گوجرانوالہ جانے کو دل کرتا ہے


آج اظہر حفیظ صاحب کا آرٹیکل پڑھا کہ
’ لاہور جانے کو دل کرتا ہے‘
پڑھ کر آنکھیں کچھ دھندلا گئیں شاید ان میں کچھ پڑ گیا تھا
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

جی ہاں بس ایسی ہی کیفیت ہو گئی تھی ہماری۔ اظہر صاحب کا انداز تحریر اور جو علم و ہنر اور تجربہ ان کا ہے ہم اس کے دور دور ”پا سکوں“ بھی نہیں ہیں اور وہ زور بیاں ہم چاہیں بھی تو اختیار نہیں کر سکتے۔ اور بطور خاتون ہم شاید آزادانہ اکیلے نا گھوم پھر سکیں۔ ہمارے دل میں مگر جو تلاطم برپا ہے اس کا کیا کریں؟ جذبات و احساسات کی پر شور ندی جو ہمیں بہائے چلی جا رہی ہے اس پر کہاں جا کر بند بندھے گا آخر؟ سو اظہر صاحب سے معذرت کے ساتھ ہمارا بھی

”گوجرانوالہ جانے کو دل کرتا ہے“

گوجرانوالہ جا کر سیدھا پہلے گکھڑ جائیں جہاں فیملی قبرستان میں ابو خوابیدہ ہیں۔ ان کو سلام کریں اور دیر سے آ نے پر، اپنی کوتاہی پر آنسؤں کا نذرانہ پیش کر کے انھیں منا لیں اور وہ مان جائیں گے۔

پھر واپس گوجرانوالہ شہر آ جائیں اور سیٹلائٹ ٹاؤن کے ڈی لاک میں اس گہوارہ عافیت آ جائیں جہاں ہم نے آنکھ کھولی، پلے بڑھے، پڑھائی لکھائی کی اور شادی کر کے رخصت ہو گئے۔

مین گیٹ میں اندر کی سائیڈ پر یعنی باہر سے اندر آتے وقت بالکل سامنے ”سکھ چین“ کا درخت تھا اور ابو کا پسندیدہ۔ شدید گرمیوں میں جب لوڈشیڈنگ ہوتی تو اس کے نیچے کرسیاں بچھا کر گرم دوپہروں میں ہم اور بھابی وہاں جھولا کرتے اور اس کے ہلکے ہلکے ہوا سے تھرتھراتے پتے گویا ایک ماں کی طرح پنکھا جھلتے اور ٹپ ٹپ نیچے بھی گرتے رہتے۔ گیٹ کو مکمل کھولیں تو دائیں سائیڈ کے پیچھے دیوار کے ساتھ املتاس کا درخت نما پودا تھا۔ ہم نے جا کر اب دیکھنا ہے کہ اپریل میں اس کے عجیب خوبصورت پیلے رنگ کے گچھے لپک لپک کر زمیں کو چھوتے ہیں اور ہم اسی طرح مسحور ہو کر انھیں پہروں دیکھتے ہوئے نا تھکیں گے۔

شام کو اہتمام سے پہلے سارے میں ابو کا اپنے ہاتھ چھڑکاؤ دیکھیں گے اور پھر چائے پئیں گے اور رات کو ابو کے اصرار کر نے پر واک کر لیں گے۔ ہائے!

گھر کے باہر سڑک کے اس پار آم کے آسمانوں کو چھوتے بے حد پرانے درخت تھے ہمیں ان کو دیکھنا ہے مگر وہ کس نے کاٹ دیے؟ ہمارا گھر ریس کورس روڈ پر ہے جو گھڑ دوڑ روڈ بھی کہلاتی ہے۔ ہمیں وہاں ٹیکنیکل سنٹر کے گوروں کو دیکھنا ہے جو شام کو اپنی خواتین کے ساتھ جو فراک یا پینٹس وغیرہ میں ملبوس ہوتیں اور گٹ پٹ کرتے مزے مزے سے سائیکلنگ کرتے بلا خوف و خطر گزریں گے اور مذہبی تعصب کا نام و نشان نا ہوگا

شام کو ہمیں اذانیں سننی ہیں اور پرندوں کی ڈاریں جب شور مچاتی گزریں گی تو ہم ضرور پوچھیں گے کہ تم تو گوجرانوالہ چھوڑ کر نہیں جاؤ گے نا؟ نا جانا ورنہ تمھارا باپ تمہیں دیکھے بغیر ہی چلا جائے گا اور ماں راہ دیکھتی رہے گی، نا جانا پلیز نا جانا!

شام کے اندھیرے میں برآمدہ ٹیوب لائیٹ سے جگمگانے لگے گا اور ابو رات آٹھ بجے کی بی بی سی کی اردو سروس کی خبریں سنیں گے تو کان ہم بھی ادھر لگائیں گے اور سیربین کے وقت تو بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے کہ ان کو شور بالکل بھی نہیں چاہیے۔ ابو آپ کو اردو سروس بند ہونے کا افسوس بہت ہوا ہوگا۔

ہمارا اپنے سکول جانے کا دل کرتا ہے، ہم نے سنہرا لڑکپن جہاں بتایا اور ہم نے اپنے کالج بھی جانا ہے جہاں زندگی کے بہترین چار سال گزارے۔ جب ہنسی کے فوارے چھوٹتے تھے اور پھولوں پر منڈلاتے بھنوروں پر بھی غصہ نہیں آتا تھا۔ ہمیں کالج کینٹین جانا ہے اور شہرہ آفاق نان ٹکی اور لسی نما چٹنی کھانی ہے اور ساتھ کوک کی بوتل بھی پینا ہے مگر کیا اسی طرح ہمارے اندر زندگی کی نئی لہر دوڑائے گی؟ ”گٹر بگیچہ“ ابھی ہے؟ پرنسپل آفس کے سامنے ان کا ایک چھوٹا سا لان تھا پھولوں سے لدا ہوا اور اس کے پاس گزرنا بھی جرم تھا سو اس کا نام ہم دوستوں نے گٹر بگیچہ رکھ دیا تھا اور کبھی کبھی جان پر کھیل چھوٹا موٹا پھول توڑ لیتے تھے۔ ہمیں کالج میں خوامخواہ کے بلند و بانگ قہقہے لگانے ہیں۔ بہت سی لڑکیوں کے ہم نے مختلف نام رکھ چھوڑے تھے (اللہ تعالی معاف کر دیں پلیز) ان سے مل کر معافی مانگنا ہے اور ان کے اصلی نام معلوم کرنے ہیں۔ مگر کیا کاج میں اب بھی اتنی ہنسی آئے گی؟

کالج کے قریب مشہور زمانہ سیٹلائیٹ ٹاؤن مارکیٹ جانا ہے وہاں پر جعفر فاخر کی دکان سے کون آئسکریم لیں گے، مگر نہیں! ان دونوں بھائیوں کو تو پیوند خاک ہوئے مدتیں گزر گئیں۔ صبح منہ اندھیرے جا کر پوریاں چنے کھانی ہیں۔ کراچی کلاتھ سے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔

ماڈل ٹاؤن کے تکے کھائیں گے اور پزا ہٹ، میکڈونلڈز اور کے ایف سی کو دیکھنا بھی نہیں ہے۔ ٹرسٹ پلازہ کے پائے، ہائے! سیالکوٹی دروازے کی شہرہ آفاق آئسکریم بھی رات کو جا کر کھانی ہے اور

یہ سب کھا کر چاہے گزر ہی کیوں نا جائیں۔

ہم ریل با زار جائیں گے اور کھووں سے چھلتے ہوئے پہلے جالندھر سویٹ پر رک کر گرم گلاب جامن لیں گے پھر سیدھے لمبے بازار میں چلتے ہوئے ہری سنگھ نلوہ کی حویلی تک پہنچ جائیں گے جہاں مدرسہ ہے اور ”مولبی یاسین دی مسیت“ ہے، وہی مولبی یاسین جو اولاد نرینہ کی خواہش مند بیبیوں کو دم کر کے لڈو دیتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ہر طرح کی گالیوں سے نوازتے تھے (اللہ معاف کرے )

ہم سیدھے چلتے ہوئے بازار کے آخر تک پہنچ جائیں گے جہان ایک زمانے میں پولیس اسٹیشن تھا مگر اصل میں تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش ہے۔ ہم ساری عمارت میں گھومے پھریں گے اور بہت بچپن کی یادیں تازہ کریں گے جب ہم یہاں آتے تھے کہ تب یہاں پولیس انچارج ہمارے چچا تھے۔ مگر کافی بعد میں خالی کرا کے حکومت نے اس عمارت کو تاریخی ورثہ قرار دے دیا

ہم نے شیرانوالہ باغ بھی جانا ہے جہاں ہم زندگی میں کبھی نہیں گئے اور شاید وہ بھی سکھ دور کی یادگار ہے اور کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں اس کے دروازے پر پتھر کے شیر کھڑے تھے۔ ہمیں تمام مندر اور گوردوارے دیکھنا ہیں جہاں کبھی گھنٹیاں بجتی تھیں اور ان کے پیروکار اپنی دلی مرادیں پاتے تھے۔ ہمیں ایمن آباد جا کر بیساکھی کا میلہ دیکھنا ہے اور اور پھوٹتی پیلی سرسوں میں بسنتی دوپٹہ اوڑھنا ہے اور پیلی سبز چوڑیاں چڑھانیں ہیں، جلیب لے کر کھجور کے پتوں کی ٹوکری میں بندھوانے ہیں۔

ہم ”پیر گودڑی شریف“ بھی فاتحہ کے لئے جائیں گے اور وہاں کئی پیروں کے پیر ہمارے نانا بھی آسودہ خاک ہیں، ان سے بھی باتیں ہوں گی۔

ہم نے جا کر اپنے بھائیوں کے گلے لگ جانا ہے اور اتن لمبی غیر حاضری کی اداسی آنسوؤں میں بہا دینی ہے۔ ان کو بتانا ہے کہ وہ ہماری زندگی کی دلچسپی اور خوشی ہیں۔ ان کے ساتھ بچپن کے جگنوؤں کی تلاش میں نکلنا ہے اور پھر ان جگنوؤں کو اطلس کی تھیلی میں ڈال کر دل میں چھپا لینا ہے۔ ہمیں ان کو بتانا ہے کہ صبح ہو تو ہمیں یاد آتے ہیں اور شام ہو تو اور زیادہ یاد آتے ہیں، گرمیوں کی دوپہروں میں ان سے خیالوں میں گلے شکوے کرتے ہیں اور سردیوں کی شاموں میں کشمیری چائے کی پیالیاں لبریز کر کے ان کا انتظار کرتے ہیں۔

ساون کی رم جھم میں برسات کے گانے سنتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ انھیں پکوڑوں اور پوڑوں کے لئے انوائیٹ کریں۔ خزاں میں چلنے والی شوریدہ سر ہوائیں جب ہر چیز کے ساتھ ہمارے احساسات بھی اڑائے چلی جاتی ہیں تو ہم سوچتے ہیں وہ سب یہاں ہوتے تو کتنا مزہ آتا اور ہم خشک چڑمڑاتے پتے دیکھتے ہوئے بہار کے گیت سنتے اور آرام کرسی پر جھولتے رہتے اور اسی لئے اب ہمارا دل گوجرانوالہ جانے کو کرتا ہے۔

ہم کو ڈی سی کالونی جانا ہے جہاں ہمارا ایک جہان ہے اور اپنی جنت کے قدموں میں گرنا ہے اور معافی مانگنی ہے کہ ملاقات کو اتنی دیر ہوئی۔ ہم نے کہنا ہے کہ امی ہم اپنے بھائیوں کو شاید

موسموں کے حساب سے یاد کرتے ہیں مگر آپ کی یاد ہر سانس کے ساتھ آتی ہے۔ ہمیں گوجرانوالہ آ کر آپ سے لپٹنا ہے اور آپ کے دوپٹے کی خوشبو کو محسوس کرنا ہے ہم نے آپ کی گود میں منہ چھپانا ہے اور اداسی کے تمام آنسوؤں سے آپ کا دامن بھگو دینا ہے۔ ہمیں آپ سے دل کا تمام حال کہنا ہے اور آپ کے شب و روز پچھلے چھ سال جو تھے ان کے پل پل کا حال سننا ہے۔

ہمیں دیکھنا ہے کہ گھر میں کون کون سے اخبار آتے ہیں اور پھر تازہ اخبار ہاتھ میں لے کر پڑھنا ہے۔ اپنے دوستوں کو ملنا ہے جو ہمارے دکھ سکھ کے شریک تھے۔ ہم کو جا بجا لگے سائیں بورڈز پڑھنا ہیں۔ ہمیں جی ٹی روڈ کی بے ہنگم ٹریفک میں پھنسنا ہے اور اس دوران ڈیزل اور گیس کی ملی جلی ہمکار کو محسوس کرنا ہے۔

بیکن ہاؤس جانا ہے کہ اس کی بنیاد جب گوجرانوالہ میں رکھی گئی تو ہم بھی ہراول دستے میں شامل تھے اور پھر زندگی کے سنہرے سال وہاں بسر ہوئے اور بہترین دوست ملے۔ کیا کیا کہیں بس کیا کیا بتائیں۔ ہماری دعا ہے کہ روزانہ نکلنے والا چاند اپنی ٹھنڈی روشنی سے گوجرانوالہ کا دل ہمیشہ گرمائے۔ اب آپ سب سمجھ گے ہوں گے کہ کیوں

گوجرانوالہ جانے کو دل کرتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments