کیا موجودہ طالبان پچھلوں سے مختلف ہیں؟

وسعت اللہ خان - تجزیہ کار


یہ وہ طالبان تو بہرحال نہیں ہیں جن کے امیر ملا عمر تھے اور ان کے صفِ اول و دوم کے متعدد ساتھی دارالعلوم اکوڑہ خٹک یا جامعہ بنوریہ ٹاؤن کراچی کے فارغ التحصیل تھے۔

اور جنہیں اس وقت کے پاکستانی وزیرِ داخلہ نصیر اللہ بابر اپنے بچے کہا کرتے تھے اور جن کے بارے میں ہر پاکستان مخالف افغان کا خیال تھا کہ ان کی جنگی حکمتِ عملی کے تالے کی چابی آئی ایس آئی اور ڈپلی کیٹ چابی سعودی انٹیلی جینس کے پاس ہے۔

اور اس بات کو تقویت اس بات سے ملی جب صرف تین ممالک نے امیرالمومنین کی قندھاری امارت کو تسلیم کیا جو کہ پاکستان، متحدہ عرب امارات و سعودی عرب تھے۔

مگر جلد ہی طالبان کے ان بہی خواہوں و پشت پناہوں پر کھلتا چلا گیا کہ طالبان محض مدرسی نہیں افغان بھی ہیں۔ ان کا اسلامی نظریہ بھی افغان برانڈ ہے۔

یعنی کچھ دیوبندیت، کچھ قوم پرستی، بہت سا پختون ولی ( پختون آنر کوڈ ) اور قبائلی انداز کی سخت گیری کا ایک مقامی آمیزہ۔

اور پھر یہ بھی واضح ہوتا چلا گیا کہ طالبان اپنی مدد کے بدلے پاکستان اور خلیجی ممالک کے احسان مند سہی مگر وہ اظہارِ تشکر کے لیے متواتر فرشی سلام کے برصغیری درباری کلچر سے کوسوں دور ہیں۔

جب طالبان کی پہلی نسل نے بامیان میں گوتم بودھ کے دو مجسموں کو توپ دم کر دیا، جب انھوں نے ڈیورنڈ لائن کو سابق افغان حکومتوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مستقل سرحد ماننے کے پکے سمجھوتے سے انکار کر دیا، جب انھوں نے وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا تک گیس پائپ لائن منصوبے میں تعاون سے انکار کر دیا۔

جب انھوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی صلاح کے برعکس القاعدہ کی مہمان نوازی کا فیصلہ کر لیا اور جب نائن الیون کے بعد انھوں نے پاک سعودی اسٹیبلشمنٹ اور اپنے خیرخواہ علماِ کرام کے مشورے پر القاعدہ کی مہمان نوازی سے ہاتھ اٹھانے سے انکار کردیا۔

تب کہیں جا کے ’طالبان ساہڈے برخوردار نیں‘ سمجھنے والوں کو پتہ چلا کہ یہ برخوردار اتنے بھی سعادت مند نہیں بلکہ ہوشیار دیوانے ہیں۔ اسٹرٹیجک ڈیپتھ ہمارا خواب تھا۔ مگر طالبان نے پاکستان میں اسٹرٹیجک ڈیپتھ لے لی۔

طالبان کی پہلی نسل کہ جس کا دار و مدار ہی پاکستانی و خلیجی اخلاقی، مادی اور سفارتی مدد پر تھا۔ اگر وہ بھی ہماری خواہشات کے اعتبار سے تابعدار ثابت نہ ہو سکی تو طالبان کی موجودہ نسل سے مرضی کے معاملات طے کرنے میں کہیں زیادہ مشکل پیش آ سکتی ہے۔

گذشتہ طالبان نسل کے برعکس موجودہ نسل کی تربیت و رگڑائی بیس برس پر پھیلے میدانِ جنگ میں ہوئی ہے۔

پہلی نسل کے برعکس یہ نسل نہ صرف تصاویر کچھوانے سے نہیں ہچکچاتی بلکہ اسے بین الاقوامی و علاقائی سیاست کی ابجد، بڑی طاقتوں کی گریٹ گیم اور مذاکرات کے آرٹ سے پچھلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ واقفیت ہے۔

پہلی نسل کی قیادت سو فیصد پشتون اور وہ بھی جنوبی افغانستان کے پشتونوں کے ہاتھ میں تھی۔ دوسری نسل میں آپ کو پشتونوں کے ساتھ ساتھ ازبک، تاجک، ہزارہ حتی کہ بلوچ نژاد طالبان کمانڈر بھی مل جائیں گے۔

پہلی نسل کے طالبان کو کابل میں حکومت بنانے میں کامیابی کے باوجود شمالی افغانستان کو عسکری اعتبار سے اپنے زیرِ نگیں لانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا۔پھر بھی مکمل کامیابی نہیں ہوئی۔

مگر طالبان کی موجودہ نسل کی بیشتر توجہ اس وقت وسطی ایشیائی ریاستوں سے متصل شمالی صوبوں اور ایران سے متصل مغربی صوبوں پر کنٹرول کی کوشش پر ہے۔

وسعت اللہ خان کے مزید کالم پرھیے

کچھ صحافی لڑکیوں کو کیوں تنگ کرتے ہیں؟

یقیں محکم، عمل پیہم، جہالت فاتحِ عالم

مسئلہ تنگ نظری نہیں بلکہ ریاستی دماغ ہے

غلام، جمہوری سرکس اور رنگ ماسٹر

پہلی نسل کے طالبان کو جب بھی کوئی مشاورتی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ پاکستان میں اپنے ادارتی و مدرسی دوستوں کی جانب دیکھتے تھے۔

مگر موجودہ طالبانی قیادت زیادہ معاملہ فہم ہے۔ اس کی قطر سے اچھی دعا سلام ہے۔ قطر مخالف سعودیوں سے بھی ورکنگ ریلیشن شپ ہے، ایرانی قیادت سے بھی ہلو ہائے ہے، ترکوں سے بھی کوئی خاص مخاصمت نہیں، روسی بھی ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، چین بھی انہیں ایک عامل افغان قوت تسلیم کرتا ہے اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی کابل پر طالبان کے ممکنہ قبضے سے کوئی خاص تشویش نہیں ہو گی اگر وہ اپنے مذہبی ، قانونی و ریاستی تجربات صرف افغانستان تک محدود رکھیں ۔

طالبان کی موجودہ قیادت کو سابقین کی نسبت بخوبی اندازہ ہے کہ ایک بار اقتدار چھن جائے تو دوبارہ بہت جانی نقصان اور طویل عرصے کے بعد ہی ہاتھ لگتا ہے۔ چنانچہ خارجہ پالیسی میں مہم جوئی کو بس اتنی جگہ دی جائے جو آس پاس کے ممالک اور بڑی طاقتوں کو ہضم ہو سکے۔

پچھلی طالبانی نسل کو معیشت سے زیادہ نظریے کی پروا تھی۔ موجودہ نسل نے گذشتہ بیس برس میں شاید یہ بھی سیکھ لیا ہے کہ نظریہ اقتدار تو دلا سکتا ہے مگر سٹیٹ کرافٹ کی گاڑی کا انجن تقویٰ سے نہیں پٹرول سے چلتا ہے اور پٹرول صرف پرہیز گاری سے نہیں بلکہ پیسے سے آتا ہے۔

پلے پیسہ نہ ہو تو پھر بین الاقوامی امداد اور قرضوں تک رسائی محض اخلاص کی بنیاد پر نہیں بلکہ کچھ لو کچھ دو کا اصول برتنے پر ہی ہوتی ہے اور اس پر سود بھی دینا ہوتا ہے اور اس وقت ستر فیصد افغان بجٹ باقی دنیا کا عطیہ ہے۔

لگ یہی رہا ہے کہ موجودہ طالبان گذشتگان کے مقابلے میں کم آدرشی اور زیادہ عملیت پسند ثابت ہوں گے۔ ورنہ یہ کمپنی تا دیر و تا دور نہیں چل پائے گی۔

قبضہ کرنا کسی بھی لڑائی میں پہلا مگر آسان مرحلہ ہوتا ہے۔ اصل لڑائی قبضے کے بعد شروع ہوتی ہے اور اسے جیتنے کے لیے طوعاً کرہاً ہی سہی دنیا داری سیکھنا اور برتنا ناگزیر ہے ۔

ہر چند ہو مشاہدہِ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر ( غالب )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).