زبردستی کا تحفہ


دنیا میں بہت سارے کام ایسے ہیں جن کے کرنے سے مختلف فائدے ہوتے ہیں اور ایسے کاموں کی بھی کمی نہیں جو ذہنی سکون کو غارت کرتے ہیں۔ کسی کے دل کو خوش کرنا نیک عمل ہے۔ بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے تبادلے سے نیکیاں، فائدہ اور قلبی سکون ملتا ہے۔ تحفہ دینا لین دین نہیں ہاں البتہ دیا اور لیا جائے تو انسان کو سکون، راحت اور قرار حاصل ہوتا ہے۔ تحفہ دینا اور لینا ایک عمدہ عمل ہے۔ یہ عمل تعلقات کو بہتر بناتا ہے، رشتوں کو مضبوط کرتا ہے اور یادوں کو دوام بخشتا ہے۔

اس سے آپسی بھائی چارہ مضبوط تر ہوتا ہے۔ دلوں میں ایک دوسرے کے تئیں قدر اور محبت بڑھتی ہے۔ تحفہ ایک شاندار روایت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام، وقار اور حرمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ خلوص اور محبت کا عکاس ہے۔ تحفے سے انسان کی قدر و منزلت میں ہی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے جذباتی لگاؤ، یگانگت، قربت اور نزدیکیاں بڑ جاتی ہیں۔ مجھے کم ہی تحفے ملتے ہیں۔ قدرت ہو یا انسان مجھے اس لائق ہی نہیں سمجھا گیا کہ تحفوں سے نوازا جاؤں۔

خدا نے ان پروفیسر صاحبان کو کبھی توفیق نہ دی جن کے ساتھ میں نے کام کیا اور نہ مجھے ہدایت کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیتے تاکہ یادیں ستاروں کی مانند چمکتی رہتی۔ اگر کسی کو میں نے تحفہ دیا تو پہلے اس نے مانگا یا اگر مجھے کسی نے پیار سے نوازا تو میں نے ایک قسم کی زبردستی کی اور اس نے شرمندگی سے بچنے کے لیے تاوان ادا کیا۔ قلق اس بات کا ہے کہ حب اور محبت سے مجھے کم ہی تحفے ملے ہیں۔

ٹنگڈار کالج کی مرتعش شخصیت ڈاکٹر پرویز صاحب سے میرے مراسم اس حد تک تھے کہ میں انہیں کوئی بھی بات بلا خوف کے بول سکتا تھا شرط حد تہذیب تھی۔ ایک دو سال سے جان پہچان اس حد تک ہو گئی تھی کہ وہ نصیحتوں کے سوا کبھی کبھار مجھ سے ہنسی مذاق بھی کر لیا کرتے تھے۔ ان کی بڑی بڑی آنکھیں تھیں، ناک پتلی اور خوبصورت، حال مست، بال سنہرے اور گھنے، چال اور قد درمیانی، باتیں لائق سماعت اور قابل اعتبار، کبھی کبھار چشمہ لگاتے تھے۔

جب باتیں کرتے تھے تو ایک ہاتھ سے سلجھے ہوئے بالوں کو مزید سلجھاتے تھے۔ ٹنگڈار سے تعلق تھا اس لیے کالج میں مشہور و معروف تھے اور ان کا اچھا خاصا دبدبہ بھی تھا۔ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور طلباء ان پر ازحد اعتبار کرتے تھے۔ کوئی بھی کام ہو ان کے پاس دوڑے چلے آتے تھے۔ یہ بھی کسی کو نراش نہیں کرتے تھے۔ ہر کام میں ماہر، ہر فن مولا کہا جائے تو بہتر۔ ان کی تقدیر اور تقریر اچھی تھی۔ موقع کوئی بھی ہو خوب بولتے تھے۔ آواز خوبصورت اور بھاری تھی۔ باتوں میں بھی خوبصورتی اور وزن تھا جو اثر رکھتی تھیں۔

میں سٹاف روم میں حسب عادت سوچوں میں گم بیٹھا تھا ڈاکٹر پرویز عجلت میں داخل ہوئے اور کسی ضرورت کی خاطر اپنا لاکر کھول کر کچھ ڈھونڈنے لگے۔ مجھے بھی نظر پڑی، لاکر میں کاغذات اور ضروری چیزوں کے علاوہ کتابیں تھیں۔ وہ ”انوائرمنٹ سائنس“ کے شاہسوار تھے۔ سائنس پڑھنے اور پڑھانے والے کے لاکر میں اردو کتابیں حیرانی اور تعجب کے ملے جلے اثرات سے آنکھیں موند کر دیکھیں کہ واقعی اردو کی کتابیں ہیں یا میرا وہم ہے۔ غور سے دیکھا تو واقعی اردو کی کتابیں تھیں۔

میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کی کہ یہ کتابیں جھینگر کی نظر ہوجائیں گی کیوں نہ آپ یہ مجھے عنایت کر دیں۔ پس و پیش کے عالم میں ڈاکٹر صاحب کی دریا دلی کی نس پھڑک تو اٹھی لیکن اس کے مدمقابل نس نے ہاتھ کو روکے رکھا۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے دل پر پتھر رکھ کر تین کتابیں عصمت چغتائی شخصیت اور فن از ڈاکٹر دل افروز گنجو، کلیات فیضی جلد اول از فیض ابن فیضی اور پہاڑی میگزین پھلواری مجھے عنایت کیں۔ میں نے صرف زبانی شکریہ ادا کیا۔

سوچا تھا کہ ضرور کوئی تحفہ واپس دوں گا لیکن ان کے شایان شان کوئی چیز ابھی تک نظر سے نہیں گزری۔ میں جب بھی اس مانگے ہوئے زبردستی تحفے کو ہاتھ میں اٹھاتا ہوں ڈاکٹر صاحب بے تحاشا یاد آتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے پاس اردو کی وہ باقی کتابیں بھی یاد آتی ہیں اور ان کی بد نصیبی کہ وہ الماری میں جھینگر کی نظر ہو جائیں گی لیکن ان کو قاری نہ ملے گا۔ یہ زبردستی کے تحفے مجھے سے اکثر باتیں کرتے ہیں اور میرا شکریہ بجا لاتے ہیں کہ آپ نے ہمیں قید خانے سے آزادی دلائی، ہمیں کھولا، ہماری ورق گردانی کر رہے ہو۔ کتنی خوش نصیب ہوتی ہیں وہ کتابیں جنہیں بار بار پڑھا جاتا ہے، سنوارا اور نکھارا جاتا ہے اور برا نصیب لے کر وہ کتابیں آتی ہیں جو کسی کے لاکر میں قید ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments