عقیدے کی آزادی کے بارے میں کچھ خیالات


اظہار کا حق محترم ہے۔ بھائی عدنان خان کاکڑ نے تاریخی حوالے سے ایک تحریر لکھی۔ بھائی مدثر ظفر نے اس پر اپنا ردعمل تحریر کیا۔ \"\"دونوں تحریریں \”ہم سب\” پر شائع ہو گئیں۔ بہت اچھی بات ہے۔

مجھے بھائی مدثر ظفر کے ایک اس جملے سے اختلاف ہے \”عدنان صاحب کسی شخص کا تعلق کسی بھی مذہب کے کسی بھی فرقہ سے کیوں نہ ہو چاہے وہ مذہب بیزار دہریہ ہی کیوں نہ ہو لا محالہ ہر شخص کی یہ خواہش ہو گی کہ وہ اپنے عقائد کا اپنے نظریات کا پرچار کرے، مذہبی چھوڑ فی زمانہ ایتھیسٹ بھی یہی یہ چاہتے ہیں دنیا کے تمام ممالک ایتھسٹ ہو جائیں۔\”

اس ایک جملے میں بھائی مدثر ظفر سے، میری نظر میں، متعدد سہو ہوئے ہیں

پاکستان میں اپنے ہم وطنوں کے آئینی ، سیاسی اور شہری حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے احباب کا بنیادی استدلال ہی یہ ہے کہ عقیدہ ہر شہری کا بنیادی اور انفرادی حق ہے۔ آئین نے شق 20 میں اس انفرادی حق کی غیر مشروط ضمانت دی ہے۔ چنانچہ کسی شہری کے عقیدے کی نوعیت یا ماہیت پر ریاست یا کسی دوسرے شہری کو سوال اٹھانے کا حق نہیں اور نہ ہی کسی شہری کو اپنے عقیدے کی بنیاد پر کسی امتیاز کا شکار ہونا چاہیے۔ آئین، قانون اور تمام ریاستی اداروں اور پالیسیوں میں عقیدے سے قطع نظر ہر شہری کو برابر کا رتبہ، حقوق، احترام اور مواقع ملنے چاہیں۔

اس نقطہ نگاہ کی رو سے کسی شہری کو اجتماعی مکالمے اور عوامی بحث مباحثے میں کسی دوسرے شہری کے عقیدے پر انگشت نمائی یا مفروضہ سازی نہیں کرنی چاہیے۔ بھائی مدثر ظفر کو اپنا موقف بیان کرتے ہوئے محترم دوسروں کے عقائد کے بارے میں مفروضہ باندھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ ایک غیر ضروری اور ممکنہ طور پر امتیازی اشارہ تھا۔

\”آپ مذہب بیزار دہریہ ہی کیوں نہ ہوں\” کی ترکیب نحوی سے گمان ہوتا ہے گویا اس بنیاد پر امتیازی سلوک کی گنجائش موجود ہے۔ از رہ کرم اس نکتے پر غور فرمائیے کہ دہریا ہونے سے مذہب بیزار ہونا لازم نہیں آتا۔ بذات خود عمرانیات میں مذہب کی اصطلاح ایک وسیع تر مشمولاتی مظہر ہے جو انسانی معاشرے میں طرح طرح کے معتقدات کی صورت میں موجود ہے۔ مذہب سے مراد ایک اجتماعی ادارہ ہے جس کی اتنی ہی صورتیں ممکن ہیں جتنے انسان اس زمین پر بستے ہیں۔ انسانوں کے معتقدات میں باہم مخاصمت یا دشمنی کا مفروضہ قدیم ہے۔ بقائے باہمی، باہم احترام اور شخصی آزادی کے اصولوں کا تقاضا ہے کہ عقیدے کی بنا پر مخاصمت یا دشمنی کو ترک کر دیا جائے۔ ایک مہذب انسان کو اپنے عقائد پر کاربند رہنے کے لئے دوسرے عقائد کی قدر پیمائی یا انہیں برا سمجھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

تیسری گزارش یہ ہے کہ عقیدے کی آزادی میں اپنے عقائد کی ترویج کا حق شامل ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر انسان اپنے عقائد کی ترویج یا تبلیغ میں دلچسپی رکھتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ دونوں رجحانات موجود رہے ہیں۔ کچھ عقائد میں ترویج کا عںصر شامل رہا ہے اور کچھ میں نہیں۔ عقیدے کی انفرادی آزادی ہر انسان کا حق ہے۔ عقیدے کے اظہار، پیروی اور ترویج کے معاملات فرد کی انتخابی صوابدید کا حصہ ہیں، ہمارے لئے یہ مفروضہ باندھنا شاید مناسب نہ ہو کہ سب انسان اپنے معقتدات کی ترویج چاہتے ہیں۔

ایک آخری نکتہ یہ ہے کہ ریاست ایک آئینی اور سیاسی بندوبست ہے۔ عقیدہ فرد کے ضمیر سے تعلق رکھتا ہے۔ جدید ریاست عقیدے کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتی۔ ریاست میں رہنے والے تمام شہری عقیدے کی آزادی کا حق رکھتے ہیں۔ کسی ریاست کو مسلم, مسیحی یا ہندو ریاست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ہندوستان میں بیس کروڑ مسلمان رہتے ہیں تو ہندوستان ہندو ریاست کیسے ہوسکتا ہے؟ ہندوستان, ہندوستان میں رہنے والوں کا ہے وہ بھلے ہندو ہوں یا مسلمان، پارسی ہوں یا مسیحی، سکھ ہوں یا بدھ۔ اسی طرح پاکستان، پاکستان میں رہنے والوں کا ملک ہے۔ ہمارے وزیراعظم محترم نواز شریف نے گزشتہ روز کٹاس کے مقام پر کیا اچھی بات کہی کہ وہ سب پاکستانیوں کے وزیراعظم ہیں۔ امریکہ کی ریاست امریکہ کے شہریوں کی ہے۔ وہاں ڈانلڈ ٹرمپ رہتے ہیں اور ہمایوں خان بھی رہتے ہیں، وہاں ہلیری کلنٹن بھی رہتی ہیں اور شانتا رام بھی رہتے ہیں۔ ہندوستان کا صدر ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر عبد الکلام ہو سکتے ہیں، لندن کا میئر صادق خان ہوسکتا ہے۔ ہمیں ریاست اور شہری میں واضح فرق کرنا چاہئے۔ سیکولر ریاست مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں کرتی۔ سیکولر ریاست کو ملحد ریاست سمجھنا درست نہیں۔ اگر ریاست شہریوں کے عقیدے میں مداخلت کرتی ہے تو وہ نان سیکولر ریاست ہے۔ اگر ریاست شہریوں کے عقیدے کی آزادی کا تحفظ کرتی ہے تو ایسی ریاست سیکولر ریاست کہلاتی ہے۔ دنیا میں نہ کوئی ریاست ملحد ہے اور نہ ریاست کو ملحد ہونا چاہئے۔ ریاست کو ملحد قرار دینا بذات خود سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو گا۔ عقیدے کی آزادی کا احترام ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ یہ امر قابل اطمینان نہیں کہ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ سیکولرازم کو الحاد کے مترادف سمجھتے ہیں۔ سیکولر ہونے کے لئے ملحد ہونا ضروری نہیں۔ یہ دو الگ الگ تصورات ہیں۔ ایک سیاسی بندوبست ہے اور دوسرا انفرادی فکر سے تعلق رکھتا ہے۔

یہ درویش کے طالب علمانہ خیالات ہیں۔ ہر پڑھنے والے / والی کو اپنی سوچ کے مطابق رائے قائم کرنے کا حق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments