افغانستان میں ’طالبان کی واپسی‘ سے انڈیا، ایران اور ترکی کے مفادات پر کیسے اثر انداز ہوسکتی ہے؟

دلنواز پاشا - بی بی سی نامہ نگار ، دہلی


طالبان کی جانب سے افغانستان کے متعدد علاقوں پر قبضے کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کے حوالے سے جہاں دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے اور دنیا کے کئی ممالک امریکہ کی وہاں سے واپسی کو بہت غور سے دیکھ رہے ہیں۔

جہاں افغانستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کی جانب سے حالیہ واقعات پر ردعمل سامنے آیا ہے وہیں انڈیا، ایران اور ترکی جیسے خطے کے بڑے ممالک کے حوالے سے بہت سے ایسے اشارے ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں۔

مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں انڈیا کے سفارتی حلقوں میں اس حوالے سے شدید تشویش پائی گئی اور رواں ہفتے جمعرات کو انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ایران کے دورے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

اپنے قیام کے دوران ایس جے شنکر نے تہران میں نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کا پیغام بھی انھیں پہنچایا۔ تاہم جس دن انڈین وزیر خارجہ تہران میں تھے اسی دن افغان حکومت اور طالبان کا ایک وفد بھی وہاں موجود تھا۔

اس کے بعد جب جے شنکر روس پہنچے تو وہاں بھی طالبان کے نمائندے موجود تھے۔ تاہم اس حوالے سے انڈیا کی طرف سے کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ آیا دونوں فریقوں کے درمیان کوئی ملاقات ہوئی یا نہیں۔

ماضی میں بھی انڈیا اور طالبان کے مابین غیر رسمی گفتگو کی خبریں آتی رہی ہیں لیکن انڈین حکام نے ہمیشہ ان کی تردید کی ہے۔

تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انڈیا کچھ وجوہات کی بنا پر اب انڈیا طالبان سے رابطے میں ہے۔

امریکہ کی ڈیلاویئر یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے پروفیسر مقتدر خان کہتے ہیں کہ طالبان سے بیک چینل مذاکرات کرنے کی اپنی وجوہات ہیں۔

افغانستان کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟

طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو وہ دو ہفتوں میں پورے ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں اور فی الحال یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کا ایک تہائی حصہ اس شدت پسند تنظیم کے زیر اثر ہے۔

افغانستان میں غیر ملکی افواج کی کمان سنبھالنے والے جرنیلوں کا کہنا ہے کہ ملک میں جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے وہ خانہ جنگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

پروفیسر مقتدر خان کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے سے پاکستان، ایران، چین اور انڈیا، سب ممالک میں اضطراب بڑھ جائے گا۔ ’طالبان چین کی سرحد تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خطرہ پیدا کرسکتے ہیں، پاکستان کو طالبانائز کرسکتے ہیں ، ایران بھی اس خطرے سے دور نہیں ہے۔ آنے والے چند مہینوں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان ممالک کے مابین تعلقات کو نئی شکل دی جا رہی ہے۔’

ایران کا کردار

ایران اور افغانستان کے مابین 945 کلومیٹر لمبی سرحد ہے اور گذشتہ روز طالبان نے ایران کی سرحد کے قریب واقعے چند قصبوں پر قبضہ کرنے کادعوی کیا تھا۔

شیعہ اکثریتی ایران نے کبھی بھی کھل کر طالبان کی حمایت نہیں کی لیکن ماضی میں انھوں نے افغان حکومت کے نمائندوں اور شدت پسند گروپ طالبان، جن کے بیشتر اراکین کا تعلق سنی مکتبہ فکر سے ہے، کے مابین امن مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔

ایران نے تاریخی طور پر افغانستان میں امریکی موجودگی کی مخالفت کی ہے اور اسے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

گذشتہ ہفتے افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین تہران میں مذاکرات کے بعد ایران نے کہا ہے کہ ‘ایران امریکہ کی ناکامی کے بعد افغانستان میں بحران حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔’

अफ़ग़ानिस्तान, तालिबान

افغانستان میں انڈیا

نئی دہلی افغان کی حکومت کی حمایت اور طالبان کی کھل کر مخالفت کرتا رہا ہے۔ انڈیا نے 2002 سے اب تک افغانستان میں تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی ہے اور اس کے مفادات سلامتی اور معیشت دونوں سے وابستہ ہیں۔

انڈیا کو خدشہ ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کا اثر و رسوخ بڑھتا ہے تو کشمیر کی صورتحال متاثر ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

روس افغانستان میں کیا چاہتا ہے؟

’طالبان چاہیں تو دو ہفتوں میں پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں‘

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد القاعدہ کی واپسی کا خوف

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا طالبان میں چند گروہوں پر بہت اثر ہے اور اگر طالبان کی افغانستان میں گرفت مضبوط ہوتی ہے تو انڈیا کے لیے یہ صورتحال اچھی ثابت نہیں ہوگی۔

طالبان کے چند گروہوں نے ماضی میں متعدد بار افغانستان میں انڈین مقادات کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم ممکن ہے کہ امریکہ کی زیرقیادت نیٹو افواج کے انخلا کے بعد انڈیا کو افغانستان میں اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا پڑے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کی پروفیسر سوستی راؤ کا کہنا ہے کہ ‘انڈیا نے افغانستان میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، وہاں 7200 کلومیٹر شمال جنوبی راہداری میں سرمایہ کاری کی ہے جو ایران سے روس تک چلے گی۔ اگر اس میں کوئی مسئلہ ہوا تو یہ بہت سے لوگوں کو متاثر کرے گی۔’

انڈیا

انڈیا نے 2002 سے اب تک افغانستان میں تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے

انڈیا کا ردعمل

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انڈیا افغانستان میں سرگرم ہے اور ٹھوس اقدامات اٹھا رہا ہے۔

ترکی کے شہر انقرہ میں یلدریم بائزیٹ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر عمیر انس کہتے ہیں انڈیا وزیر خارجہ کے دورہ ایران کی اپنی اہمیت ہے۔

‘ایران کو خدشہ ہے کہ طالبان اگر افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔ انڈیا اور ایران کے افغانستان کے بارے میں مشترکہ مفادات ہیں اور دونوں ہی اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔’

ماضی میں انڈیا امریکہ کے ساتھ افغانستان میں سرگرم تھا لیکن ایران اور روس کے ساتھ ایسا کوئی اتحاد نہیں تھا۔

انس کا کہنا ہے کہ ’ایس جے شنکر کے تہران پہنچنے سے پہلے ایک طالبان کا وفد وہاں موجود تھا۔ جب وہ روس پہنچے تو وہاں بھی طالبان موجود تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ انڈیا اس وقت ایران اور روس دونوں کے ساتھ افغانستان پر کام کر رہا ہے۔’

سواستی راؤ کہتی ہیں ‘حکومت ہند نے حکومت افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے اور ان تعلقات میں لمبی سرمایہ کاری کی ۔امریکہ کی روانگی کے بعد وہاں ایک قسم کا خلا پیدا ہو رہا ہے جو انڈیا کے مفادات کو متاثر کر سکتی ہے، جس کے تحفظ کے لیے غالباً انڈیا روس اور ایران سے مذاکرات کر رہا ہے۔’

دوسری جانب انڈیا ایران کے تیل بھی بہت بڑا خریدار رہا ہے لیکن امریکی پابندیوں کی وجہ سے اسے 2019 سے اس پر پابندی عائد کرنا پڑی۔

پروفیسر عمیر انس کہتے ہیں کہ ایران کے پاس ایک نیا صدر ہے اور انڈیا اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کی نئی حکومت کے ساتھ تیل کی قیمتوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی آمد کے بعد ایران پر کچھ پابندیاں ہٹائے جانے کی امید ہے اور ممکن ہے کہ انڈیا اس سے فائدہ اٹھانا چاہے گا۔’

دوسری طرف پروفیسر مقتدر خان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں نئی سکیورٹی صورتحال میں ایران کا کردار بھی اہم ہوگا۔

‘حالانکہ انڈیا کے وزیر خارجہ کے دورے کے بعد اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے لیکن انڈیا اس بات کا اشارہ کررہا ہے کہ امریکہ کی ایران مخالف پالیسی کے باوجود انڈیا ایران کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ایک طرح سے یہ امریکہ کے لیے یہ اشارہ ہے کہ امریکہ اور انڈیا کے مابین تعلقات میں بہتری برقرار رہے گی لیکن انڈیا اپنی خارجہ پالیسی کو خود مختار رکھے گا۔’

افغانستان میں ترکی کا اثر و رسوخ اور انڈیا کا کردار

امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں ترکی کا کردار اہم ہو جانے کی توقع ہے اور کابل ائیرپورٹ کی سکیورٹی کمانڈ نیٹو کے ممبر ملک ترکی کے ہاتھ میں رہے گی۔

اگر افغانستان میں ترکی کا کردار بڑھتا ہے تو اس کا اثر انڈیا اور ترکی کے تعلقات پر بھی پڑے گا۔

کشمیر کے بارے میں ترکی کے بیانات کے بعد انڈیا اور ترکی کے درمیان تعلقات میں خلیج بڑھ گئی ہے اور ترکی بھی انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کے قریب ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان کی وجہ سے انڈیا اور ترکی کو قریب آنا پڑ سکتا ہے۔

پروفیسر مقتدر خان کہتے ہیں ‘ترکی اور انڈیا کے تعلقات ویسے نہیں ہیں جو ترکی کے پاکستان کے ساتھ ہیں۔ لیکن اگر افغانستان کی خانہ جنگی میں پاکستان طالبان کے ساتھ ہوتا ہے تو شاید ترکی اور انڈیا قریب آ سکتے ہیں کیونکہ ترک حکومت افغان حکومت کی حمایت کرتی ہے۔’

پروفیسر عمیر انس کا کہنا ہے کہ اگر ترکی ، ایران ، روس اور انڈیا افغانستان کے حوالے سے مشترکہ پالیسی بناتے ہیں تو یہ زیادہ موثر ہوگی۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر انڈیا ترکی سے تعلقات بہتر بناتا ہے تو انڈیا کو پورے وسطی ایشیا میں اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع ملے گا۔

ترکی

امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں ترکی کا کردار اہم ہو جانے کی توقع ہے

کیا چین افغانستان میں بھی اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرے گا؟

اگرچہ افغانستان میں چین کی سرگرمی واضح نہیں ہے ، لیکن افغانستان کی صورتحال چین کے مفادات کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔

چین نے اپنی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔

افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں سی پیک کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین نہ تو افغان حکومت کے ساتھ اور نہ ہی طالبان سے مذاکرات کرنے میں ہچکچائے گا۔

مزید پڑھیے

افغانستان سے انخلا کے بعد دنیا دہشت گردی کے خلاف کیسے لڑے گی؟

’امریکی فوجی رات کی تاریکی میں بغیر بتائے بگرام فضائی اڈہ چھوڑ گئے‘

چین اور پاکستان کے تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ چین پاکستان پر اپنے اثرورسوخ کو طالبان پر اثر انداز کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ افغانستان میں سرمایہ کاری کرنا بھی چاہے گا۔

پروفیسر سواستی راؤ کہتی ہیں کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جلد یا بدیر چین افغانستان میں ایک مضبوط کھلاڑی بن سکتا ہے۔

‘انڈیا کو یہ لگتا ہے کہ مستقبل میں چین افغانستان میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے جس کے نتیجے ان کا وہاں اثر و رسوخ بڑھ جائے گا۔ اس بات کے پیش نظر انڈیا خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے اپنے مفادات کو تحفظ اور فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

افغانستان میں چین کی سرگرمی کا اثر وسطی ایشیا پر بھی پڑ سکتا ہے جو کہ یہ ترکی کے لیے پریشانی کی بات ہے۔

ترکی افغانستان میں ازبک اور ہزارہ گروپوں کی حمایت کرتا ہے اور وہ طالبان کے اثر و رسوخ کو روکنا چاہتا ہے لہذا انڈیا اور وہ مل کر کام کر سکتے ہیں۔

عمیر انس کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ ترکی کی خواہش ہو کہ پاکستان چین پر اپنا انحصار کم کرے اور مغربی ممالک کی طرف جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32492 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp