پلّوی برنوال: انڈیا میں لوگ سیکس کے بارے میں بات نہیں کرتے، اس لیے میں ان کی مدد کرتی ہوں‘


Pallavi on pink sofa

Pallavi Barnwal
پلّوی برنوال

بہت سے انڈین سکول جنسی تعلقات کے بارے میں یعنی سیکس ایجوکیشن کی کوئی تعلیم فراہم نہیں کرتے، اور یہ والدین پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں سے جنسی تعلقات کے بارے میں بات کریں۔ سیکس کوچ پلّوی برنوال نے بی بی سی کی میگھا موہن کو بتایا کہ اکثر والدین کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ انھوں نے کیا کہنا ہے۔

Short presentational grey line

جب میں ماضی کے بارے میں سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ میری قدامت پسند انڈین پرورش اصل میں کسی ایسے شخص کے لیے بہترین بنیاد تھی جو جنسی کوچ بننا چاہتا ہو۔

میری شخصیت پر سب سے پہلے میرے والدین کے رشتے نے نقش چھوڑے۔

میرے والدین کی شادی کے بارے میں برسوں سے افواہیں تھیں۔ جب میں تقریباً آٹھ سال کی تھی تو مجھ سے اس کے بارے میں سوالات ہونے لگے۔ پارٹیوں میں اگر میں اپنے والدین سے دور ہوتی تو آنٹیوں کی ایک فوج مجھ سے تفتیش کے لیے آ جاتی۔

‘کیا تمھارے والدین اب بھی ایک ہی کمرے میں سوتے ہیں؟‘

’کیا تم نے کوئی لڑائی سنی ہے؟‘

’کیا تم نے کبھی کسی آدمی کو گھر میں آتے دیکھا ہے؟‘

میں آئس کریم کا پیالہ پکڑے کھڑی ہوتی تھی، یا دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے باغ میں گھوم رہی ہوتی تپی کہ بہت سے خواتین ایسے سوالات کی بوچھاڑ شروع کر دیتی تھیں جن کے جواب مجھے معلوم نہیں ہوتے تھے۔

کئی سال بعد میری اپنی طلاق کے بعد میری والدہ نے مجھے پوری کہانی سنائی۔ میرے والدین کی شادی کے اوائل میں میرے بھائی اور میرے پیدا ہونے سے پہلے میری والدہ کو ایک شخص سے محبت ہوئی جو کہ ایک جنسی رشتے میں بدل گئی۔ ہفتوں کے اندر اندر ہی انھیں احساس ہونے لگا اور انھوں نے اسے ختم کر دیا۔ لیکن انڈین معاشرے میں ہر جگہ آنکھیں اور منہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ میرے والد تک افواہیں پہنچیں۔

میرے والد میں 10 سال اور دو بچوں کی پیدائش کے بعد ہی اتنی ہمت ہوئی کہ اس کے بارے میں والدہ سے سوال کریں۔

والد نے والدہ کو یقین دلایا کہ کوئی بھی جواب ان کے رشتے کو متاثر نہیں کرے گا لیکن برسوں کی کشمکش کے بعد ان کے لیے جاننا ضروری تھا۔ والدہ نے انھیں سب بتا دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ جنسی تعلقات کے بارے میں کم اور قربت کے بارے میں زیادہ تھا۔ والدہ نے کہا کہ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا تھا جب ہم نے ابھی فیملی شروع نہیں کی تھی اور ہماری شادی نے زور نہیں پکڑا تھا۔

جیسے ہی میری والدہ نے اپنی بات مکمل کی انھیں میرے والد کی سرد مہری محسوس ہوئی۔ میرے والد فوراً ہی دور ہونے لگے۔ میری والدہ نے اُس کہانی کی تصدیق کر دی تھی جس کا انھیں برسوں سے شبہ تھا اور فوراً ہی دونوں کے درمیان تمام اعتماد ختم ہو گیا۔

Pallavi standing by a tree with a t-shirt saying 'fearless' on it

Pallavi Barnwal

اس سے مجھے یہ بات بڑی واضح طور پر معلوم ہوئی کہ ہم سیکس اور قربت کے بارے میں مناسب طریقے سے بات نہ کریں تو گھر ٹوٹ سکتے ہیں۔

میرا خاندان مشرقی انڈیا کی ریاست بہار سے ہے۔ یہ ملک میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے علاقوں میں سے ایک ہے اور نیپال کی سرحد سے ملحق اور دریائے گنگا کے ساتھ واقع ہے۔

میں نے ایک قدامت پسندی کا بچپن گزارا تھا۔ بہت سارے خاندانوں کی طرح جنسی تعلقات ایک ایسا مضمون نہیں تھا جس پر کھلے عام بحث کی جاتی تھی۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی میرے والدین نے سرِعام ہاتھ پکڑا ہو یا ایک دوسرے سے گلے ملے ہوں۔ ایسا ہماری برادری میں نہیں ہوتا تھا۔

جنسی تعلقات سے متعلق کسی بھی چیز کا میرا پہلا سامنا تب ہوا جب میں 14 سال کی تھی۔

ایک دوپہر کو میں بور ہو رہی تھی تو میں نے اپنے والد کی کتابیں دیکھنا شروع کر دیں۔ ان کے ناولوں اور تاریخ کی کتابوں کے درمیان ایک پتلا پرچہ پڑا تھا۔ اس میں ایک خفیہ دنیا کے بارے میں متعدد مختصر کہانیاں تھیں جہاں مرد اور خواتین ایک دوسرے کے جسم کو پرکھتے ہیں۔

یہ کتاب ادب کی نہیں تھی، یہ اس سے زیادہ شرارتی تھی۔ ایک کہانی میں ایک نوجوان لڑکی تھی نے دیوار میں سوراخ کیا تاکہ وہ ایک شادی شدہ جوڑے کو رات کے وقت دیکھ سکے۔ مجھے ایک ہندی لفظ چمبن کے معنی لغت میں تلاش کرنا پڑے جس کا مطلب تھا فرنچ کِس۔

میرے پاس بہت سارے سوالات تھے لیکن بات کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

میں نے اور میرے دوستوں نے اس طرح کی کبھی بھی بات نہیں کی تھی۔

میں اس کتاب میں اتنی گم ہوگئی کہ ماں کی آواز سن کر اس دنیا میں لوٹنے کو کچھ لمحے لگے۔

اس وقت 1990 کی دہائی کے آخر میں میں نہیں جانتی تھی کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا۔ دنیا بھر میں بہت سے بچوں نے اسی عمر میں جنسی تعلقات کے بارے میں زیادہ تر سکول میں سیکھنا شروع کر دیا تھا۔ بیلجیئم میں بچوں کو سات سال کی عمر میں جنسی تعلقات کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔

لیکن انڈیا ایسی جگہ نہیں ہے جہاں سکول کے نصاب میں سیکس کوئی لازمی حصہ ہو۔

بلکہ 2018 تک تو انڈیا کی وزارت صحت نے سکولوں کے لیے جنسی تعلیم کے رہنما اصول بھی جاری نہیں کیے تھے۔ 29 میں سے ایک درجن سے زیادہ ریاستوں نے ان پر عمل درآمد نہ کرنے کا انتخاب کیا۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق دیہی علاقوں میں میں نصف سے زیادہ لڑکیاں اس سے واقف نہیں کہ حیض کیا ہے یا اس کی وجہ کیا ہے۔

اپنے والد کے اس پرچے نے مجھے کچھ زیادہ نہیں سمجھایا تھا۔ میں نے اسے اپنے دماغ میں دفن کر دیا تھا اور انڈیا میں بڑی ہونے والی بہت سی لڑکیوں کی طرح میں بھی قدامت پسند رہی۔ 25 سال کی عمر میں میں نے اپنا کنوارپن کھویا اور اس کے دو سال بعد ہی میری اپنی ارینجڈ شادی کے وقت میں بھی ناتجربہ کار تھی۔

Pallavi Barnwal delivering her Ted talk

پلّوی برنوال ٹیڈ ٹاک دیتے ہوئے

میری شادی کی رات کو صرف ایک تماشہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنی سیج کو دیکھا تو مجھے یہ مضحکہ خیز لگا۔ مجھے کمرے کے باہر گھر والوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ شہر کے باہر سے آئے درجن بھر مہمان ہمارے دروازے کے باہر ایسے جمع تھے جیسے سونے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں تھی۔

میری والدہ نے مجھے کہا تھا کہ میں اپنے شوہر کو کہوں کہ میں کنواری ہوں، لہٰذا مجھے شرم اور الجھن کا بہانہ کرنا پڑا۔ شادی سے پہلے ہم نے بمشکل ایک دوسرے سے بات کی تھی اور اب یہ منظر تھا کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ سونا تھا۔ میں کنواری نہیں تھی لیکن میں اس سب کے لیے تیار بھی نہیں تھی۔

آج تک مجھے ہر ماہ درجنوں لوگوں سے پیغامات ملتے ہیں جو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ شادی کی رات کیا کرنا ہے: صرف جسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ کس طرح زیادہ شرمندہ یا نا تجربہ کار دکھنا ہے۔

میں اور میرے شوہر پانچ سال ایک ساتھ تھے۔ یہ بات جلد ہی واضح ہوگئی تھی کہ میں نے غلط شخص سے شادی کی ہے، لہٰذا اس کے ساتھ جنسی تعلق رکھنا ایک ناخوشگوار عمل بن گیا۔ ہم اس کے وقت اور تاریخ کا تعین کرنے لگے۔ جب مجھے ایک اور شخص کے بارے میں جنسی خیالات آنے لگے تو مجھے احساس ہوا کہ میرا رشتہ اب بچ نہیں سکتا۔ ہماری شادی ختم ہوگئی۔

32 سال کی عمر میں ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود اچانک مجھ پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ میں معاشرے کی نظروں میں ایک طلاق یافتہ عورت تھی۔ انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں رہتے ہوئے میں متعدد ایسے جنسی رشتوں میں بندھی جن کا کوئی مستقبل نہیں تھا۔

Pallavi sitting with a clear background behind her

Pallavi Barnwal

میں نے تجربے کیے، میں بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ، شادی شدہ مردوں کے ساتھ سوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح کی گفتگو ہو رہی تھی اس میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ میری شادی شدہ دوستیں مجھ سے مشورے لینے لگیں۔ میری آزادی سے متاثر ہوکر میری والدہ جو ہمیشہ سے ہی تھوڑی باغی تھیں، دہلی میں میرے اور میرے بیٹے کے ساتھ رہنے آ گئیں۔

میرے آس پاس جنسی تعلقات اور خواتین کے حقوق کے بارے میں بہت ساری باتیں ہوئیں۔ دہلی میں ایک بس میں 2012 میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ ہونے والے ریپ کے واقعے نے شہر میں دھماکہ کر دیا تھا۔

لیکن میرے لیے یہ بات پریشانی کا باعث تھی کہ ان مباحثوں میں جنسی تعلقات کو متنازع یا پرتشدد بنا دیا تھا، نہ کہ ایک ایسی چیز جس سے لطف اٹھانا چاہیے۔

اکثر اوقات انڈیا میں خواتین سیکس کو ایک خوشگوار عمل چیز کے طور پر نہیں دیکھتیں جس پر ان کا کنٹرول ہونا چاہیے۔ اس موضوع کے ارد گرد اس قدر خاموشی اور شرمندگی ہے کہ بعض اوقات نوجوان لڑکیاں اس حوالے سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو نہیں پہچان سکتیں۔


خواتین کے خلاف جرائم

انڈیا میں 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ہر روز اوسطً 87 ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے (تازہ ترین سال کے لیے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں) اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے روزانہ 100 سے زیادہ کیس سامنے آتے ہیں۔

مجموعی طور پر 2019 میں خواتین کے خلاف جرائم کے چار لاکھ پانچ ہزار 861 واقعات ہوئے۔

2020 کے عالمی آبادی کے جائزے کے مطابق، فی کس جنسی جرائم کے معاملے میں انڈیا دنیا میں بدترین ملک ہے۔


اگرچہ میں سیلز میں کام کر رہی تھی، مگر میں نے کریئر تبدیل کرنے پر غور کرنا شروع کیا۔

مجھے احساس ہوا کہ جنسی تعلقات کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی ایک جگہ بنانے کا موقع ہے اور ایک ایسا پلیٹ فارم جہاں لوگ مجھ سے سوالات پوچھ سکتے ہیں۔

میں نے سیکس اور نیورو لنگوئسٹک پروگرامنگ کی کوچ بننے کی تربیت حاصل کی اور ایک انسٹاگرام پیج بنایا جہاں لوگ مجھ سے کچھ بھی پوچھ سکتے تھے۔ گفتگو کو آگے بڑھانے کے لیے میں نے اپنے جنسی تجربات کے بارے میں تفصیلات پوسٹ کیں۔

یہ کامیاب ہو گیا۔ لوگوں نے جنسی افسانوں، خود لذتی کے حوالے سے ممنوعہ موضوعات، ایسی شادیوں جن میں سکیس تھا ہی نہیں، اور جنسی بدسلوکی سمیت دیگر بہت سے مضامین کے بارے میں مشورے لینے شروع کر دیے۔ اور کئی سوالات والدین کی جانب سے بھی آئے۔

پھر دو سال پہلے مجھ سے ٹیڈ ٹاک دینے کو کہا گیا جس میں مجھے بتانا تھا کہ والدین کو اپنے بچوں سے سیکس اور اس حوالے رضامندی کے بارے میں کیوں بات کرنی چاہیے۔

اس موقعے پر میں نے سٹیج پر ایک ساڑھی پہنی جس سے میں یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ صرف مغربی ثقافت سے متاثر انڈین خواتین ہی نہیں جو سیکس کرتی ہیں۔ میں نے لوگوں کو بتایا کہ 2019 میں سائٹ پورن ہب کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں پورن سائٹوں پر پابندی کے باوجود انڈیا میں سب سے زیادہ پورن دیکھا گیا۔

اس ٹیڈ ٹاک کے بعد مجھے ایک دن میں 30 تیس سوالات اور کوچنگ کی درخواستیں آنا شروع ہوگئیں۔

یہ ایک عورت ہوسکتی ہے جو جنسی کھلونوں کے استعمال کے بارے میں پوچھ رہی ہو، یا کوئی مرد ہو سکتا ہے جو پوچھتا ہو کہ کووڈ سے صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ مشت زنی کرنا اس کے لیے محفوظ ہے یا نہیں۔ (میرا جواب: کووڈ میں مشت زنی جسمانی تھکن کا باعث بن سکتا ہے لیکن صحتیابی کے بعد معمول پر واپس جانا بالکل ٹھیک ہے۔)

Pallavi sitting on a chair in her coaching room

Pallavi Barnwal

ان سوالات سے مجھے احساس ہونے لگا کہ ہماری زندگی کے کچھ انتہائی تکلیف دہ حصے وہ ہیں جو جنسی تعلقات کے بارے میں گفتگو نہ کرنے کی وجہ سے ہیں۔ اکثر اوقات تو سیکس بنیادی مسئلہ ہوتا ہی نہیں۔

میرے والدین کے کیس میں معاملہ یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے سے صحیح سے بات چیت نہیں کر سکتے تھے۔ میری اپنی شادی میں سیکس کی کمی بھی اس وجہ سے تھی کہ ہم ایک دوسرے سے بات نہیں کر سکتے تھے۔

میرا بیٹا اب آٹھ سال کے قریب ہے اور میں جانتی ہوں کہ چند سالوں میں اس میں بھی تجسس ہوگا۔ جب میں نے اسے اپنا دودھ چھڑوایا تو میں نے اسے بتایا کہ اب اس کی عمر ہو چکی ہے کہ وہ کسی عورت کے جسم کے کچھ حصوں کو ہاتھ نہ لگائے۔

اس وقت وہ بہت چھوٹا تھا لیکن وہ سمجھ گیا تھا۔ جب اس کا جنسی طور پر سرگرم ہونے کا وقت آئے گا تو میں امید کرتی ہوں کہ میں نے اسے ایک ایسے ماحول میں پالا ہے جہاں وہ اچھی طرح سے باخبر اور محفوظ رہے گا۔

پلوی برنوال کے والدین کے لیے مشورے

پہلے آپ یہ سمجھیں کہ آپ کے بچوں کو جنسی تعلقات کے بارے میں جاننے کی ضرورت کیوں ہے۔

جنسی تعلقات کے بارے میں گفتگو کرنے سے آپ کے بچے زندگی میں بعد میں کئی پریشانیوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ کم خود اعتمادی، جسم کے بارے میں احساسِ کم تری، جنسی استحصال، غیر صحت مند تعلقات یہ صرف مٹھی بھر اہم مسائل ہیں جس کا سامنا بہت سارے نوجوان بالغوں کو کرنا پڑتا ہے۔

انھیں اپنے تجربات کے بارے میں بتائیں۔

بچے اپنے والدین کی کہانیوں سے ناقابل یقین حد تک جڑ جاتے ہیں۔ وہ اس بارے میں تجسس رکھتے ہیں کہ جب آپ بڑے ہو رہے تھے تو یہ آپ کے لیے یہ سب کیسا تھا؟

وہ آپ کو حقیقی اور مستند انسانوں کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں جنھوں نے خود بھی غلطیاں کیں۔ اگر آپ جنسی تعلقات کے بارے میں ان چیلنجوں، الجھنوں اور غلط فہمیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جو آپ نے ان کی عمر سہیں تو آپ اپنے بچے کے ساتھ اس سے بہتر تعلق قائم کریں گے۔

اپنی رائے دیں

اپنے بچوں سے اپنی جنسی اقدار کے بارے میں بات کریں۔ آپ ننگے پن، نوعمر جنسی سرگرمی، ہم جنس پرستی، اسقاط حمل، مانع حمل، بغیر شادی کے جنسی تعلقات، صحتمند تعلقات اور انتظار کرنے کی اہمیت کے بارے میں کیا سمجھتے ہیں؟ یاد رکھیں کہ آپ اپنے بچوں کو اقدار کا فریم ورک بنانے میں مدد کر رہے ہیں، ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں کروا رہے۔

Pallavi Barnwal in yellos dress

Pallavi Barnwal

اُنھیں حقائق بتائیں

  • جنسی تعلقات کے بارے میں توقعات اور اور اقدار
  • مرد اور عورت کے جنسی اعضا کے صحیح نام اور اہمیت
  • جنسی عمل کیا ہے اور حمل کیسے ہوتا ہے؟
  • بلوغت کے دوران ہونے والی جسمانی اور جذباتی تبدیلیاں
  • ماہواری کی نوعیت اور اس کی وجہ
  • ہم جنس تعلقات، صنف، خود لذتی، اسقاط حمل
  • مانع حمل کیا ہے؟
  • جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں (ایس ٹی ڈی) اور وہ کیسے پھیلتی ہیں
  • جنسی استحصال کیا ہے، جنسی استحصال کو کیسے روکا جائے اور اگر ایسا ہو جائے تو کیا کرنا ہے

یہ ساری معلومات عمر کے لحاظ سے مخصوص ہیں، لہٰذا آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کب اور کتنا بتانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp