردے کی پتھری ہو یا حمل خارج الرحم، اگر درد طبل جنگ نہ بجائے تو اندر خانے کیا کچھ ہو جائے اور خبر ہی نہ ہو، تا آنکہ موت کا پنجہ دبوچ ہی ڈالے۔ دل کا درد خطرے کی گھنٹی نہ بجائے تو آپ کو کون بتائے کہ دل کی خبر لیجیے جو خود خون کی بندش کا شکار ہے۔ سن رسیدہ مردوں میں مردانہ غدود کی سوجن، بڑھوتری یا کینسر کا پہلا بگل بھرے ہوئے مثانے کا درد ہی تو ہے۔ عورت نو مہینے حمل کو سنبھالتی ہے درد زہ کی ابتدا اسے ولادت کی اطلاع دیتی ہے اور مناسب مقام اور طبی مدد حاصل کرنے کی مہلت دیتی ہے وگرنہ بغیر درد کے سڑک، باتھ روم یا کسی بھی غیر محفوظ جگہ ولادت ہوجاتی ہے جسے ہم سروائیکل انکامپیٹینس کہتے ہیں۔

ماہواری کے درد کا بھی ذکر ہو جائے۔ ماہواری میں درد اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ تولیدی نظام ٹھیک ہے اور قرار حمل کے لئے بیضے کا خروج وقت پر ہو رہا ہے۔ ماہواری میں درد پیدا کرنے والے کیمیائی مادے پروسٹاگلینڈن اور لیوکوٹرین، پروجیسٹرون ہارمون کے زیر اثر بڑھتے ہیں۔ پروجیسٹرون کا افراز بیضہ خارج ہونے سے مشروط ہے۔ نان اوولیٹری سائیکل ( non ovulatory cycle ) درد سے عاری ہوتے ہیں۔ یہی۔ وجہ ہے کہ ماہواری شروع ہونے کے پہلے سال میں عموما ماہواری کا درد نہیں ہوتا کیونکہ سسٹم کے میچور ہونے تک اوولیشن نہیں ہوتی۔

الخ یہ کہ اگر درد ناراض ہو جائے اور کچھ کہنا چھوڑ دے تو جذام کی طرح انگلیوں کی پوریں گر جائیں یا ذیابیطس کی طرح پیر کٹنے کی نوبت آ جائے آپ کو خبر ہی نہ ہو۔

اس سارے مضمون کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ درد کا مداوا نہ کیا جائے۔ درد ایک الارم ہے، باخبر ہونے کے بعد اس کا بٹن آف کرنا ضروری ہے۔ درد کا درماں کرنا اب ایک اختصاصی شعبے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جسے پین مینجمنٹ (درد کا درماں ) کہا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ دافع درد گولیاں اور انجکشن دستیاب ہیں بلکہ درد کا احساس پیدا کرنے والے اعصاب کو بھی سن کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گیٹ وے آف پین تھیوری کے مطابق باب الم کو ہمدردی لمس، کونسلنگ اور ہمت افزائی کے منتر سے بند یا نیم وا کیا جاسکتا ہے۔

یہ سب کیسے ممکن ہے اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کو درد کا احساس کیسے ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کی اندرونی اور بیرونی سطحوں پر نادیدہ مخبر (receptors) تعینات ہیں جو عام حالات میں ساکت اور غیر فعال رہتے ہیں لیکن جونہی کوئی موذی دراندازی کرتا ہے یہ سیکیورٹی الارم کی طرح فعال ہو جاتے ہیں اور پیغامات کی ترسیل کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جو اعصاب (nerves) کے ذریعے حرام مغز (spinal cord ) تک پہنچتا ہے۔ حرام مغز سے اطلاعات، دماغ کے زیریں ایوانوں (thalamus۔

madula pons) سے ہوتی ہوئی اعلی ایوان (cortex) تک پہنچتی ہے۔ راہ میں کئی جنکشن پر مثبت یا منفی اثرات کے حامل کیمیائی مادے (neurotransmitters ) اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دماغ آپ کو درد کا شعور عطا کرتا ہے۔ اطلاع کی اہمیت اور ایمرجنسی کے مطابق اعصابی نظام احکامات جاری کرتا ہے کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے اور یہ سب کچھ اک طرف العین میں ہوجاتا ہے۔ (سبحان اللہ) کچھ چھوٹے موٹے احکامات تو شعور کی اجازت کے بغیر حرام مغز ہی صادر کر دیتا ہے مثلاً ہاتھ کے عضلات کو حکم دیا جاتا ہے کہ ہاتھ کو توے سے پیچھے کھینچ لیا جائے۔ اپ کا شعور اس میں شامل نہیں ہوتا۔ پین مینجمنٹ اس نظام کی ہر کڑی پر کارروائی کرتی ہے۔

تولیدی عمر کی 60۔ 72 فیصد خواتین کو ماہواری کا درد ہوتا ہے۔ ان میں سے بیشتر کو معمولی نوعیت کا درد ہوتا ہے جو زندگی کی روز مرہ مصروفیات میں حارج نہیں ہوتا۔ تقریباً دس فیصد کو درمیانہ درجے کی تکلیف ہوتی ہے لیکن % 3.5 کے لئے یہ درد ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ہوتا ہے۔ درد کی شدت انہیں کام اور اسکول سے غیر حاضری پر مجبور کر دیتی ہے۔ لڑکپن میں یہ درد زیادہ شدید ہوتا ہے کیونکہ درد پیدا کرنے والا کیمیائی مادے پروسٹاگلینڈن کی سطح بلند ہوتی ہے وقت کے ساتھ اس کی شدت میں کمی آجاتی ہے حمل کی کیمیائی تبدیلیاں بھی موافق ثابت ہوتی ہیں۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا ماہواری کے درد کی وجہ پروسٹاگلینڈن ہے جو کہ رحم کی دیوار کے خلیے پروجیسٹرون کے زیر اثر پیدا کرتے ہیں۔ یہ درد دو قسم کے آلام کا مجموعہ ہے۔ پروسٹاگلینڈن رحم کو بار بار سکیڑتا ہے تاکہ جمع شدہ مواد خارج ہو سکے۔ اس سے رہ رہ کر مروڑ اٹھتا ہے۔ PGF 2 اتنا کس کے رحم کو نچوڑتا ہے کہ ہر مروڑ پر رحم کو خون کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے اور ویسا ہی درد پیدا ہوتا ہے جیسا انجائنا کی صورت میں سینے میں ہوتا ہے۔

اور فیض صاحب کے انجائنا والے مصرعے منطبق کیے جا سکتے ہیں۔
میرے ویرانہ تن میں گویا
سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر
سلسلے وار پتا دینے لگیں۔

پس ایسی دوائیاں جو پروسٹاگلینڈن کی سطح میں کمی لائیں ماہواری کے درد میں موثر ثابت ہوتی ہیں۔ ان میں بروفن اور پونسٹن عام ہیں۔ یہ دوا درد یا ماہواری کی ابتدائی علامت پر ہی کھا لینی چاہیے۔ گرم پانی کی بوتل سے سکائی خون کی سپلائی کو بڑھاتی ہے اس کے ساتھ تکلیف دہ مادے کو دفع کرتی ہے جس سے آرام آتا ہے۔ وٹامن B 1، B 6، E اور اومیگا تھری کا استعمال بھی ماہواری کے درد کی شدت کم کرنے میں مددگار پایا گیا ہے

متبادل طریقہ علاج میں ایکوپنکچر اور چائے کے استعمال سے بھی اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں ایک چینی اسٹڈی کے مطابق سبز چائے میں موجود کیٹاچن (catachin) ۔ پروسٹاگلینڈن کی سطح کے نزول میں معاون ثابت ہوا ہے۔ ورزش سے خون کی فراہمی بہتر ہوتی ہے اور جسم میں قدرتی دافع درد اینڈورفن پیدا ہوتے ہیں۔

اگر ان سب اقدامات کے باوجود درد کی شدت بے قرار کیے رکھے تو ماہر امراض نسواں سے لازمی مشورہ کرنا چاہیے تاکہ تفصیلی معائنہ اور انویسٹیگیشن سے ماہواری میں میں درد پیدا کرنے والے دوسرے امراض کی تشخیص کی جاسکے جن میں اینڈومیٹریوسس، رحم میں رسولی یا پیڑھو کا انفیکشن وغیرہ شامل ہیں۔ ان امراض کا علاج ایک الگ موضوع ہے۔ اگر تمام انویسٹیگیشن نارمل ہیں اور یہ صرف پرائمری ڈیسمنورہیا (primary dysmenorrhoea) ہے تو ہارمون کے دانشمندانہ استعمال سے اس کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔ پین مینجمنٹ کی ٹیم سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اکیسویں صدی میں جینے والی خاتون کا راستہ مسدود نہیں ہو سکتا اور اسے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments