کئی چاند تھے سر آسماں


ایک دکھ ہے جو دامن سے لپٹ رہا ہے، ایک درد ہے جو جگر کو لہو کر رہا ہے، ایک ٹیس ہے جو دل کو چھلنی کر رہی ہے، ایک برسات ہے جو آنکھوں سے جاری ہے، ایک فغاں ہے جو لبوں پر رقصاں ہے اور خیالات ہیں کہ شکست خوردوں کی مانند منتشر ہو رہے ہیں، فقط اس لیے کہ اپنے محبوب سے ملاقات نہ ہو سکی، جن کو محبوب کا فراق لاحق ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ محبوب سے ملاقات نہ ہونا کتنی بڑی اذیت ہے، جو نہیں جانتے وہ ان کے مردہ دلوں کے لیے دعائے خیر، شمس الرحمان فاروقی سے فقط اتنا تعارف تھا کہ وہ نقاد ہیں، کبھی کبھار یوٹیوب پر کوئی ویڈیو بھی دیکھ لی جاتی تھی، مگر ابھی ان کو پڑھا نہیں تھا، یہ کم بخت رزق کی پریشانی کہیں اور بسیرا کرے تو ادب کی طرف توجہ مرکوز ہو، جہانزیب ساحر کا شعر تھوڑی سے تبدیلی کے ساتھ ملاحظہ ہو۔

ہم مضافات سے آئے ہوئے لوگوں کا میاں
مسئلہ رزق کا ہوتا ہے، ادب کا نہیں

مگر اس دن آفتاب یہ پیغام لے کر طلوع ہو رہا تھا کہ آج تم قلم یار کے اسیر ہو جاؤ گے، روایت توڑ دی گئی کہ لوگ تو زلف یار کے اسیر ہوا کرتے تھے، فاروقی صاحب کا مختصر ناولٹ ”قبض زماں“ شروع کیا اور پھر کرسی پر بیٹھے بیٹھے کب ختم ہوا، کچھ پتہ نہ چلا، ناولٹ کیا تھا، دہلی کی سیر تھی، اپنی دہلی کی، جو آج اپنی نہیں، اور ناولٹ کے جملوں کی ایسی بناوٹ کہ شبلی و آزاد دانتوں میں انگلیاں داب لیں، یوں محسوس ہو جیسے کسی نے پھولوں کی مالا پرو دی ہے، ہر جملے کو حافظے میں اتارنے کا جی چاہے۔

ناول نگار اور بھی تھے، ہیں اور تا وقت قیامت ہوں گے، مگر جو قلم فاروقی صاحب کو عطا ہوا وہ اب کسی اور کو نہ ہو گا، قبض زماں زیر نظر کرنے کے بعد چین کہاں پڑتا تھا، سینہ دشت بے کراں بن چکا تھا جس کو صرف فاروقی صاحب کے قلم سے نکلے ہوئے آب کوثر کی سی تاثیر رکھنے والے الفاظ ہی نخلستان بنا سکتے تھے، دوسری مختصر کتاب جو پڑھی ”ہمارے لیے منٹو صاحب“ ، ویسے منٹو بھی ہمارے ہاں انہی بدقسمت لوگوں میں شامل ہے جس کے ساتھ عوام اور تاریخ نے یاوری نہ کی، وہ تب بھی فحش نگار تھا اور وہ اب بھی پارسا لوگوں کی نگاہ سعود میں فحش گو ہے۔

مگر فاروقی صاحب نے قلم اٹھایا تو وکالت کا حق ادا کر دیا، ہر ہر جملے کو دلیل قطعی بنایا اور منٹو صاحب کو فحش گو کے الزام سے چھٹکارا دلایا، اگر اب بھی کوئی منٹو کو فحش گو سمجھتا ہے تو اسے ”ہمارے لیے منٹو صاحب“ پڑھنا چاہیے، اور اگر یہ مختصر کتابچہ پڑھ کر بھی کوئی منٹو کو فحش نگار سمجھے تو اسے خدا سے عقل و تفکر و تدبر کی صلاحیت حاصل کرنے کی دعا کرنا چاہیے، اس بعد وہ وقت شروع ہوا جب فاروقی صاحب کی محبت کے ہالے میں مقید ہو کر مطمئن زندگی کا آغاز کر بیٹھے۔

کراما زوف برادران کے بارے میں پڑھا تھا کہ اس ناول کے بعد ہمیں ادب کو دو ادوار میں تقسیم کرنا ہو گا، ایک کراما زوف برادران سے پہلے اور دوسرا اس کے بعد ، معلوم نہیں یہ بات کس حد تک درست ہے مگر جو بات اب ہونے لگی ہے لاریب آپ بھی ایمان لے آئیں گے، اردو ادب کے دو ادوار ہیں، کئی چاند تھے سر آسماں سے پہلے اور کئی چاند تھے سر آسماں کے بعد ، چار پانچ عشروں سے جو اردو ادب میں ناول لکھے جا رہے تھے فاروقی صاحب نے ان پر پانی پھیر دیا اور وہ کئی چاند تھے سر آسماں کے آگے ہیچ نظر آنے لگے۔

ہاں مگر آگ کا دریا ایسے ناولوں کی بات دوسری ہے، کیا کچھ ہے جس کا فاروقی صاحب نے اس ناول میں ذکر نہیں کیا، انگریزوں کا دہلی پر قبضہ، غالب کی زندگی، داغ کا بچپن، وزیر بیگم کی زندگی کی مشکلات، نواب شمس الدین احمد کا انجام، گویا اس زمانے کی دہلی کے کسی بھی گوشے کا فاروقی صاحب ذکر کرنا نہ بھولے، کبھی نواب شمس الدین کی موت غم زدہ کرتی ہے تو کبھی نواب مرزا بہ تخلص داغ کی قابلیت سے مسکراہٹ نمودار لبوں پر ہوتی ہے، کبھی بیاباں میں مرزا تراب علی خاں کا یوں داعی اجل پر لبیک کہنا افسردہ کرتا ہے تو غالب و مومن جب داغ کی صلاحیتوں کے قائل ہوتے ہیں تو عجب سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔

عام طور پر اردو ناول مصنف شروع تو کر دیتے ہیں مگر اختتام بخیر نہیں ہوتا، کبھی کہانی میں جان میں نہیں ہوتی تو کبھی ناول کا درمیانی حصہ پھس پھسا ہوتا ہے، مگر مجال ہے جو فاروقی صاحب کے قلم نے کسی ایک جملے میں بھی لغزش کھائی ہو، ہر جگہ ایسی کاملیت کہ الہام کا گمان ہو، فاروقی صاحب کیا سچ میں چلے گئے ہیں، یقین ہے کہ آتا ہی نہیں، یہ یقین البتہ یقین کامل ہے کہ اجل نے ان کے جسم کو تو شکست دے دی مگر ان کے کام کو شکست سے دوچار نہ کر سکی اور فاروقی صاحب عالم بالا پہنچ کر بھی امر ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments