انصاف کے نظام پر ایک اور زناٹے دار طمانچہ


چند روز سے اسلام آباد میں ایک جوڑے کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی ویڈیو اور خبروں نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا رکھا ہے۔ جس میں لڑکا لڑکی کو نہ صرف بدترین جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ایک دوسرے کے سامنے زبانی اور جسمانی تذلیل بھی کی گئی۔ جنسی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر جوڑے کو ہراساں کیے جانے کے ساتھ دونوں کی عزت نفس کو بری طرح مجروح کیا گیا۔ پوری انسانیت کی تذلیل کی گئی۔

کسی بھی مرد اور عورت کی اس سے بدترین تذلیل اور کیا ہوگی کہ ایک دوسرے کو پسند کیے جانے والے جوڑے کو اس ہی کی پسند کے سامنے اسلحے کے زور پر برہنہ کر کے اس کو زیادتی کا نشانہ بنایا جائے پھر اس کی عکس بندی بھی کی جائے۔ خبر پڑھنے کے بعد ماضی کے کتنے ہی واقعات تھے جو کہ کسی پکچر کے فلیش بیک سین کی طرح ذہن کے پردے پر چلنے شروع ہو گئے۔ جس میں سر فہرست شبنم ڈکیتی کیس تھا۔

یاد ہے نا! ضیا الحق کا دور تھا جب ایک رات پاکستان فلم انڈسٹری کی ہر دل عزیز اداکارہ شبنم کے گھر پر نشے میں دھت فاروق بندیال ( اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب اے کے بندیال کے بھتیجے ) اور اس کے دوستوں نے دھاوا بول کر شوہر رابن گھوش اور بیٹے کے سامنے شبنم کا گینگ ریپ کیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پہلے پولیس نے ملزمان کے خلاف صرف ڈکیتی کا پرچہ کاٹا لیکن دباؤ پر بعد میں حدود کی دفعات بھی شامل کرلی گئیں۔

مجرم گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا اور بعد میں حدود آرڈیننس کے تحت سزائے موت بھی سنائی گئی۔ مگر آخر میں رئیس زادوں کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اشرافیہ کے دباؤ پر رات کی تاریکی میں حکومت کے چند بڑوں نے دباؤ ڈال کر شبنم اور رابن گھوش سے معافی نامے پر دستخط کروا لیے اور سزائے موت کو معمولی سزا میں بدل دیا گیا۔

بظاہر دہائیوں قبل پیش آنے والا یہ واقعہ سننے والوں کے لیے کہانی ہے مگر شبنم اور ان کے خاندان کو کس ذہنی دباؤ اور نفسیاتی اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا یہ صرف وہ ہی جان سکتا ہے جو اس درد سے گزرا ہو۔ یہ ایک ایسا دکھ ہے جو کسی دوسرے کے بارے میں پڑھنے لکھنے میں بہت سادہ لیکن جھیلنے والے کے لیے ناقابل ذکر اور ناقابل بیان ہوتا ہے۔ اس کے بعد شبنم نے فلم انڈسٹری کو خیرباد کیا اور پاکستان چھوڑ کر چلی گئیں۔ یقیناً اس حادثے کی پرچھائیاں آج بھی اس خاندان کا تعاقب کرتی ہوں گی۔

یہ واقعہ بھی دوسرے کیس کی طرح ماضی کی دھول میں منوں مٹی تلے دب چکا تھا لیکن یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کے کندھوں پر حکمراں جماعت نہ صرف اقتدار میں آنے میں کامیاب ہوئی بلکہ اب تک کی تمام حکومتی سرگرمیاں اور پالیسیاں بھی اس ہی کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں۔ 2018 میں اس وقت شبنم ڈکیتی کیس کی یاد تازہ ہوئی جب اس کیس کے مرکزی مجرم فاروق بندیال نے پورے دھڑلے سے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور موجودہ وزیراعظم نے فاروق بندیال کو بھرپور خوش آمدید کہا۔ تو ’بدمعاش امیدوار‘ ، شبنم اور فاروق بندیال کے ہیش ٹیگ نے سوشل میڈیا پر ایسے ہی دھوم مچا دی جیسے آج اسلام آباد کی وائرل ویڈیو نے!

یہ تو دہائیوں پرانا سانحہ تھا لیکن ماضی قریب میں چلے جائیں تو گوجرانوالہ موٹر وے ریپ کیس بھی یاد ہی ہوگا؟ جب ایک ماں کو اس کے دو کمسن بچوں کے سامنے رات کی تاریکی میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ کیا اس کیس کے مجرم کو سزا ہو گئی؟ کیا مجرم ابھی تک پولیس کی حراست میں ہیں یا پھر آزاد گھوم رہے ہیں؟ کیا ریاست مدینہ کی حکمرانوں کو معلوم ہے کہ کیس کی تفتیش کہاں تک پہنچی؟

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واردات کی رات شبنم کسی کرائے کے فلیٹ میں اپنے دوست کے ساتھ تھیں؟ کیا وہ کسی قسم کی غیر اخلاقی حرکت میں ملوث تھیں؟ کیا اپنے گھر والوں سے جھوٹ بول کر کسی دوسرے شہر میں اپنے دوست سے ملنے گئی تھیں؟ کیا گوجرانوالا ریپ کیس کی خاتون بھی کسی دوست کے ساتھ تھی؟ کیا یہ تمام جواز کسی بھی شادی شدہ یا غیر شادی جوڑے کی ذہنی، جسمانی، نفسیاتی تذلیل کی اجازت دیتے ہیں؟

اس ذہنی کیفیت کے بارے میں شاید ہم اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے جس یہ جوڑا گزر رہا ہے۔ شبنم کی طرح اسلام آباد کے اس جوڑے نے بھی اس جرم، بلیک میلنگ اور اپنی تذلیل سے سمجھوتہ کر لیا تھا لیکن سات ماہ پرانی واردات سوشل میڈیا کی بدولت پھر زندہ ہو گئی۔ بہت ممکن ہے اس کیس کا ڈراپ سین بھی کسی سمجھوتے، قتل یا پھر جوڑے کے ملک چھوڑنے کی صورت میں ہی سامنے آئے۔ یا پھر آج سے کچھ سال بعد عثمان مرزا بھی کسی حکمران جماعت کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی منتخب ہو جائے۔

پاکستان میں پیش آنے والا یہ کوئی پہلا دوسرا تیسرا واقعہ نہیں بلکہ ہر بار جرم کی داستان نئی اور دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ ہر بار لگتا ہے کہ شاید یہ آخری واقعہ ہو اس کے بعد قانون حرکت میں آ جائے، مجرم کو سزا ہو، حکمران اپنے کیے گئے وعدے پورے کریں۔ لیکن ہر بار واردات کا طریقہ، جگہ، نوعیت اور کردار بدل جاتے ہیں لیکن انجام ایک ہی ہوتا ہے۔ کبھی شک کا فائدہ، کبھی ناکافی شواہد اور کبھی اثر رسوخ کی بنا پر مجرم بری اور متاثرہ شخص انصاف کے لیے خالی کشکول لیے عدالتوں کے چکر ہی لگاتا رہتا ہے۔ بحیثیت قوم اور معاشرہ ہماری بے حسی اور اخلاقی بدحالی کا یہ عالم ہے کہ ہر واقعے پر دوچار دن شور مچانے اور افسوس کے بعد پھر کسی نئے واقعے کے لیے تازہ دم ہو جاتے ہیں۔

یہ کیس ایک بار پھر تمام ریاستی اداروں اور حکام کے لیے چیلنج ہے۔ بالخصوص اسلام آباد پولیس، وزیر داخلہ اور وزیراعظم عمران خان صاحب کے لیے۔ ذہنوں پر لرزہ طاری کردینے والا یہ واقعہ ایک جھلک ہے جو نہ صرف ہماری اخلاقی بدحالی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس ملک میں رائج قوانین اور انصاف کے نظام پر ایک اور زناٹے دار طمانچہ بھی ہے جس کی گونج نہ جانے کتنے روز سنائی دینے کے بعد عدالتوں کی راہداریوں میں ایک بار پھر گم ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments