کشمیر میں روحانیت کے نقیب میر سید علی ہمدانی (یوم وصال 6 ذوالحجہ)


قوموں کی تاریخ میں ایسے بھی فیصلہ کن مراحل آتے ہیں جب اگر سمت سفر کا صحیح تعین نہ کیا جائے تو قوم اپنا مقصد وجود کھو بیٹھتی ہے اور اس کے نقوش تاریخ عالم کے دفتر سے کچھ اس طرح محو ہوتے ہیں کہ انسانیت کے مجموعی اور مشترکہ حافظے سے اس کی یاداشت بالکل مٹ جاتی ہے! یعنی کسی بھی قوم کو اپنی قومی حیات کو جاوداں بنانے کے لئے ایسے معماروں کی ضرورت پڑ جاتی ہے جو اس کے فکری سانچے کو کچھ اس طرح موڑ دیتے ہیں کہ آنے والی نسلیں اس کی رہین منت ہوجاتی ہیں کیونکہ یہی شخصیات ان کی نشات ثانیہ کا موجب بنتی ہیں۔

قوموں کی حیات نو کا سامان کرنے والی یہ شخصیات کبھی زندگی کے ایک شعبے کو سنوارتی ہیں تو کبھی کئی ایک شعبوں میں سدھار لاتی ہیں۔ لیکن ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی بطل جلیل ایسی صفات کے حامل ہوتے ہیں کہ وہ قوموں میں ہمہ جہت تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرت، معیشت، سیاست، تجارت، صنعت و حرفت، غرض ہر طرح کے معاملات کو از سر نو ترتیب دیتے ہیں۔ اس طرح سے یہ لوگ قوم کو اور خاص کر قوم کے رہبروں اور رہنماؤں کو جہانگیری کے ساتھ ساتھ جہانبانی کے گر بھی سکھاتے ہیں۔

تاریخی طور پر کشمیر کے معاشرتی اور ثقافتی افق پر بھی کچھ ایسی تاریکیاں چھا گئی تھیں کہ جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اہالیان کشمیر کے اذہان سے اولاد آدم کے اخوت اور مساوات کے بنیادی تصور کو محو کیا تھا بلکہ ان کو ذات پات اور چھوت چھات کے ایک ایسے گورکھ دھندے میں جکڑ رکھا تھا کہ جس سے نجات حاصل کرنے کی کوئی ترکیب مقامی طور پر دستیاب نہیں تھی۔

بقول عبدالاحد آزاد، کشمیر ایک بلکہ کئی دقیق فلسفوں کا مرکز تھا۔ اسی کشمیر کے ہائیڈرولک انجینئر (سیا) ، جس کی مہارتوں کی گواہی آج بھی قصبہ سوپور دیتا ہے، کا حال کشمیر کے مشہور مورخ، کلہن پنڈت نے ایک چنڈالا (نچلی ذات) خاتون کی اولاد کہہ کر اپنی ”راج ترنگنی“ میں درج کیا ہے! یہ کشمیر نہ صرف یہ کہ توہمات کی آماجگاہ بن چکا تھا، بلکہ اس نے کالے جادو کے ایک ایسے مرکز کے طور پر شہرت حاصل کی تھی جہاں چین سے لوگ اس ”فن“ کو سیکھنے کے لئے آتے تھے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ لل دید (للیشوری، 1320۔ 1392 ) ”ادویتا“ (مانزم) کی عوامی نمائندہ بن کر ایک طرف اپنے خاص انداز میں خدائے واحد کا تعارف کرا رہی تھیں اور دوسری طرف ظلم کی تاریکی میں ہچکولے کھاتے معاشرتی نظام کے بیڑے کو سہارا دینے کی سعی کر رہی تھیں۔ خاندانی نظام میں رائج ظلم خاص کر خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والی نا انصافی کو لل دید نے اپنے ایک فقرے میں کچھ اس طرح جاوداں بنا دیا ہے کہ کشمیری آج بھی اس فقرے کو بالکل انہی مواقع کے لئے اور انہی معانی میں استعمال کرتے ہیں :

ہونڈ مآر تنہ کنہ کٹھ
للھہ نلہ وٹھ ژلہ نہ زانہہ

یعنی (میرے سسرال والے ) چاہے بڑا مینڈھا ماریں یا ایک چھوٹا میمنہ، للا کے کھانے کے نیچے (زیادہ دکھنے کے لئے ) ہر صورت میں نیلا پتھر رکھا جائے گا!

لل دید خدا کا تعارف کچھ اس طرح دیتی ہیں :
گورس پرژھوم ساسہ لٹے
یس نہ کینہ ونان تئمس کیا ناو
یعنی میں نے اپنے گرو (استاد) سے ہزاروں دفعہ پوچھا کہ جس (خدا) کا کچھ نام نہیں اس کو کیسے پکاریں؟

اس صورت حال میں لل دید کا میر سید علی ہمدانی، 1314۔ 1385 ) کو دیکھ کر ایک خاص طرح کے ردعمل کا اظہار کرنا، جس میں انہوں نے اپنے آپ کو تعظیما ”سید سے چھپائے رکھنے کی کوشش کی، کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اگرچہ کئی محققین نے اس واقعے کی تصدیق کرنے سے انکار کیا ہے، لیکن لل دید کا سید کے بارے میں سن کر یہ کہنا کہ“ میں نے آج آدمی کو دیکھا ہے! ”معنوی اور تمثیلی لحاظ سے بلاجواز نہیں ہے۔

اصل میں اپنی آمد سے قبل ہی میر سید علی ہمدانی نے اپنے شاگردوں کو دعوت دین کے لئے کشمیر بھیجنا شروع کیا تھا۔ ان میں سید تاج الدین اور سید حسین سمنانی قابل ذکر ہیں۔ ان کی دعوت سے کشمیر کے مذہبی اور ثقافتی ماحول میں ایک قابل لحاظ تغیر واقع ہونا شروع ہو چکا تھا۔ اب چاہے سید نے خود کشمیر کے تین دعوتی دورے کیے ہوں یا صرف ایک ( 1381، جیسا کہ بعض جدید محققین کا خیال ہے ) ، دونوں صورتوں میں سید کا کشمیر میں اچھا خاصا تعارف ان کی آمد سے قبل ہی ہو چکا تھا۔ اس کا اندازہ ہم کشمیر کے حکمران وقت، سلطان قطب الدین کے سید کی مدح میں کہے گئے ان اشعار سے بخوبی لگا سکتے ہیں :

جانم فدائی بر قدم خاک تو بادا یا امیر
روحم فدائی بر شرف نام تو بادا یا امیر
از آمدنت مشرف بہ اسلام گشتہ ام
چشمم فدائی بر آمدن تو بادا یا امیر

یعنی میری جان آپ کے قدموں کی خاک پر قربان ہو، اے امیر؛ میری روح آپ کے مبارک نام پر قربان ہو، اے امیر! آپ کی آمد سے ہی میں مشرف بہ اسلام ہوا؛ میری چشموں کا نور آپ کی راہوں پر قربان ہو، اے امیر!

ظاہر ہے کہ سلطان کشمیر سید کی آمد سے قبل ہی مسلمان تھے۔ لیکن ان مدحیہ اشعار کا واضح مطلب یہ تھا کہ کس طرح سادات کی کشمیر آمد سے بالعموم اور سید کی آمد سے بالخصوص کشمیر میں اسلامی انقلاب کی راہ ہموار ہو رہی تھی۔

سید علی ہمدانی کی بپا کردہ دعوت اسلامی کی یہ تحریک تمام تر اسلام کے روحانی اصولوں پر مبنی تھی۔ یہ دعوت ایک طرف عوام کو توہم پرستی اور ذات پات کی دلدل سے نجات دلا رہی تھی اور ساتھ ساتھ خواص اور حکمران طبقے کو سماجی عدل کے اعلی اصولوں پر استوار کر رہی تھی۔ واضح رہے کہ سید نے اپنے سیاسی فلسفے کو بیان کرتے ہوئے شریعت کو ”قانون ہمت اور حکمت قرار دیا ہے۔“ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اسی قانون کو راہ سلوک پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے کا راز گردانا ہے۔

انہوں نے اپنی سیاسی شاہکار ”ذخیرہ الملوک“ میں حکمرانوں کو خبردار کیا ہے کہ انہیں ہر کس و ناکس کو خوش کرنے کے لئے شریعت کے نفاذ میں کسی تساہل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ایک خط میں سید اس حقیقت کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ اصل دینداری اور تقوی وہی ہے جس کی سند رسالت مآب (ص) ، صحابہ (رض) اور سلف صالحین سے ثابت ہو۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سید کے ہاں سیاست اور روحانیت میں کوئی بیر اور تضاد نہیں پایا جاتا۔

اگرچہ سید کبرویہ صوفی سلسلے کے سرخیل تھے، تاہم آپ روحانیت کی اعلی قدروں کو خواص تک محدود رکھنے کے قائل نہیں تھے۔ یہ بات سید کی مختلف تصانیف سے اخذ کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سید کا ”رسالہ فتوتیہ“ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس رسالے کے ذریعے سید دراصل مجرد روحانی تعلیمات کی عوام میں اشاعت کر کے معاشرے کو روحانیت کی ایک تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس کام کے لئے ظاہر ہے کہ نوجوان ہی موزوں ترین ہوسکتے ہیں۔

لغوی طور پر ”فتوت“ جو ”روحانی جوانمردی“ کا ایک تصور ہے، ”فتی“ سے نکلا ہے۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ نوجوان جو قوت اور صلاحیت کا ایک بیش بہا خزانہ ہوتا ہے، اس کو شریعت پر عمل پیرا ہونے کے لئے منظم کیا جائے۔ سلوک ”فتوت“ کو سید نے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے : سخا، یعنی جو کچھ بھی آپ (نوجوان) کو دستیاب ہے، اسے دوسروں کو دینے میں دریغ نہ کرے ؛ صفا، یعنی دل کو کبر و کینہ کی غلاظت سے پاک کرے اور وفا، یعنی عبد اور اور معبود کے درمیان رشتہ عبودیت (و محبت) ہر آن قائم رہے۔

اہل ”فتوت“ خدا کے عطا کردہ انعامات کو بلاتفریق خلق خدا پر صرف کرتے ہیں۔ اس طرح وہ نہ صرف یہ کہ بھٹکتی انسانیت کو راہ راست پر لاتے ہیں بلکہ بے بس اور بے سہارا انسانوں کا سہارا بھی بنتے ہیں۔ الغرض ”فتوت“ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بجا آوری کا ایک بہترین امتزاج ہے اور اسی کا عکس سید نوجوانوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے، کیونکہ نوجوان معاشرے کا ایک قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں جو بلاشبہ قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

میر سید علی ہمدانی کے اعلی صوفی ادب کی مثال ان کے رسالہ ”فی سواد اللیل و لبس الاسود“ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ یہ رسالہ جو فارسی میں تحریر کیا گیا ہے کالے رنگ کے اسرار و غوامض کی تفصیل فراہم کرتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سید وحدت الوجود کے قائل تھے۔ اگرچہ ایک اور رسالہ ”کشف الحقائق“ میں بھی سید نے تجلی ذات کو صوفی ارتقاء کی معراج قرار دیا ہے، تاہم اس رسالے میں سید ”عماء“ (کالا رنگ یا عدم) کو دراصل ”حقیقت الحقائق“ کا درجہ دیتے ہیں۔

یہ ”عماء“ اس آگ کی مانند ہے جسے چقماق پتھر نے اپنے اندر چھپا رکھا ہے۔ آگ باوجود اپنے ظہور (تجلی) کے پتھر کے اندر موجود رہتی ہے۔ اس طرح ”عماء“ وہ تجلی واحد ہے جس کو واجب الوجود نے اپنی ذات کے لئے پسند کیا، کسی غیر کے لئے یہ تجلی نہیں ہوتی۔ اس طرح سید تصوف کے اس دقیق فلسفے کو بھی عام فہم انداز میں بیان فرماتے ہیں۔

کشمیر کے مذہبی، ثقافتی اور روحانی خد و خال پر سید کی جس تصنیف نے عوامی سطح پر سب سے زیادہ اثر ڈالا وہ آپ کی ”اوراد فتحیہ“ ہے۔ اس تصنیف کو بجا طور پر کتاب توحید کہا جاسکتا ہے۔ اس میں نہ صرف یہ کہ کلمہ شہادت کو بار بار دہرایا گیا ہے بلکہ اسماء الحسنی کے ساتھ ساتھ سیرت رسول (ص) کے اہم واقعات کو بھی اس میں جگہ دی گئی ہے۔ یہ اوراد ذات رسالت مآب (ص) پر سلام کے ساتھ اختتام ہوتی ہے۔ سید نے یہ ذکر کشمیری نو مسلموں کو سکھا کر مختلف اوقات خاص کر نماز فجر کے بعد بالجہر پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ یہ ذکر ساڑھے چھ سو سال سے مسلسل کشمیر کی مسجدوں میں پڑھا جاتا ہے۔ اس ذکر نے کشمیری مسلمانوں کی نفسیات پر کافی مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔

چونکہ میر سید علی ہمدانی ایک عملی داعی اور صوفی تھے، اس لئے انہوں نے کشمیری نو مسلموں کو وسطی ایشیا اور ایران میں پائے جانے والی صنعت و حرفت سے اپنے شاگرد صوفیوں اور داعیوں کے ذریعے آراستہ کیا، تاکہ یہ لوگ خود اعتمادی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ یہ ہنر اور کاریگری آج بھی کشمیر کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہے۔ انہی ہنر مندیوں کی بدولت نہ صرف کشمیری فن تعمیر بلکہ کشمیریوں کے طرز زندگی کو بھی ایک خاص امتیاز حاصل ہوا۔ اس طرح ”کار امیری“ (امیر، میر سید علی ہمدانی کے کاموں ) نے کشمیر کو ”ایران صغیر“ کا لقب دلوایا۔

آج سید کے یوم وصال پر کشمیری مسلمانوں کو بالعموم اور کشمیری مسلم نوجوانوں، جو کچھ عرصے سے اپنے آپ کو بے بس پاکر منفی راستوں کا انتخاب کر رہے ہیں، کو بالخصوص سید کے علم، عمل اور خلوص سے روشن کیے ہوئے راستے پر پھر سے گامزن ہونے کا عہد کرنا چاہیے، کیونکہ آپ ہی اس قوم کی تقدیر کے معمار اعظم ہیں :

سید السادات سالار عجم
دست او معمار تقدیر امم (اقبال)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments