فوزیہ سعید: ایک معنی خیز نام



شاید اس سے پہلے ضرورت نہ تھی یا یوں کہیے کہ کبھی یہ جاننے کا سوچا نہیں اور سوچتے بھی کیوں، جب طلب نہ ہو تو تجسس کاہے کی اور تجسس بنا، جستجو کیسی! سو اب، جب غور کیا تو جڑے ہوئے پانچ حرفوں سے تشکیل پانے والے لفظ نے وہ معنی آشکار کیے، جو اس لفظ کے بارہا دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے دوران میں، (شاید عدم توجہی کے سبب ) ، کبھی اپنی طرف توجہ نہ حاصل کر سکے۔

یہ سوال کہ یہ معنویت جاننے کی خواہش کیوں ہوئی، اس پہلو پر آگے چل کر بات کرتے ہیں، سردست تذکرہ ایک ایسی انوکھی ( اور یقیناً غیر معمولی ) شخصیت کا جس کا بس چلے تو کیلنڈر، چالیس دنوں کا اور دن کا دورانیہ، اڑتالیس گھنٹے تک پھیلا دے کہ ( گھڑیوں کی اس سست رفتاری) اور دنوں کی اس قدر قلت کے ساتھ، اتنے بہت سے کام، کیسے حقیقت کے قالب میں ڈھل سکیں گے، جو اس نے اپنے دل اور ذہن میں ہمیشہ سے بسائے رکھے ہیں۔

یہ وہ شخصیت ہے جس نے راستے کی رکاوٹوں کو آگے بڑھنے کا استعارہ سمجھا۔
جس نے نا ہموار راستوں کو، کہکشاں تک پہنچنے کا محرک جانا۔
جس نے اپنے سفر میں، صرف اور صرف ہدف کو پیش نظر رکھا اور گرد راہ پر نظر تک نہ ڈالی۔

جس نے اپنے ہم راہیوں کے لئے، سبک رفتاری، کام سے عشق اور بیک وقت کئی محاذ پر معرکہ آرائی، کے سوا کوئی شرط نہ رکھی۔

جس نے خود بھی خواب دیکھے اور جہاں جہاں ممکن ہوا، خواب دیکھنے والوں کے لئے تعبیر کے راستے وا کیے۔

جس نے جب قلم اٹھایا اور جو قدم اٹھایا، روایت شکنی، جرات مندی، انسان دوستی، برابری اور وسیع النظری کو اپنا ہم رکاب رکھا۔

یہ وہ شخصیت ہے، جس نے خطرے کو، کبھی خاطر میں نہیں لایا اور اپنی اڑان، پر کسی قدغن، کسی خوف، کسی ہچکچاہٹ کو حاوی نہ ہونے دیا۔

جو، اوروں کو شاید نا ممکن دکھائی دیتا ہو، اسے بھی ممکن کر دکھایا۔ سفر کی دشواری، پیچیدگی، نا آسودگی، بے آرامی، اس کے نصب العین کے سامنے بے حیثیت قرار پائے۔

کام کو ذمہ داری، ذمہ داری کو فرض اور فرض کو عبادت سمجھنے والی اس شخصیت میں یہ جنون، یہ جزیہ اور یہ حوصلہ، کہاں سے آ موجود ہوا؟

اسی سوال سے، یہ سوال ابھرا، کیا کبھی کبھی، نام کا بھی شخصیت پر اثر ہوتا ہے؟

یوں، یہ تجسس، اس پانچ حرفی نام کے پیچھے چھپے معنی جاننے کا سبب ہوا اور خوشگوار حیرت ہوئی کہ ایک نام کے اتنے مثبت معنی بھی ہوسکتے ہیں، مگر یہاں جس شخصیت کا ذکر ہے اس کی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے یہ خوش گمانی شاید غلط نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں، یہ نام، بہ ذات خود اپنی زمین اور زمین سے جڑی چیزوں سے محبت کا متبادل نہ بن چکا ہو۔

( اگر یہ مفروضہ مان لیا جائے کہ نام شخصیت پر انداز ہوسکتے ہیں تو اس امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ بعض شخصیات بھی، اپنے کام سے، اپنے نام کو متاثر کر کے نئے معنی دے سکتی ہیں )

فنون لطیفہ، ثقافت اور پرفارمنس آرٹس سے جڑے لوگ بجا طور پر جانتے ہیں ( اور مانتے ہیں ) کہ فوزیہ سعید نے اپنی پیش قدمی سے، امید، آرزو، ہمت اور آگے بڑھنے اور اس سرزمیں اور اس پر آباد، سانس لینے والوں کے لئے، کچھ کر جانے اور انھیں قریب سے قریب تر لانے کا جو جذبہ ابھارا ہے وہ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ ایک نہ ایک دن ضرور ثمر آور اور نتیجہ خیز ہوگا۔

ہمیں یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ اس سرزمین کو ثقافتی اور سماجی رنگارنگی سے ہم آہنگ روپ دینے کی لئے، نئی نسل میں، فوزیہ کی صورت، ایک نہیں، کئی اور فوزیہ اپنی جگہ بنائیں گی۔

فوزیہ سعید کے اٹھائے علم ( اور لفظ فوزیہ کے مفہوم ) کی طرح :
اتنی ہی کامیاب،
اتنی ہی فتح یاب اور
اتنی ہی سرخ رو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments