آخری بوند


میں بالکونی میں بیٹھا بارش سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک ایک بوند میرے ساتھ پڑی خالی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے آنے کا انداز ڈرا دینے والا تھا۔ میں ایک بار تو چونکا مگر فوری سنبھل گیا۔ اس سے دریافت کیا کہ اس انداز میں آنے کا کیا مقصد ہے ”اس سے پہلے تو جب بھی آئی ہو بڑے رومانوی انداز میں مگر اس دفعہ چونکا دینے والا انداز کیوں اختیار کیا؟“ جواب ملا ”کہ اس سے پہلے میں سمجھ رہی تھی کہ شاید تم میرے رومانوی انداز کی وجہ سے میرا خیال کرو گے مگر افسوس!

“ اور خاموش ہو گئی۔ میں نے اصرار کیا کہ اپنی بات پوری کرو تو اس نے غصے کے عالم میں کہا کہ ”تم نے میرا رومانوی انداز فقط قصے کہانیوں کے لیے یا پھر شاعری کے لیے استعمال کیا افسوس کہ تم میری پرواہ کرتے“ میں یہ سن کر پریشان تھا اور یقین دلانے والا تھا کہ میں ان افسانوی رنگوں سے دور ہوں مگر اس فوراً مجھے ٹوکا اور کہا ”کچھ بھی مت بولنا میں جانتی ہوں مجھ پر لکھے گئے افسانوں اور اشعار پر اچھل اچھل کر داد دیتے ہو“ ۔

میں بوند کی حساسیت دیکھ کر حیران بھی تھا اور خاموش بھی۔ وہ مجھے کوس رہی تھی اور میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ پھر وہ بھی خاموش ہو گئی۔ کچھ دیر مکمل سکتہ رہا اور پھر میں سوچنے لگا کہ یہ خاموشی توڑ دوں مگر وہ میری نیت کو بھانپ رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے خاموشی کے حصار کو توڑا اور کہا ”دیکھو کفایت تم کو احساس نہیں ہے کہ میں کس کرب کے عالم سے گزر رہی ہوں“ ۔ تم محسوس نہیں کرتے میرے احساسات کو۔

میں کچھ دخل اندازی کرنے والا تھا کہ مجھے پھر سے خاموش کروا کر کہنے لگی کہ ”پہلے میرے سوالوں کا جواب دو“ ۔ پھر اس نے سوالوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ”کفایت کبھی میری قدر قیمت کو اجاگر کرنے کے لیے تم نے کچھ کیا؟ کیا تم نے کبھی خود سے یہ سوال کیا کہ تمھارے آبا و اجداد نے کبھی سوچا ہو گا کہ ایک دن پانی بکے گا؟ کیا کبھی کسی نے تصور کیا تھا کہ کوئی زمینی خطہ ایسا بھی ہو گا جہاں زیرزمین پانی نہ میسر ہو؟ کیا کبھی یہ تصور کیا گیا کہ لوگ پیاس سے مر جائیں گے؟

میں ابھی بھی خاموش تھا اور اس نے بات آگے بڑھائی اور کہا“ اگر یہ سب سوچا ہوتا اور ان حقائق کو درک کیا ہوتا، مجھے فقط رومانوی قصے کہانیوں تک اور میرے حسن پر شعر کہنے تک محدود نہ کیا ہوتا تو آج یہ صورتحال دیکھنے کو نہ ملتی تم یوں بوند بوند کو نہ ترس رہے ہوتے ”۔ اب اس نے مجھے موقع دیا کہ میں کچھ بولوں اور میں بولا“ تو یہ بتاو ابھی کیا راہ حل ہے؟ ”تو جواب ملا“ دیکھو کفایت جو ماضی تھا اس سے سیکھو اور حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مجھ سے رومانوی نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر محبت کرو، اس کے نتیجے میں میں تم سے محبت کروں گی ”۔

ہماری یہ ساری باتیں ہوا بھی بیٹھی سن رہی تھی جس کا مجھے اندازہ تک نہ ہوا تھا۔ جیسے ہی بوند نے خاموشی اختیار کی تو ہوا نے دکھی انداز میں اپنی باتیں شروع کر دیں گویا ہوئی ”دیکھو بوند یہ ظلم صرف تم پر نہیں ہوا بلکہ میں بھی اس کا شکار ہوں، جس کے نتیجے میں اب یہ میرا خالص پن ڈھونڈتے ہیں اور حتی کہ اب انھوں نے ایسے آلات نصب کرنا شروع کر دیے ہیں کہ جس کی مدد سے یہ میرا خالص پن ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، اے کاش ان کو یہ سب کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی! مگر کفایت سنو تمھارے پاس ابھی وقت ہے کہ باغبانی کرو اپنے گلی محلوں کو اور گھروں کو پودوں سے بھرنا شروع کر دو میری ضمانت ہے کہ میں تم کو خالص میسر آؤں گی، ایک وعدہ تمھارا اور ایک میرا“ میں روایتی رائج رواج کے تحت وعدہ کرنے کے الفاظ بول ہی رہا تھا کہ بوند اور ہوا رخصت ہو گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments