دانش عالم: بٹ سول کا کمپیوٹر انجینیئر جس نے ساتھی کی جان بچانے کے لیے یخ بستہ لولو سر جھیل میں چھلانگ لگا دی

محمد زبیر خان - صحافی


’مجھے حیرت نہیں ہوئی۔ وہ بچپن سے ہی ایسا تھا۔ دوسروں کے لیے قربانی دینے والا۔۔۔ دوسروں کی خاطر اپنی جان کو داؤ پر لگانے والا۔‘

عالم خان اپنے بیٹے دانش عالم کو بہت یاد کرتے ہیں لیکن ان کی آواز میں غم نہیں۔

دانش یکم جولائی کی صبح اپنی کمپنی کے ساتھیوں کے ہمراہ اسلام آباد سے گلگت بلتستان کے علاقے استور کے راستے میں تھے۔ وادی کاغان سے گزرتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لیے لولوسر جھیل پر رکے، جہاں پر کئی عینی شاہدین کے مطابق وہ اپنے ایک ساتھی کی جان بچانے کی کوشش میں منفی پندرہ ڈگری کے یخ بستہ پانی کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے۔

عالم خان کے مطابق جب انھیں پتا چلا کہ دانش اپنے ساتھی کو بچاتے ہوئے ہلاک ہو گیا ہے تو ان کے مطاق انھیں افسوس نہیں ہوا۔

اگر وہ کسی حادثے یا طبعی موت مر جاتا تو شاید مجھے دکھ اور افسوس ہوتا۔ اب اس کی بہت یاد آتی ہے مگر دکھ نہیں ہوتا۔‘

عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

دانش عالم سافٹ ویئر کی ملٹی نیشنل کمپنی بٹ سول آباد میں بحثیت ویب انجینیئر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کی کمپنی نے ہر سال کی طرح اس سال بھی گلگت بلتستان کے ایک تفریحی دورے کا اہتمام کیا تھا۔

بٹ سول کے سی ای او محمد جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ لوگ جھیل پر پہنچے تو جھیل کے کنارے پانی میں ایک خالی بوتل پڑی ہوئی تھی۔ مجھے یہ بہت برا لگا اور میں نے کہا کہ ’دیکھو لوگ کس طرح ہمارے قدرتی خزانوں کو تباہ کر رہے ہیں، اس صاف و شفاف پانی میں یہ بوتل پھینکنے کی کیا ضرورت تھی؟‘

دانش عالم نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ ’ہمارے لوگوں کو احساس نہیں ہے‘ اور قمیض اتار کی کنارے کی قریب جا کر جہاں پانی زیادہ گہرا نہیں تھا، خالی بوتل نکالی اور چند سیکنڈ پانی میں رہنے کے بعد باہر آگئے۔‘

محمد جاوید کا کہنا تھا کہ ابھی دانش پانی سے باہر ہی نکلے تھے کہ ان کے ایک ساتھی جو غالبا پتھر پر بیٹھے تھے، پھسل کر کنارے سے سات آٹھ فٹ دور گہرے پانی میں جا گرے۔ ’ایسے معلوم ہوتا تھا کہ پہلے چند سیکنڈ میں ہی وہ یخ بستہ پانی سے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔‘

دانش عالم کے ساتھی اور دوست محمد عاصم بتاتے ہیں ’ابھی میں صورتحال کو سمجھ ہی رہا تھا کہ دانش نے جھیل میں چھلانگ لگا دی اور پانی میں موجود شخص کو کمر سے پکڑ کر کنارے کی طرف دکھیلنے لگے۔‘

محمد عاصم کا کہنا تھا کہ ’چند لمحوں کے لیے لگا کہ دانش عالم اپنے ساتھی کو بچا کر کنارے پر لے آئیں گے۔ مگر چند ہی سیکنڈ کے اندر دانش خود بھی ساکت ہوگئے تھے، وہ آگے نہیں بڑھ پا رہے تھے، بس ہاتھ ہلاتے رہے، مجھے لگا ان کا جسم سن ہو چکا ہے۔‘

محمد عاصم کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھ کر ہماری کمپنی بٹسول کے سی ای او محمد جاوید نے اپنی قمیض اتاری اور جھیل میں چھلانگ لگا دی۔ وہ ہمارے ساتھی سے تھوڑا آگے گرے تھے۔انھوں نے اسے آگے سے پکڑ لیا تھا اور میں نے اس موقع پر دیکھا کہ دانش عالم نے محمد جاوید کے کندے پر ہاتھ رکھا تھا۔‘

محمد جاوید کے مطابق جب دانش پانی میں اترے تو ’چند سیکنڈ تک تو معاملہ ٹھیک نظر آیا مگر جب میں نے دیکھا کہ دانش خود پانی کے ہاتھوں سن ہو رہے ہیں تو میں نے بھی جھیل میں چھلانگ لگا دی۔‘

محمد جاوید کا تعلق پنجاب کے ضلع پاکپتن سے ہے جہاں انھوں نے تیراکی سیکھی۔ ان کے مطابق جب انھوں نے پانی میں چھلانگ لگایی تو پہلے چند سیکنڈ کی لیے تو وہ پر اعتماد تھے ’مگر چند سیکنڈ ہی میں یخ پانی نے میرے کس بل نکال دیے تھے۔ ایسا ٹھنڈے پانی سے زندگی میں کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں: ’دانش نے ایک ہاتھ سے ہمارے ساتھی کو پکڑا اور دوسرا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا۔ اتنے میں کنارے کھڑے ساتھیوں نے کپڑے کی رسی پھینک دی۔ رسی میرے ہاتھ میں پہنچی تو دانش عالم کا ہاتھ میرے کندے سے پھسل گیا۔ ہاتھ پھسلا یا دانش عالم نے خود ہی کندھا چھوڑ دیا، کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘

وہ کہتے ہیں ’ہو سکتا ہے کہ دانش عالم سمجھ گئے ہوں کہ دو لوگوں کی زندگی رسی کے ساتھ بھی نہیں بچائی جاسکتی اس لیے انھوں نے اپنی قربانی دے دی ہو۔ یہ سارا واقعہ ایک سے دو منٹ کا ہوگا۔ بعد میں دانش عالم کی لاش مقامی لوگوں کی مدد سے چھ، سات گھنٹے بعد نکالی جا سکی تھی۔‘

محمد عاصم کا کہنا تھا کہ ’دانش عالم گلگت بلتستان کی رہنے والے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان یخ بستہ پانیوں میں چھلانگ لگانے کا کیا انجام ہو سکتا ہے۔ مگر انھوں نے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر اپنی ساتھی کی زندگی کو بچایا۔ اگر وہ چھلانگ لگانے میں چند سیکنڈ کی بھی تاخیر کرتے تو ہمارے ساتھی ڈوب جاتے۔‘

دانش عالم کون تھے؟

عالم خان سابق ریٹائرڈ فوجی اور ایک بینک کے گارڈ رہے ہیں۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا جن میں دانش عالم سب سے چھوٹے اور ایک ملٹی نشینل کمپنی بٹسول میں ویب انجیئر کی خدمات انجام دے رہے تھے۔

ان کی تینوں بیٹیاں تعلیم یافتہ، شادی شدہ اور مختلف اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات دے رہی ہیں۔

دانش نے بھی قائد اعظم یونیورسٹی سے 2018 میں کپمیوٹر سائنسز میں بی ایس سی کیا تھا۔ جس کے فورا بعد ہی اس کو بڑی اچھی ملازمت مل گئی تھی۔

بچپن کا واقعہ جس نے زندگی بدل دی

دانش عالم کی ایک بہن شازیہ عالم سرینا ہوٹل گلگلت میں فنانس ڈائریکٹر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’بچپن میں دانش عالم بالکل پڑھائی نہیں کرتے تھے۔ ہم بہنیں اس پر بہت خفا ہوتی تھیں کہ ہمارا ایک ہی بھائی ہے اور وہ پڑھائی نہیں کرتا۔‘

’ایک دفعہ انگریزی کا پرچہ تھا۔ میں ان کے پاس بیٹھ کر ایک ایک لفظ یاد کرواتی رہی۔ صبح پرچہ دے کر آئے تو میں نے پوچھا کہ کیا لکھا ہے تو کہنے لگے کہ مجھے تو کچھ یاد ہی نہیں رہا۔ یہ سن کر میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی اور روتی رہی۔‘

شازیہ عالم کا کہنا تھا کہ پھر دانش کو ان کے والد اسلام آباد لے گئے جہاں پر وہ حیرت انگیز طور پر پڑھائی میں بہت اچھے ہوگئے تھے۔

عالم خان کہتے ہیں کہ ’دانش کے بارے میں بہنیں کہتی تھیں کہ یہ پڑھائی نہیں کرتا۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگا کہ مجھے اسلام آباد لے جائیں پھر میں پڑھوں گا۔ میں اسے 2003 میں لے کر اسلام آباد آ گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں پر ایک واقعہ ہوا جس نے ان کی زندگی بدل دی۔ واقعہ سننے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ دانش کبھی بھی شرارتی اور لڑاکو نہیں رہے تھا مگر میری (والد) بے عزتی برداشت نہیں کر سکے۔‘

’ایک دن میں ان کو اپنے بینک لے گیا جہاں دو سٹاف ممبران نے دانش کو اپنے پاس بیٹھایا اور ملک شیک منگوایا۔ پھر ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ میں ان کو پانی لا دوں اور دوسرے نے کہا کہ مجھے چائے دے دیں۔ اس پر دانش نے ملک شیک کا گلاس دیوار سے دے مارا۔‘

عالم خان کا کہنا تھا کہ ’میں اس کو مارنے کے لیے لپکا تو سٹاف کے لوگوں نے روک دیا۔ گھر جا کر پوچھا کہ کیا ہوا تھا؟ اس بدتمیزی کی تو کبھی بھی توقع نہیں تھی۔ دانش کہنے لگا کہ ابو آپ ان دونوں سے عمر میں بڑے ہیں۔ وہ آپ کو پانی اور چائے لانے کا کہہ رہے تھے۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔‘

’یہ سن کر میں نے اسے سمجھایا کہ دیکھو میں تو ان پڑھ ہوں، وہ پڑھے لکھے ہیں۔ میں یہ ہی کام کرسکتا ہوں، اب اگر تم بھی نہیں پڑھو گے تو یہ ہی کرنا پڑے گا۔ اگر پڑھو گے تو میری بھی عزت میں اضافہ ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ سن کر اس میں حیرت انگیز تبدیلی آئی۔ اسلام آباد میں اس کو پانچویں کی جگہ چوتھی کلاس میں بیٹھایا گیا تھا مگر اس واقعہ کے بعد اس نے محنت کی اور چار ماہ ہی میں پانچویں کلاس میں چلا گیا تھا۔

’اس کے بعد اس نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتا چلا گیا تھا۔‘

میں ضد کر کے مکھن لگواتی تھی

یہ بھی پڑھیے

ڈوبتوں کو شیوا کا سہارا

دریائے گنگا میں بہتی 21 روز کی بچی کی جان بچانے پر ملاح کو گھر کا انعام

چین: ڈوبتی خاتون کی جان بچانے پر برطانوی سفارت کار ’ہیرو‘ بن گئے

بے نظیر عالم اسلام آباد میں اعلیٰ عہدے پر ملازمت کرتی ہیں اور دانش کی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں کوئی پانچ، چھ سال کی تھی جب دانش پیدا ہوئے تھے۔ ہمارے ہاں روایت ہے کہ جس بہن کے بعد بھائی پیدا ہوتا ہے تو اس کو خوشی میں چہرے پر مکھن لگایا جاتا ہے۔‘

’اب میں بیٹھ جاتی کہ چلو مجھے مکھن لگاؤ۔ دانش میرے بعد پیدا ہوئے تھے لہذا میں ہر وقت اپنا حق جتاتی اور دانش کے پاس کسی کو بھی نہیں آنے دیتی تھی۔‘

بے نظیر عالم کا کہنا تھا کہ ’دانش ہم تینوں کے لاڈلے تھے۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی کوئی شرارت کی ہو۔ ہم بہنیں اکثر اس سے لڑتی تھیں کہ کچھ تو بولو، غصہ کرو تو وہ کہتا کہ چھوڑو آپ لوگ بول رہے ہو غصہ کررہے ہو میں کیا کروں گا غصہ کر کے۔‘

شازیہ عالم کا کہنا تھا کہ ’ہمیں نہیں یاد کہ اس نے کبھی اپنے لیے کوئی خریداری کی ہو۔ کبھی اس نے کسی چیز کی فرمائش کی ہو۔ اس کے لیے ہم بہنیں یا ابو اور امی جو خریداری کرلیتے تھے، جو دے دیتے وہ پہن لیتا تھا۔ ہم بہنوں کے ارمان ہی رہے کہ وہ سٹائیلش ہوتا، کچھ نخرے کرتا مگر اس نے کبھی بھی اس طرح نہیں کیا۔‘

بے نظیر عالم کا مزید کہنا تھا کہ ’میری بڑی بہن شازیہ کی شادی تھی۔ اس تقریب کے لیے بھی ہم ہی نے اس کے لیے خریداری کی تھی، جوتے لینے یاد نہیں رہے تھے۔ ان تمام تقریبات میں اس نے انتہائی پرانے اور خراب جوتے پہنے رکھے۔ بعد میں شادی کی تصاویر اور وڈیو میں دیکھا کہ جوتے انتہائی خراب ہیں۔‘

’پوچھا اور تھوڑا تنگ کیا تو کہنے لگے کہ یہ ہی پڑے ہوئے تھے، میں نے پہن لیے ہیں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ مطلب نہ تو خود خریدے اور نہ ہی کسی سے کہا۔ ایسا تھا میرا بھائی۔‘

تنخواہ میرے اکاوئنٹ میں ٹرانسفر ہوجاتی تھی

زوہرا ملک سب سے بڑی بہن ہیں اور وہ شادی کے بعد کینیڈا منتقل ہو گئی تھی۔ وہ بتاتی ہیں ’میں اس وقت اپنے دفتر میں کام کررہی تھی جب مجھے پتا چلا کہ دانش اس دنیا میں رہا۔ مجھ پر کیا گزری اور کیا بیتی یہ بتانے والی بات نہیں ہے۔ مگر میراچھوٹا نہیں بڑا بھائی تھا۔‘

’جب بھی بات ہوتی تو کہتا کہ ہمیں انسانیت کی خدمت کرنا چاہیے۔ لوگوں کی مدد کرنا چاہیے۔ دنیا تو عارضی ہے کچھ کر لیا تواس دنیا سمیت سب کچھ ہمارا ہوگا ورنہ اس دنیا کا کیا ہے۔‘

عالم خان کہتے ہیں کہ ملازمت ملنے کے بعد ہی سے دانش کا یہ طریقہ رہا تھا کہ جب اس کے اکاوئنٹ میں اس کی تنخواہ ٹرانسفر ہوتی تو زیادہ رقم میرے اکاوئنٹ میں ٹرانسفر کردیتا تھا۔

’اس کی آخری تنخواہ تقریباً 93 ہزار تھی، اس میں سے اس نے 82 ہزار میرے اکاوئنٹ میں ٹرانسفر کردیا تھا۔ باقی پیسوں سے کسی کی مدد کرتا تھا۔ جب کہ میں ہر صبح اپنے بٹوے سے اس کے دن کے خرچے کے لیے کچھ پیسے اس کے بٹوے میں ڈال دیتا تھا۔‘

ماں کے قدموں کی طرف سوتا تھا

شازیہ عالم کہتی ہیں کہ ’وہ امی سے بہت پیار کرتا تھا۔ ہم لوگوں نے تو حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے مگر ہماری امی اب تک یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ دانش اس دنیا میں نہیں رہا۔۔ دکھ تو ساری زندگی نہیں جائے گا مگر ہماری امی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’امی اس کی شادی کا سوچ رہی تھیں۔ اکثر ہم پوچھتے کہ کوئی پسند ہے تو کچھ نہیں بولتا تھا۔‘

عالم خان کہتے ہیں کہ ’وہ بڑا ہو کر بھی اپنی ماں کے پاس سوتا تھا لیکن کبھی بھی منھ کی طرف نہیں سویا بلکہ جس طرف اس کی ماں کے قدم ہوتے تھے وہاں پر اپنی ماں کے پاؤں پکڑ کر سو جایا کرتا تھا۔‘

’میں نے کئی مرتبہ کہا کہ منھ کی طرف سویا کرو۔ اس کی ماں بھی کہتی تھی کہ منہ کی طرف لیٹو مگر وہ کہتا تھا کہ مجھے ان قدموں میں بہت سکون ملتا ہے۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp