کراچی میں جولائی 1972 کے لسانی فسادات: اردو، سندھی اور سندھ، زبان کے تنازع کی تاریخ

جعفر رضوی - صحافی، لندن


ذوالفقار علی بھٹو

آج سے 49 برس قبل نو جولائی 1972 کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ’قومی زبان‘ کے معاملے پر ہونے والے فساد اور مشتعل مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ان ہلاکتوں کی یاد میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد (لالو کھیت) میں قائم ’مسجدِ شہداء‘ کے احاطے میں کئی قبریں بطور ثبوت آج بھی موجود ہیں۔

اسی فساد کے تسلسل میں سندھ بھر میں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور دیگر علاقوں اور شہروں میں بھی کئی دن تک جاری رہنے والے حملوں، جلاؤ گھیراؤ اور پرتشدد واقعات میں مزید ہلاکتیں بھی ہوتی رہیں اور خوف و دہشت کی فضا میں شہریوں کی جان و مال اور املاک کو زبردست نقصان پہنچا جاتا رہا۔

اس وقت مرکز اور صوبہ سندھ دونوں جگہ پر پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔

لسانی بل اور سندھ کا ماحول

یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو (جو بعد میں ملک کے نویں وزیراعظم بھی بنے) اُس وقت ملک کے صدر تھے اور ان کے کزن ممتاز علی بھٹّو سندھ کے (تیرھویں) وزیرِ اعلیٰ تھے۔

1947 میں تقسیم ہند (یا قیام پاکستان) کے وقت ہندوستان کی (زیادہ تر) شمالی ریاستوں (خاص کر اُتّر پردیش یا یوپی) میں آباد اردو اور کئی دیگر زبانیں بولنے والے مہاجروں کی اکثریت کو ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آکر کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہر ی علاقوں میں آباد ہوئے لگ بھگ پچیس سال ہوئے تھے۔

اگرچہ بعض توقعات پوری نہ ہونے اور کوٹہ سسٹم جیسے معاملات یا پھر (ٹرانسپورٹ اور دیگر شہری سہولتوں سے جڑے شہری) مسائل سنگین ہوجانے کی وجہ سے شہری علاقوں میں ’ہلکی پھلکی موسیقی‘ شروع ہوچکی تھی۔

25 برس تک معاملات بہتر ہوجانے اور مسائل و مشکلات حل ہوجانے کی امّید لگائے ان مہاجروں کی توقعات اب بے چینی میں بدل رہی تھیں اور یہی ہلکی پھلکی موسیقی اب بلند ہوتی شکایتوں میں ڈھل رہی تھی۔

اچانک ہی پیپلز پارٹی حکومت کی جانب سے ایک ایسا لسّانی (زبان سے متعلق) مسوّدۂ قانون یا لسّانی بل ’سندھ ٹیچنگ، پروموشن اینڈ یوز آف سندھی لینگویج بل‘ صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا گیا جس کے نتیجے میں صوبے میں پہلے اردو سندھی تنازع پیدا ہوا ، پھر اُس کے ردّعمل میں کراچی میں ہونے والے فساد میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔

اگر تنقید نگاروں کی بات مانیں تو اسی بل کی وجہ سے صوبے میں اردو اور سندھی زبان اور اُن کے بولنے والوں کے درمیان تقسیم ، خلیج ، تعصّب اور نفرت نے جنم لیا اور ’یہ سب کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود سمجھے جاتے ہیں۔‘

اس زمانے کے اخبارات اور اب انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق یہ لسّانی بل تین جولائی 1972 کو وزیراعلیٰ ممتاز بھٹّو حکومت نے سندھ اسمبلی میں پیش کیا کہ صوبے کی سرکاری (دفتری) زبان صرف سندھی ہوگی۔

سندھ کے شہری علاقوں میں پہلے ہی سے کافی بے چینی موجود تھی۔ بل اسمبلی میں پیش ہوتے ہی زبردست ہنگامہ ہوگیا۔ خود روزنامہ جنگ نے رئیس امروہوی کی نظم ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ کو صفحۂ اصل پر حاشیہ کے طور پر شائع کیا جو بذات خود ایک احتجاج سمجھا گیا۔

اس کہانی کے سلسلے میں کی جانے والی گفتگو میں رئیس امروہوی کی صاحبزادی فرزانہ رئیس نے بتایا کہ ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ دراصل مشرقی پاکستان میں اردو کی مخالفت کے ردّعمل میں تخلیق کی گئی تھی۔

پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے سندھ اسمبلی کے اندر اور باہر کئی سطح پر مخالفت کے باوجود بل کو اکثریت کی بنیاد پر اسمبلی سے منظور کروا ہی لیا جس کے تحت سندھی کو صوبے کی واحد سرکاری (دفتری) زبان قرار دے دیا گیا اور لازم قرار پایا کہ تمام سرکاری اور عدالتی امور سندھی میں انجام دئیے جائیں گے جبکہ تعلیمی اداروں میں سندھی لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائے گی۔

بل اسمبلی سے منظور ہوکر قانون بننا ہی تھا کہ حزب اختلاف کی جانب سے پہلے ہی سے کیے جانے والے ہڑتال کے اعلان کے دوران ہونے والے مظاہرے اور احتجاج اچانک ہی بدترین تشدد کی شکل اختیار کر گئے۔

رئیس امروہوی کی نظم ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ پہلے تو ایک ترانے کی شکل اختیار کر گئی اور بعد میں شہر کی ہر سڑک گلی کوچے میں نعرہ بن کر گونجی۔

بل پر ہنگامہ آرائی اور تشدد

پاکستانی اخبارات کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ شہر کے علاقوں لیاقت آباد اور برنس روڈ اور دیگر مقامات پر ہنگامے پھوٹ پڑے جن کے دوران بدترین تشدد ہوا۔

مظاہرین نے دکانوں اور تجارتی مراکز (مارکیٹ) کو آگ لگادی۔ ایک زوردار دھماکے سے لیاقت آباد میں قائم کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کی مارکیٹ زمین بوس ہوگئی۔ سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ اور پتھراؤ کے نتیجے میں شہر بھر میں ٹریفک معطل ہوگیا ، بازار بند ہوگئے۔

سینکڑوں طلبا نے جامعہ کراچی کے شعبۂ سندھی کی عمارت کو آگ لگا دی۔ لیاقت آباد کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر رہا جہاں ہجوم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان دن بھر جھڑپیں ہوتی رہیں۔

مشتعل ہجوم نے شہر بھر میں قائم پیپلز پارٹی کے کئی دفاتر پر ہلّہ بول دیا کئی مقامات پر ان دفاتر کو بھی آگ لگا دی گئی، جگہ جگہ پیپلز پارٹی کے پرچم نذرِ آتش کردیئے گئے، سرکاری دفاتر اور عمارتوں پر حملہ آور ہجوم نے سرکاری ریکارڈ اور دفتری ساز و سامان کو جلا ڈالا۔

مگر ملیر کے علاقے میں جو شہر کا سندھی اکثریتی علاقہ تھا (اور اب بھی ہے) ایک ہجوم نے سندھی زبان کی حمایت میں بھی ہونے والے مظاہرے کے دوران ایک کالج پر حملہ کردیا فرنیچر توڑ ڈالا اور عمارت کے تمام شیشے چکنا چور کر ڈالے۔

ان مظاہرین نے گورنر تالپور زندہ باد، وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹّو زندہ باد، سندھ کے مخالفوں سندھ چھوڑ دو جیسے نعرے لگائے جبکہ مہاجر اکثریتی علاقوں میں سندھی کے خلاف نعرے لگائے جاتے رہے ممتاز بھٹّو اور رسول بخش تالپور کے پتلے نذرِ آتش کیے جاتے رہے۔

دن بھر جاری رہنے والی اس ہنگامہ آرائی سے نمٹنے کے لیے بالآخر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کراچی نے (جو اس وقت تک ضلع تھا) ضلعے بھر میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کردی جس کے پانچ یا پانچ سے زائد افراد کا اجتماع غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

ہر قسم کا اسلحہ ، تلوار ، چاقو ، نیزے بھالے ، لاٹھی ڈنڈے سب لے کر چلنے پر پابندی عائد کردی گئی مگر شہر بھر میں جاری بلوے اور ہنگامہ آرائی پر قابو نہ پایا جاسکا۔

خاص طور پر لیاقت آباد کا علاقہ ’میدان جنگ‘ بنا رہا جہاں بالآخر پولیس نے مشتعل مظاہرین اور ہنگامہ آرائی پر قابو پانے کے کئے گولی چلا دی۔

اخبارات کے مطابق اس پولیس فائرنگ کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔

مظاہرین نے الزام لگایا کہ پولیس نے بے دریغ فائرنگ کرکے نہتّے شہریوں کا قتل عام کیا ، گھروں میں گھس کر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا ، لوگوں کو مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا ، دکانوں اور گھروں میں قیمتی سامان اور اشیا لوٹ لیں اور سینکڑوں شہریوں کو گرفتار کرلیا۔

رئیس امروہوی کے نواسے ذوالفقار رضوی نے بتایا کہ اس دن جب ہنگامہ آرائی بہت بڑھ گئی تو ان کی والدہ (رئیس امروہوی کی صاحبزادی فرزانہ رئیس) یہ اطلاع ملنے پر کہ گارڈن ایسٹ میں واقع رئیس امروہوی کی رہائشگاہ پر بھی حملہ ہونے والا ہے ، اپنے گھر سے رئیس امروہوی کے گھر جانے کے لئے روانہ ہوئیں۔

’مگر جس گاڑی میں امّی اور ابّا تھے وہ راستے میں گولیمار کے قریب مشتعل ہجوم میں گھر گئی اور تب ہی کسی نے امّی کو پہچان لیا کہ ارے یہ تو رئیس صاحب کی صاحبزادی ہیں انہیں جانے دو ، تب کہیں جاکر امّی گارڈن ایسٹ پہنچ پائیں۔‘

مشتعل احتجاجی مظاہرین کی کارروائیاں اتنی بڑھیں کہ کراچی کے باہر سندھ کے دیگر شہروں اور علاقوں تک جاپہنچیں۔

روزنامہ جنگ کے مطابق اردو محاذ حیدرآباد کے رہنماؤں جہانگیر آزر اور عابد رضوی نے حیدرآباد میں پریس کانفرنس کرکے متنبّہ کیا کہ اب اردو اور سندھی دونوں زبانوں کے علاوہ اب کوئی فیصلہ قابل قبول نہیں ہوگا۔

ان رہنماؤں نے (مہاجر ، غیر سندھی یا)نئے سندھی رہنماؤں کو مخاطب کرکے تنبیہ کی کہ اگر اب انھوں نے صرف سندھی زبان کی بجائے اردو اور سندھی دونوں زبانوں کے علاوہ بھٹّو حکومت کی جانب سے پیش کردہ کوئی بھی اور فیصلہ قبول کیا تو ان نئے سندھی رہنماؤں کو سندھ کے شہری علاقوں میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

کراچی سے شروع ہونے والے اس احتجاج کا دائرہ سندھ بھر کے شہروں تک وسیع ہوگیا۔

خاص طور پر حیدرآباد ، سکھر ، میر پور خاص ، نواب شاہ ، لاڑکانہ اور دیگر شہری علاقے بھی اس احتجاج سے زبردست متاثر ہوئے۔

ان علاقوں میں بھی احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے دوران جانی و مالی نقصان ہوا جو اخبارات میں ویسے رپورٹ نہیں ہوسکا جیسے کراچی کی ہنگامہ آرائی کی خبریں شائع ہوئیں۔

ایک رہنما نے کہا کہ علی اختر جعفری اس وقت سندھ کے شہر سکھر کے نامور صحافی تھے جو روزنامہ جنگ سمیت اردو اور انگریزی کے کئی ذرائع ابلاغ کے نمائندہ خصوصی یا وقائع نگار رہے۔

علی اختر جعفری کا کہنا تھا ’جب گورنر تالپور نے یہ کہا کہ حزب اختلاف ہفتہ وار تعطیل کے علاوہ (جو اس وقت اتوار کو ہوتی تھی) ہڑتال کروا کر دکھائے تو ردّعمل میں اندرون سندھ ایک دو دن نہیں بلکہ مہینے بھر سے زائد مدّت تک کاروبار بند رہا۔ ایک آدھ دن کچھ دیر کے لئے دکان کھل گئی تو کھل گئی ورنہ تمام کاروبار بند رہتا تھا۔

’بل منظور ہونے کے بعد اندرون سندھ یہ مہم بھی شروع ہوگئی کہ اب ہر دکان کا بورڈ سندھی میں لکھا جائے گا پھر جس دکان کا بورڈ اردو میں ہوتا تھا اس پر پتھراؤ کے واقعات رونما ہونے لگے ، سندھی ذرائع ابلاغ ایسی تجاویز پیش کرنے لگے کہ اردو میں بات نہ کی جائے کوئی اردو میں بات کرے تو آپ جواب ہی نہ دیں۔‘

’پھر زور سندھی ٹوپی پر ڈالا جانے لگا کہ سندھی ٹوپی پہنی جائے۔ یہ حالت ہوگئی کہ خود ذوالفقار بھٹّو کندھ کوٹ میں تو سندھی میں تقریر کرتے تھے اور سرکٹ ہاؤس سکھر میں اردو میں۔‘

’پھر صحافیوں کے خلاف تشدد شروع ہوا کاظمی صاحب (ایک صحافی) کو مارا خود مجھے بھی دھمکی آمیز پیغامات ملنے کے بعد آٹھ برس کے لیے سکھر سے نقلِ مکانی کرنی پڑی۔ لاڑکانہ ، شکار پور ،سکھر اور دیگر شہروں سے بڑے پیمانے پر نقلِ مکانی شروع ہوگئی جو کئی برس تک جاری رہی۔‘

’سکھر اور شکار پور جیسے شہروں میں تو ستّر فیصد آبادی اردو بولنے والے مہاجر وں کی تھی نوابشاہ میں بھی قریباً یہی تناسب تھا کئی شہر تھے جہاں مہاجر اکثریت میں تھے جیسے ٹنڈو الہ یار ٹنڈو محمد خان وغیرہ۔‘ علی اختر جعفری نے دعویٰ کیا۔

لسّانی بل پر شروع ہونے والے اس احتجاج کے نتیجے میں کراچی سمیت سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں صورتحال اس قدر مخدوش اور خطرناک ہوگئی کہ بالآخر پیپلز پارٹی کے سربراہ اور ملک کے صدر ذوالفقار علی بھٹّو کو مداخلت کرنی پڑی۔

ذوالفقار بھٹّو نے 29 افراد کو اسلام آباد طلب کر لیا جن میں سیاسی رہنما، دانشور، ادیب، قلمکار، صحافی اور دیگر شامل تھے۔

ان افراد میں جے اے رحیم، حفیظ پیرزادہ، معراج محمد خان، میاں محمود علی قصوری، حیات محمد خان شیرپاؤ، طاہر محمد خان، گورنر رسول بخش تالپور، وزیراعلیٰ ممتاز بھٹّو، سید قائم علی شاہ، مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ اور دیگر شامل تھے۔

اردو

سات مارچ 1952 کو روزنامہ جنگ کراچی میں رئیس امروہوی کی ایک نظم بھی شائع ہوئی جس کا نام تھا ’نوحۂ اردو‘

’میرے والد کو بھی ذوالفقار بھٹّو نے اسلام آباد طلب کیا۔‘ رئیس امروہوی کی صاحبزادی فرزانہ رئیس نے مجھے بتایا۔ ’مگر یہ طلبی تو دراصل ایک طرح کی گرفتاری تھی۔ انہیں ایک ہوٹل میں بند کردیا گیا جہاں وہ دو تین دن تقریباً ہاؤس اریسٹ (نظر بند ہی سمجھو) تھے۔ وہ وہاں کئی دن رہے۔‘ فرزانہ رئیس نے بتایا۔

رئیس امروہوی کے نواسے ذوالفقار رضوی نے بتایا کہ دراصل جنگ نے جس انداز سے 1948 میں لکھی گئی نظم ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ کو باقاعدہ حاشیے کے ساتھ (ایک بار پھر) شائع کیا تھا وہ بھی بہت اشتعال انگیز تھا اور بھٹّو انتظامیہ کا خیال تھا کراچی کی بے چینی اور ہنگامہ آرائی کے پیچھے رئیس امروہوی جیسے افراد کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے۔‘

مگر بالآخر بھٹّو انتظامیہ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ وزیر اعلیٰ اور گورنر سندھ سمیت حکومتی عہدیداروں، قومی رہنماؤں اور ممتاز شخصیات سے مشاورت کے بعد ایک سمجھوتہ طے پایا جس کی تفصیلات کا اعلان صدر بھٹّو نے قوم سے خطاب میں کیِا جسے قومی ذرائع ابلاغ سے نشر بھی کیِا گیا۔

17 جولائی 1972 کے روزنامہ جنگ کے مطابق اس ’نشری تقریر‘ میں ذوالفقار بھٹّو نے اس سمجھوتے کی تفصیلات بتاتے ہوئے وعدہ کیا کہ ’سندھ اسمبلی کے منظور کیے ہوئے بل پر عملدرآمد اس طرح ہوگا کہ اردو کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ 12سال تک اردو یا سندھی نہ جاننے کی بنیاد پر ملازمتوں میں کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جائے گا ، اس سلسلے میں گورنر آرڈینینس جاری کریں گے جس کی توثیق سندھ اسمبلی سے کروائی جائے گی ، احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والوں سے نرم رویّہ اختیار کیا جائے گا ، عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے انتظامیہ میں تبدیلی کی جائے گی۔‘

صدر بھٹّو نے اس تقریر کے لیے اردو، سندھی اور انگریزی، تینوں زبانوں کا سہارا لیا۔

صدر بھٹّو نے یقین دہانی کروائی کہ وہ ہنگامہ آرائی سے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں لیاقت آباد بھی جاؤں گا مجھے ان علاقوں میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ، میں مہاجروں کے خلاف کیسے ہوسکتا ہوں میں بھاگنے والا نہیں ہوں کہ بھاگ جاؤں۔ میں صدرات چھوڑ سکتا ہوں غدّاری نہیں کرسکتا۔ معاشرہ بھائیوں کو قتل کی اجازت نہیں دیتا میں ناظم آباد ، گولیمار ، عیدگاہ ، لطیف آباد ، حیدرآباد کے دوستوں سے اپیل کروں گا کہ خدارا ضبط و تحمّل سے کام لیں۔‘

18 جولائی 1972 کے اخبارات سے پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے میں فوراً ہی گورنر سندھ میر رسول بخش تالپور کی جانب سے آرڈیننس جاری کیا گیا جس میں یقین دہانی کروائی گئی اردو بھی صوبے کی زبان رہے گی روزنامہ جنگ نے شہ سرخی لگائی ’اردو سندھی ساتھ ساتھ، آرڈیننس نافذ کردیا گیا‘۔

آرڈیننس کے مطابق متفقہ لسّانی فارمولے پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے گا، 12 سال تک صرف اردو یا سندھی جاننے کی بنیاد پر نہ تو کسی کو سرکاری ملازمت میں کوئی امتیاز برتا جائے گا اور نہ ہی اس بنا پر کسی کو سرکاری ملازمت سے برطرف کیا جائے گا۔

ہنگاموں کے دوران گرفتار ہونے والوں کی رہائی اور ہنگاموں کی عدالتی تحقیقات پر غور کیا جائے گا صدر بھٹّو کی جانب سے ان اقدامات پر عمل کی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔

حزب اختلاف کے رہنما ڈاکٹر اشتیاق قریشی نے بھی آرڈینینس کا خیرمقدم کیا اور اُن کا موقف بھی سامنے آیا کہ متفقہ فارمولے سے صوبے میں اردو کو جائز مقام حاصل ہوجائے گا، سندھ پبلک سروس کمیشن میں اردو اور سندھی بولنے والوں کو مساوی نمائندگی دی جائے گی اور آرڈیننس کو اسمبلی سے منظور کروانے کی بھی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔

پیپلزپارٹی اور سندھی زبان

پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ایسا سندھی قوم پرست حلقے پر مشتمل ووٹروں کا دیرینہ اور جائز مطالبہ پورا کرنے کے لیے کیآ۔

تاج حیدر نے یہ بھی کہا کہ وزیراعلیٰ ممتاز بھٹّو تعصب سے بالاتر نہیں تھے۔’میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ تعصب سے بالکل پاک تھے ، وہ تعصب کا سیاسی استعمال کرتے تھے۔‘

جب تاج حیدر سے سوال کیا گیا کہ پیپلز پارٹی تو پورے ملک پر حکمراں جماعت تھی وفاقی سیاست کرتی تھی تو پھر پنجاب میں پنجابی یا بلوچستان میں بلوچی لسّانی بل کیوں نہیں متعارف کروائے گئے تو انھوں نے کہا اُن صوبوں میں ایسا مطالبہ تھا ہی نہیں اس لئے وہاں لسّانی بل پیش نہیں کیے گئے۔

سندھی قوم پرست رہنما اور قومی عوامی تحریک نامی سیاسی جماعت کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو تاج حیدر کے موقف کی تردید کرتے ہیں۔

مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ اب چاہے ہمارے سندھی بھائی کچھ بھی کہیں میں اس کے حق میں نہیں ہوں کہ اگر کوئی کوئی اردو بولنے والا بچہ سندھی نہ پڑھنا چاہے تو ہم اُسے ڈنڈا مار کر کہیں کہ سندھی پڑھو یا پنجابی پڑھو۔

’اسی طرح سندھی بچہ اردو نہ پڑھنا چاہے تو ہم زبردستی کہیں کہ اردو پڑھو تو جیسے سندھی بچوں پر اردو مسلط کی گئی اسی طرح آگے چل کر اگر لسّانی بل میں یہ کہا گیا کہ آپ زبردستی سندھی پڑھیں تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔ ہم کون ہوتے ہیں کہ اس کو کہیں یا مسلط کریں کہ تم اردو بولنے والے سندھی بنو یا پنجابی بولنے والے سندھی بنو۔‘

’اردو بولنے والے جو زبان بولنا چاہیں یہ ان کا حق ہے اور اپنے آپ کو جو کہنا چاہیں ان کا حق بنتا ہے اس لئے مہاجر یا اردو بولنے والے بچوں کو زبردستی کوئی زبان پڑھائی میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔‘

’میرا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ اردو نہیں ہونی چاہئیے میرا مطالبہ یہ ضرور ہے کہ پاکستان کی قومی زبانوں میں سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو سب ہونا چاہئیے جیسے امریکہ اور کینیڈا میں ہے کہ ہسپانوی، فرانسیسی اور جرمن بھی سیکھنے کا اختیار ہوتا ہے اسی طرح ہمیں بھی کئی زبانیں آنی چاہیں جتنی زیادہ زبانیں آئیں گی اتنی ہی معاشی ترقی بھی آئی گی۔‘

تاج حیدر نے اپنی پارٹی پر تعصب کے الزام کے جواب میں کہا کہ بھٹّو صاحب کے سگے بہنوئی نواب شیرانی اردو بولنے والے تھے، بے نظیر بھٹّو کی بیٹی (بختاور بھٹّو) کی شادی پنجابیوں میں ہوئی، پیپلز پارٹی میں تعصب کی بنیاد پر بات ہی نہیں ہوتی۔

تاج حیدر نے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا کہ لسّانی بل کے سلسلے میں پیپلز پارٹی سے بھی غلطی ہوئی۔

’جس وقت یہ سب ہوا ذوالفقار علی بھٹّو ملک سے باہر تھے۔‘

جیسے ہی ذوالفقار بھٹّو واپس تشریف لائے اُسی دن انھوں نے سندھی اردو اور انگریزی میں قوم سے خطاب کیا اور اس مسئلے کی وضاحت کی۔

بھٹّو صاحب نے وطن واپس آتے ہی رئیس امروہوی اور اشتیاق حسین سمیت سب سے بات کی اور معاملات سدھارے۔

بنگلہ دیش سے آنے والے بہاریوں کی آباد کاری کا کام بھی بھٹّو صاحب نے رئیس امروہوی کے ہی سپرد کردیا پھر ایک مثبت فضا بن گئی جو اب تک قائم ہے۔ پھر سادات امروہہ جیسے اداروں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی یادگاری مشاعرہ کروایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp