ماں جی


پتھر کے زمانے سے لے کر مہذب معاشرے کی بنت اور تہذیبوں کے ارتقاء سے لے کر ٹیکنالوجی کے سیلاب تک دنیا کی ہیت کیا سے کیا ہو گئی۔ نہیں بدلی تو ماں نہیں بدلی۔ ماں اللہ تعالی کی جانب سے محبت کی ”پریزنٹیشن“ ہے۔ جس کی ایک ایک کاپی ہم سب میں تقسیم کی گئی ہے تاکہ ہم دنیا میں لافانی محبت کے اس سلیبس سے تربیت حاصل کر سکیں۔ خود غرضی اور صلے جیسی ملاوٹ سے پاک، یک طرفہ، بے لوث اور بے انتہا محبت۔ جس کے اندر وفا ہی وفا ہے، ایثار ہے، قربانی اور دونوں ہاتھوں سے نچھاور کرنے کا ظرف ہے۔ وہ محبت جو فاتح عالم ہے، ماں کی محبت کا پرتو ہی ہو سکتی ہے۔

آج سے بائیس تئیس سال پہلے پی ٹی وی پر ثانیہ سعید ”ماں“ کے عنوان سے ایک پروگرام کرتی تھیں۔ وہ ملک بھر میں دور دراز دیہات اور علاقوں میں جا کر کسی ایسی ماں کے ساتھ انٹرویو کرتیں جن کی قربانیوں کی داستاں سن کر ناظرین رو دیتے تھے۔ میں پرائمری سکول میں تھا مگر جس قسم کی کہانیاں ”ماں“ پروگرام میں بیان کی جاتیں مجھے لگتا تھا کہ میری امی بھی اس میرٹ پر پورا اترتی ہیں۔ میرا بہت جی چاہا پروگرام انتظامیہ کو خط لکھوں مگر خیال آتا کہ ٹی وی والے میری بات کہاں مانیں گے۔

ماں کی گود پہلی تربیت گاہ ہے۔ ماں کی صحبت اخلاقیات کی بنیاد۔

اپنا نقصان ہو جائے خیر ہے، کسی کا بھلا ہو، ہونے دو۔ مشقت اپنے ذمے لے لو اور دوسروں کو آرام پہنچاؤ۔ ساری فیملی کے کپڑے خرید لو، اپنی باری آخر میں یا نہ بھی ملیں تو دوسروں کی خوشی میں خوش۔ آپ کے کام سے کوئی اور بھی فائدہ حاصل کر رہا ہے تو صرف اس کا فائدہ روکنے کے لئے محنت کرنا ترک نہ کر دو۔ یہ وہ پیغامات تھے جو بن کہے، امی کے عمل سے سیکھے۔ آج تک ان کی مشق جاری ہے۔ مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی بھی ماں کے عمل سے سیکھ سکتے ہیں۔

گاؤں کے پرائمری سکول میں اردگرد کے دیہات کے تمام سکولوں کے بچوں کا مقابلے کا امتحان جاری تھا۔ تین سو سے زائد بچے قطاروں میں بیٹھے تھا۔ پرچہ حل کرتے اچانک نظریں اٹھائیں تو امی جوس کا ڈبہ لے کر سر پر کھڑی تھیں کہ صبح ناشتہ نہیں کیا تو یہ پی لو۔ اسی طرح ہائی سکول میں تقریباً پانچ کلومیٹر پیدل چل کر دوائی پلانے آ گئیں کہ صبح جاتے ہوئے بھول گیا تھا۔

چلچلاتی دھوپ میں سائیکل پر ہم سکول سے واپس گاؤں آتے تو ”تنزیل“ کی امی خود پسینے میں شرابور سڑک پر ٹھنڈی شیزان کی بوتل لئے کھڑی ہوتیں۔

کاشف سکول لگنے سے بھی پہلے منہ اندھیرے ٹیوشن جاتا اور وہاں سے سکول۔ تو اس کا ناشتہ ”پونے“ میں لپیٹ کر راستے میں کھڑی ہوئی ماں۔ محبت میں شدت اور ”کیئر“ کا عملی نمونہ تھی۔

شہر میں ٹیوشن جانے لگے۔ ایک روز ٹیچر نے کلاس مغرب کے بعد ختم کی۔ بارڈر ایریا میں ٹرانسپورٹ سر شام بند ہو جاتی تھی اور شام کے بعد سفر کا تصور نہیں تھا۔ نہ ہی فون ہوا کرتے تھے۔ ہم چار لوگ پیدل گاؤں کی طرف چل پڑے تو عشا کے بعد پہنچے۔ چاروں کی ماؤں نے پورا گاؤں اکٹھا کر لیا تھا۔

ایک ماں غصہ ہوئی۔ بیٹا گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ کئی سال واپس نہ آیا۔ بیٹے کی جدائی میں پوری پوری رات رونے والی ماں کا چہرہ آج بھی یاد ہے۔

ہم سب محبت سیکھ رہے تھے اور ماں کے علاوہ کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ”ماں“ مکمل سلیبس ہے۔

محبت جتنی زیادہ ہو قدر اتنی کم ہوتی جاتی ہے۔ جس محبت پر ہم اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اس کو اہمیت دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ ماؤں کی محبت بھی اسی فطری فارمولے کے تحت نظر انداز ہوتی رہتی ہے تا وقت یہ کہ جدائی کا لمحہ آن پہنچے۔ ماں کا سایہ اٹھ جائے تو سر پر سات نہیں چھ آسمان رہ جاتے ہیں۔ جس کی روک ٹوک بری لگتی ہو۔ جب یہ آواز نہ رہے تو پھر کان بجتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہم لاہور میں برکت مارکیٹ میں رہتے تھے۔ شام کو لاہور کے دوست ملنے آتے۔ تھوڑی دیر ہوتی تو ان کو ایک ایک کر کے گھر سے فون آتے اور وہ چل دیتے۔ ہمیں کوئی نہیں آتا تھا۔ تب احساس ہوا کہ زندگی میں روک ٹوک کی کیا اہمیت ہے۔ جب کوئی پوچھنے والا نہ ہوا ایسی آزادی میں دم گھٹتا ہے۔

”پیو مرے تے سر ننگا ہوئے،
ویر مرے تے کنڈ خالی،
ماواں باج محمد بخشا
کون کرے رکھوالی ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments