پاکستان میں بچوں کے میڈیا کے حوالے سے کئی عمدہ کام ہو رہے ہیں
آج یو ٹیوب پر بھانجی کو بھیجنے کے لئے کچھ مواد تلاش کر رہا تھا۔ تو پاکستان کے ہلا گلا ڈاٹ کام کی ایک سیریز تک رسائی ہوئی، سیریز کا نام ہے ”قائد اعظم سے باتیں“ ۔ نظریں جیسے ٹک کر رہ گئیں۔ بچوں کی تربیت کے لئے یہ ایک عمدہ سیریز ہے، کئی جگہ میری اپنی آنکھیں بھی نم دیدہ ہوئے بغیر نہ رہیں۔ ہمارے یہاں ہندوستان میں بھی بہت سارے کارٹون سیریز موٹو پتلو، چھوٹا بھیم، پکڑم پکڑائی، لٹل کرشنا وغیرہ بچوں کے لئے بنے اور مقبول بھی ہوئے، لیکن ان میں اخلاق اور تربیت کے حوالے سے پروسے گئے مواد سے میں ہمیشہ ہی نا مطمئن رہا۔ کئی ملی تنظیموں کو اس جانب متوجہ کیا، پروجیکٹ بھی بنا کے دیا مگر ایسی باتیں انھیں سمجھ میں کب آتی ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی تہذیب اور بقاء کے حوالے سے اس جانب بہت پہلے توجہ دے لینی چاہیے تھی، مگر ان کی ترجیحات تو کچھ اور ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں دنیا تھری ڈی فلموں اور ورچوئل رئیلٹی کے مزے لینے میں مصروف ہے وہاں ہم ابھی تک ٹی وی پر منہ میں آم ٹھونسنے یا موبائل فون جیتنے کے لیے کاکروچوں کے ساتھ نہانے کے کرتب دیکھنے، کون بنے گا کروڑ پتی، کیوں کہ سانس بھی کبھی بہو تھی اور کپل شرما جیسے کھوکھلی تمسخر والے بے ہودہ پروگرام دیکھنے میں ہی خوشی محسوس کرتے ہیں۔
پاکستان میں اس حوالے سے کئی عمدہ کام ہو رہے ہیں۔ ہمارے یہاں بچے عبد الباری، اقراء کارٹون، لرن وتھ ذکریا، نوشہ اور ذکی وغیرہ کو کافی پسند کرتے ہیں۔ مغرب میں بھی کئی اچھے سیریز بہت معروف ہوئے ہیں، ڈینجر ماوس اور لونی ٹیونس وغیرہ بڑے مقبول ہوئے۔ اس حوالہ سے امریکہ، برطانیہ کے چرچوں نے بھی بڑا کام کیا ہے۔ میں نے کئی ایسی عمدہ فلمیں دیکھیں جو فحش اور گندگی سے بالکل پاک تھیں، تحقیقات سے پتہ چلا کہ اسے کسی چرچ نے اسپانسر کیا تھا۔
ہمارے یہاں مغرب کے کاموں کو تو ناپائیدار آشیانہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر اس کا متبادل پیش کرنے کی بات کریے تو لوگ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں، ہم مغرب کو کچھ بھی کہیں مگر اس حوالے سے ان لوگوں نے بھی بڑا کام کیا ہے جہاں بچوں کے لیے علیحدہ ٹی وی چینلز ہیں، ان کی عمر کے لحاظ سے تفریحی، معلوماتی اور تعلیمی مواد نشر کیے جاتے ہیں۔ ان پروگرامز اور ڈراموں کے معیار اور ان سے بچوں پر اثرات کو بخوبی جانچا جاتا ہے اور مناسب آراء ان ٹی وی چینلز کو بھی دی جاتی ہے۔
اکثر مغربی ممالک میں تدریسی و غیر تدریسی اداروں کی جانب سے آرڈیننس اسٹڈی کی جاتی ہے جہاں میڈیا اور اس کی متعلقہ آرڈیننس کے حوالے سے تحقیق کی جاتی ہے۔ بچے بھی ایک پوری آرڈیننس تصور کیے جاتے ہیں لہٰذا ان کی ترجیحات اور علمی و ذہنی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے متعلقہ نشریاتی مواد پر تحقیق ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں سب چنگا سی ہے۔ کسی کو کچھ بولیے یا کہیے تو ہم ہی ولن بن جاتے ہیں، بہت سارے معاملات میں تو خیر میں نے بولنا ہی چھوڑ دیا ہے مگر جب کبھی اللہ تعالیٰ مجھے پیسے دے گا انشاء اللہ بہت سے خواب پورے کروں گا جس میں بچوں کے لئے ایک اسلامی سیریز اور محمد علی جوہر کی زندگی پر ایک فلم ضرور بناوں گا۔
- فرقہ واریت:ترقی پذیر ہندوستان کا ناسور! - 01/04/2024
- ہندوستان میں مسلم ووٹ کی بے وزنی اور اس کا حل - 28/03/2024
- ریزرویشن اور اقلیتوں کی نمائندگی - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).