ملالہ، میں اور وہ


پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر بچوں کے سلیبس میں موجود ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں ”ملالہ“ کو قومی ہیرو کے طور پر محمد علی جناح و علامہ محمد اقبال صاحب کے ساتھ دکھایا گیا۔

تصویر دیکھ کر طبیعت عجیب پراگندہ سی ہو گئی، سر شرم سے جھک گیا اور پیشانی تر ہو گئی کہ ابھی صرف چوہتر سال ہی گزرے ہیں اور یہ قوم اپنے محسنوں، جن میں سے ایک کو ہم بابائے قوم اور دوسرے کو مصور پاکستان کی حیثیت سے جانتے و مانتے ہیں، کے ساتھ کس قسم کا سلوک کرنے پر تلی ہوئی ہے؟

کہ جن کا احسان یہ قوم تا قیامت نہیں اتار سکتی، کس بے شرمی و ڈھٹائی کے ساتھ مغرب سے امپورٹ و مسلط کردہ نام نہاد ”ہینڈ میڈ ہیرو“ کو ان کے مقام پر بٹھا کر نئی نسل سے روشناس کرانا چاہتی ہے۔

دل چاہا کہ ابھی اس ”ہینڈ میڈ ہیرو“ سے متعلق کچھ ایسا لکھوں کہ نئی نسل کو اس سے متعلق آراء قائم کرنے میں آسانی ہو اور وہ کسی پراپیگنڈا سے متاثر ہو کر اسے حقیقت میں ہیرو نہ سمجھ بیٹھیں۔

فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کی تو دل کو کچھ قرار آیا لیکن تھوڑی ہی دیر میں میرے ایک بہت ہی پیارے و قابل احترام بڑے بھائی، جو اس پڑھے لکھے لبرل طبقے و مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو دو قومی نظریے، قیام پاکستان، قائد اعظم، علامہ اقبال، فوج حتیٰ کہ مردوں کے کردار سے بھی شاکی رہتے ہیں کا کمنٹس باکس میں جواب موصول ہوا۔

جواب پڑھ کر مجھ سے بھی رہا نہیں گیا اور مجبوراً مجھے بھی جواب الجواب پیش کرنا پڑا۔

یہ سب کچھ من و عن ذیل میں تحریر کر رہا ہوں کہ شاید آپ کی دلچسپی کا باعث ہو اور کوئی اس کو پڑھ کر اس بارے درست و بہتر فیصلہ کر سکے!

میں : ”ملالہ یوسفزئی“ صرف ایک Victim ہے، نہ کہ کوئی Achiever۔
اور اس کے ساتھ ہوا وقوعہ و بعد ملی شہرت، پذیرائی اور پروٹوکول بھی انتہائی مشکوک ہے۔
اس کے کریڈٹ پر ایسا کچھ بھی نہیں کہ جسے Idealize یا Admire کیا جائے۔
اسے زبردستی ایک ”ہیرو“ کے طور پاکستانی قوم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔
بادی النظر میں وہ صرف ایک Planted Character کے سوا کچھ نہیں۔

وہ: Strongly disagree، ملالہ نے اس وقت طالبان کے خلاف ڈائری لکھی جب بڑوں کی بولتی بند تھی۔ احسان اللہ احسان نے کھل کر بیان کیا کہ ہم نے ملالہ پر اور معصوم آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا۔ وہ یعنی طالبان پلانٹڈ نہیں تھے کیا۔ ملالہ کا جرم کیا ہے جو آپ سب کی نظروں میں کھٹکتی ہے۔ وہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ ہے جس نے حقیقت میں دشمن کے بچوں کو بھی پڑھانے کی طرف لگایا۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان کا مثبت چہرہ نظر نہ آئے اور طالبان کی صورت میں منفی اور دہشت گرد ریاست کے طور پر نظر آئے۔ خدا کے لئے علم کی روشنی اور جہالت کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں فرق کریں۔

میں : ملالہ کی ڈائری اور احسان اللہ احسان کا بیان بھی اپنی جگہ کم مشکوک تو نہیں۔
اور صرف ملالہ ہی نہیں وہ طالبان بھی یقیناً پلانٹیڈ ہی تھے۔

یہ وہ ہی پلانٹیڈ طالبان تو تھے جن کے خلاف پاک فوج تقریباً دو دہائیوں سے آپریشن ”رد الفساد اور ضرب عضب“ میں مصروف عمل ہے۔

تو پھر ان طالبان کا پاکستان سے کیا تعلق کہ ان کی صورت میں خدانخواستہ پاکستان کا چہرہ منفی اور دہشت گرد ریاست کے طور پر نظر آئے گا؟

اور by the way وہ ملالہ نہیں بلکہ ”پاک فوج“ ہے جس نے آرمی پبلک سکول حملے میں سب سے زیادہ ”لعل“ گنوائے لیکن جواباً وہاں دشمن کے بچوں کو بھی پڑھانے کا بیڑا حقیقت میں آج تک اٹھایا ہوا ہے، تاکہ علم کی روشنی پھیلے اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ختم ہوں۔

اور جہاں تک دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ ہونے کی بات ہے تو یہ بات ہی تو اس سارے معاملے کو مشکوک بناتی ہے کہ آخر ملالہ نے کیا کیا ہے؟

ذرا آج تک کے نوبل انعام یافتہ لوگوں کی لسٹ اٹھائیں اور ملالہ کی طرح نوازا گیا ”کوئی ایک“ دکھا دیں!

نہ کوئی قابلیت، نہ کوئی جدوجہد، نہ کوئی کارنامہ، نہ کوئی قربانی اور نہ کوئی مقصد لیکن پھر بھی زبردستی نوبل انعام یافتہ سلیبریٹی اور ہیرو!

واہ بھئی واہ

وہ: طالبان کس کی پیداوار ہیں۔ کل تک حمید گل اور دیگر سب انہیں اپنا ساتھی کہہ رہے تھے۔ یہاں تک کہ طالبان خان بھی ان کی حمایت میں بول رہا تھا۔ احسان اللہ احسان کس کی گرفت سے بھاگا ہے۔ آج تک اے پی ایس پشاور کے بچوں کے والدین سراپا احتجاج ہیں کہ ان دہشت گردوں کو سزا دی جائے جو اس میں ملوث تھے۔ طالبان اگر فوج نے پلانٹ نہیں کی تو پھر کس نے کی تھی۔ اس وقت تو۔

میں : ویسے by the way بات ملالہ کی ہو رہی تھی لیکن خیر!

جہاں تک طالبان کی بات ہے تو مبینہ طور پر صرف وہ ہی نہیں بلکہ القاعدہ اور بعد از داعش بھی صرف اور صرف ”امریکہ“ کی پیداوار ہیں۔

اور کل تک حمید گل صاحب و دیگر جو انہیں اپنا ساتھی کہہ رہے تھے اور بقول آپ کے ”طالبان خان“ بھی، ان کی حمایت میں صرف اس لیے بول رہے تھے کہ وہ آج بھی انہیں اپنے ”ورغلائے ہوئے و ناراض“ لوگ تصور کرتے تھے اور ہیں۔

اور آج تک نہ صرف ان کی واپسی بلکہ بحالی کے لئے بھی کوشاں ہیں۔

رہ گئی بات احسان اللہ احسان کی تو آخر وہ دہشت گرد ہے اور وہ بھی عام نہیں بلکہ ”وہ“ جن کی پشت پناہی درپردہ امریکہ کرتا ہے، اس کا ایجنسیز کی گرفت سے بھاگ جانا اتنا حیران کن تو نہیں۔

باقی اے پی ایس پشاور ہو یا دہشت گردی کا کوئی بھی اور واقعہ، ہماری ایجنسیز ہر لمحہ دہشت گردوں کی تاک میں ہیں۔

انشاءاللہ
چھوڑیں گی نہیں
ماریں گی
اور وہ بھی
چن چن کے۔

درج بالا بحث دراصل میرے اور میرے عزیز کے نہیں بلکہ دو مختلف مکتبہ فکر جس میں مجھ سے عام پاکستانی اور ”ان“ سے پڑھے لکھے و لبرل لوگ شامل ہیں کے درمیان تھی۔

اور پتہ نہیں مجھے کیوں لگتا ہے کہ ہماری نئی نسل کے لیے دونوں ہی کی سوچ جاننا ضروری ہے۔
واللہ عالم بالصواب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments