گولڈن گرلز: اے پردہ دارو، خود کو یوں بے پردہ تو نہ کرو۔


چار ماہ قبل جب رابعہ الربا نے مجھے اپنے ساتھ گولڈن گرلز سیریز لکھنے کی دعوت دی تو مجھے اندازہ تھا کہ یہ سیریز جہاں بہت سے لوگوں کو پسند آئے گی وہیں بہت سے لوگوں کے لیے حلق کا وہ نوالہ بن جائے گی جو نہ اگلا جاتا ہے اور نہ نگلا جاتا ہے۔

لیکن مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ اس سیریز کی وجہ سے ایسے ایسے لوگ خود نکل کر سامنے آئیں گے جو اس سے پہلے روشن خیالی اور ترقی پسندانہ سوچ کے پیچھے چھپے بیٹھے تھے۔

باتیں کرنا بہت آسان ہے لیکن ان باتوں پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔

ہر ایک کو پتا ہے کہ تعلیم سب کا حق ہے۔ روزگار کے برابر مواقعوں کا حصول سب کا حق ہیں۔ تشدد چاہے کسی پر بھی ہو اور کسی بھی قسم کا ہو، غلط ہے۔ پسند کی شادی میں کوئی برائی نہیں ہے۔ جس رشتے میں فریقین خوش نہ ہو وہ باہمی رضامندی سے ختم ہو جائے اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ عورت مارچ عورتوں کی آواز ہے۔ ان کا ساتھ نہیں دے سکتے تو کم از کم انہیں سن ہی لیں۔

یہ سب کہہ دیا، لکھ لیا لیکن کیا اس سب کو ہم مانتے بھی ہیں؟ اپنے لیے مانتے ہیں یا اپنے گھر والوں کے لیے بھی؟ گھر والوں کے لیے مانتے ہیں تو کیا محلے والوں کے لیے بھی مانتے ہیں؟ اپنے ہی شہر میں رہنے والے دوسرے لوگوں کے لیے بھی مانتے ہیں؟ اپنے ملک میں بسنے والے دوسرے لوگوں کے لیے بھی مانتے ہیں؟

یاد رہے، ان سب سوالوں کے جواب بول کر نہیں بلکہ عمل کے ذریعے دینے ہیں۔

کچھ ہفتے پہلے ایک صحافی کا انٹرویو دیکھا۔ اپنے کرئیر کی کہانی سناتے ہوئے اپنے لیے فخریہ سڑک چھاپ کا لفظ استعمال کر رہے تھے۔ صاحب یونیورسٹی کے زمانے میں بسوں کا استعمال کیا کرتے تھے۔ بسیں چونکہ سڑکوں پر چلتی ہیں تو اس مناسبت سے وہ خود کو سڑک چھاپ کہتے ہیں۔ ہم بھی بسوں پر سفر کرتے رہے لیکن کیا ہم اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے سڑک چھاپ کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں؟

رابعہ، میں ان ہی پردہ نشینوں پر واپس آتی ہوں جو گولڈن گرلز کی تحاریر پڑھنے کے بعد خود ہی بے پردہ ہوئے بیٹھے ہیں۔ یہ عورت بارے لکھیں گے تو بس یہی کہ تمہیں کوئی راہ چلتا مرد مڑ کر نہ دیکھے، تمہیں کوئی آواز کسنے کے قابل نہ سمجھے، تمہیں کوئی مرد سوچنے کی بھی زحمت نہ کرے یعنی مردوں کا ایسا کرنا ان کے نزدیک عورت کے اوپر ایک مہر ہے، قبول ہونے کی مہر۔

رابعہ یاد پڑتا ہے کہ گزشتہ برس خلیل الرحمٰن قمر صاحب اور ماروی سرمد ایک ٹی وی پروگرام میں مدعو تھے۔ موضوع گفتگو تھا عورت مارچ۔ خلیل الرحمٰن قمر صاحب خود کو عورتوں کے حقوق کا علمبردار سمجھتے ہوئے دنیا جہاں کی ہانک رہے تھے۔ ماروی سرمد نے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ وہ غصے سے پھٹتے ہوئے بولے تیرے جسم میں ہے کیا۔

مرد کی سوچ چیک کریں۔ وہ اپنی ان حرکات پر بھی فخر کرتا ہے جنہیں دنیا کے ہر قانون میں جرم تصور کیا جاتا ہے۔

وہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے کسی عورت کو دیکھ لیا، چھیڑ لیا، اس پر تیزاب پھینک دیا، اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنا لیا یا اس کا قتل تک کر دیا تو یہ ایک طرح سے عورت کا مرد کی زندگی اور سوچ میں قبولیت پانے کی علامت ہے۔

جیسے کہہ رہے ہوں، اری او عورت!
تجھے ایک مرد نے گھورا ہے، اس کا مطلب ہے تو خوبصورت ہے۔

تجھے ایک مرد نے چھیڑا ہے گرچہ یہ قانون میں جرم ہے، لیکن اس کا یہ لمس تیرے جسم میں ”کچھ“ ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔

تجھے ایک مرد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ہے یعنی اس نے تجھے بتایا کہ تجھ میں کچھ خاص ہے تب ہی تو وہ تیرے پاس رکا اور تیری رہتی عمر تک کے لیے تیری روح پر اپنا نشان چھوڑ کر گیا۔

پس، خوشیاں منا۔ غم نہ کر۔ فخر کر کہ تجھے کسی مرد نے اس قابل سمجھا ورنہ تو کیا ہوتی؟ ایک ٹھکرائی ہوئی سوچ؟ ہا ہا ہا

رابعہ، وزیر اعظم کی کرسی سے لے کر ہماری گلیوں کے تھڑوں تک یہی سوچ پائی جاتی ہے۔ کبھی کبھار تو دل کرتا ہے کہ میں بھی کہہ دوں ”مین آر ٹریش“ لیکن پھر رک جاتی ہوں۔ یہ شدت پسندی ہے۔ مجھے شدت پسند نہیں بننا۔

رابعہ، میں نے جب آپ کی تحریر پڑھی تو میں نے کچھ نکات نوٹ کیے تھے۔ سوچا تھا اپنے بلاگ میں ان نکات پر بات کروں گی لیکن اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میں آپ کے ان نکات سے اتفاق کرتی ہوں۔

میں فیمینسٹ ہوں۔ مرد اور عورت کی برابری پر یقین رکھتی ہوں۔ آپ خود کو فیمینسٹ نہیں سمجھتیں۔ آپ عورتوں کے حقوق کی حامی ہیں لیکن بہر حال مرد اور عورت کی برابری پر یقین نہیں رکھتیں۔ ہم نے اس سیریز میں سوچ اور نظریے کے اس فرق کے ساتھ مرد اور عورت کے مابین رشتوں کو ناپنے کا ارادہ کیا تھا۔

میں نے اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ کی تحریر دوبارہ پڑھی۔ یقین مانیں اس کا جو لطف اس وقت آیا اس سے پہلے نہیں آیا تھا۔

عوام کی طاقت دیکھیں۔ ہمیں کچھ بھی نہیں کرنا پڑا۔ انہوں نے خود ہی وہ تحریر ”ہم سب“ سے ہٹوا دی۔ غلط تو پھر غلط ہی ہوتا ہے۔ چاہے آپ حلق کے بل غلط کو صحیح گردانتے رہیں، جو چیز غلط ہے وہ غلط ہی رہے گی۔

باقی آئیں۔ مکالمہ کریں۔ بس تہذیب نامی ایک شے ہوتی ہے۔ اس کا دامن تھام لیں۔ اس سے دوسروں کو تو کچھ حاصل نہیں ہوتا، انسان کی اپنی ہی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔

گولڈن گرلز ہم سب کی بھی شکر گزار ہے کہ اس نے اپنے قارئین کی شکایت پر فوری طور پر ایکشن لیا اور وہ تحریر اپنی ویب سائٹ سے ہٹائی۔ جیسے مدیر نے لکھا، اختلاف ایک مہذب انداز میں دلیل کے ساتھ کیا جانا چاہیے نا کہ غیر شائستہ انداز میں۔ ہم اپنے تمام قارئین کو دعوت دیتی ہیں کہ آئیں ہم سے اختلاف کریں لیکن مہذب انداز میں اور دلیل کے ساتھ۔ گولڈن گرلز سیریز کا مقصد یہی تھی کہ مردوں اور عورتوں کے ایسے رویوں کی نشاندہی کی جائے جن کی وجہ سے ان کے آپس کے تعلقات نا خوشگوار ہوتے ہیں۔ کچھ کی نشاندہی ہم نے کردی، کچھ کی لوگ خود کر رہے ہیں۔

اب ان مسائل کا حل ہونا باقی ہے۔ تو حل کیا ہے؟

جناب، حل یہ ہے کہ عورت کو انسان سمجھیں۔ اپنے جیسا جیتا جاگتا انسان۔ جس پر آپ کا کوئی زور نہیں۔ اس کے ساتھ برابر کی بنیاد پر چلیں۔ اس کی زندگی کی ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں۔ یہ سمجھ لیں کہ اس کی زندگی اس کی ہے۔ آپ کی نہیں۔ اسے اپنی زندگی خود گزارنے دیں۔ آپ بس اس کے ساتھ چلیں جیسے وہ صدیوں سے آپ کے ساتھ چل رہی ہے۔ کہیں آپ کی زندگی کی ڈور اس کے ہاتھ میں ہوتی تو آپ بلبلائے پھر رہے ہوتے۔ عورت پر صدیوں سے ظلم کر رہے ہیں، اب جب وہ بول رہی ہے تو اس کا بولنا برا لگ رہا ہے؟

یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ کیوں رابعہ؟

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےگولڈن گرلز: ہا ہائے، کتنی بولڈ ہےگھریلو تشدد، معاشرتی پاور شو سے تشدد تک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments