سندھ: درجنوں ہندوؤں کا قبولِ اسلام، زبردستی تبدیلیٔ مذہب یا کوئی اور وجہ؟


پاکستان کے سوشل میڈیا پر سندھ کے ضلع بدین کے شہر ماتلی کے ایک گوٹھ میں ہندو برادری کے 60 افراد کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کرنے کی ویڈیو زیرِ گردش ہیں جس کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ آیا ان لوگوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا یا ان کے ساتھ زبردستی کی گئی۔

بھارتی میڈیا پر بھی اس خبر کو بھرپور کوریج دیتے ہوئے اسے زبردستی تبدیلیٔ مذہب قرار دیا جا رہا ہے جب کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض سیاسی رہنماؤں نے بھی اس معاملے پر سوالات اُٹھائے ہیں۔

تقریب میں شریک خمیسو، موتی، اچھن اور ڈوڈو بھیل سمیت دیگر افراد کے اسلامی نام رکھنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ان افراد میں سے مسلمان ہونے والے ایک شخص محمد بشیر نے وائس آف امریکہ کو فون پر بتایا کہ ان کے خاندان کے بہت سے لوگ پہلے بھی مسلمان تھے اور اب یہ بھی کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلمان ہونے سے قبل ان کا نام لالو بھیل تھا۔ صرف وہ ہی نہیں بلکہ ان کے قبیلے کے 60 لوگوں میں 13 خواتین نے بھی اسلام قبول کیا ہے۔ انہوں نے اس سے مکمل انکار کیا کہ مذہب کی تبدیلی کے لیے ان پر یا ان کے خاندان کے دیگر افراد پر کسی قسم کا کوئی دباؤ ڈالا گیا ہے۔

یہ افراد ضلع بدین کے شہر ماتلی کی میونسپل کمیٹی کے سابق چیئرمین اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق رکنِ سندھ اسمبلی حاجی عبدالغفور نظامانی کے بیٹے عبدالرؤف نظامانی کی زمینوں پر کام کرتے ہیں۔

عبدالرؤف نظامانی نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ان تمام افراد نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ ان کے بقول بھیل کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے یہ افراد کئی پشتوں سے انہی کی زمینوں پر کام کرتے آئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھیل کمیونٹی کے قبیلے کے وہ لوگ جو ان کی زمینوں پر کام کرتے تھے، پہلے بھی اسلام قبول کر چکے ہیں اور اس کے لیے ان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ یا زبردستی نہیں کی گئی۔ بلکہ عبد الرؤف نظامانی کے بقول انہوں نے خوشی سے اسلام قبول کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان افراد سے کوئی بھی شخص رابطہ کر سکتا ہے اور ان سے اس بارے میں تصدیق کر سکتا ہے کہ آیا کہ انہوں نے زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کیا گیا یا انہوں نے دینِ اسلام سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ان خاندانوں کو مسلمان کرنے کے لیے گزشتہ 10 برس سے کوشش کر رہے تھے۔

البتہ، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مسلمان ہونے کے بعد ان لوگوں کی جو بھی مدد کی جا سکے گی وہ کی جائے گی اور یہ ہماری زمینیوں پر یہی لوگ پہلے کی طرح ہی کام کرتے رہیں گے۔

اسلام قبول کرنے پر ان کا قرض معاف اور مالی امداد کی پیش کش؟

واضح رہے کہ اس سے قبل سندھ کے مختلف علاقوں سے ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں ہندو برادری کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ان کی خواتین کا زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا۔

البتہ، اس کیس پر بات کرتے ہوئے بدین سے ہی تعلق رکھنے والے سوشل ورکر اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن مکیش میگھواڑ کا کہنا ہے کہ عام طور پر بھیل کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد انتہائی غریب ہیں اور وہ مختلف زمینداروں کے پاس کام کر کے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔ جن سے مشکل اوقات میں وہ قرضہ لیتے ہیں اور یوں وہ مکمل طور پر ان زمینداروں ہی کے رحم و کرم پر آ جاتے ہیں۔

مکیش میگھواڑ کے مطابق غربت کی سطح سے بھی نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ایسے افراد پر ظاہر ہے کہ دباؤ بھی ہوتا ہے اور ایسے میں بعض جاگیردار انہیں اسلام قبول کرنے پر ان کا قرض معاف کرنے کی پیش کش کرتے ہیں۔

اُن کے بقول بدترین غربت میں قرض تلے پھنسے ایسے افراد کو اس سے اچھی کوئی اور ڈیل نہیں مل سکتی اور ایسے میں وہ مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

مکیش میگھواڑ کا کہنا تھا کہ ریاستی سطح پر یا غیر ریاستی سطح پر بھی کوئی ایسے ادارے موجود نہیں جو نچلے طبقے کے ہندو کمیونٹی کے لوگوں کی دیکھ بھال کریں یا ان کی وکالت کریں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ہندو کونسل جیسے ادارے بھی عام طور پر کاروباری یا تجارت سے وابستہ ہندوؤں ہی کی مدد کرتے نظر آتے ہیں اور لوئر کلاس کے لوگوں تک ان کی رسائی بالکل نہیں۔

مکیش کا دعویٰ ہے کہ تبدیلیٔ مذہب کے لیے پورا ماحول تشکیل دیا جاتا ہے اور سندھ کے دیہی علاقوں میں یہ سلسلہ عام ہے۔

مکیش میگھواڑ کے خیال میں یہ زبردستی تبدیلی مذہب تو نہیں لیکن اسے خواہش کے تحت مذہب کی تبدیلی بھی نہیں کہا جا سکتا۔

ان کے خیال میں ایسے افراد میں سے اکثر نے اسلام قبول کرنے سے قبل اس کا مطالعہ کیا ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں وہ اس کی تعلیمات سے متاثر ہوتے ہیں جب کہ ایسے افراد کی چند ایک دفعہ مدد کر کے انہیں پھر ان کے حال ہی پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی کارکن اور سابق شریک چیئر پرسن انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) عظمیٰ نورانی کے خیال میں یہ وہی طریقۂ کار ہے جو برصغیر میں انگریزوں نے اپنایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انگریزوں نے اپنے مشینری اسکولوں کی مدد سے یہاں کے غریب ترین طبقے کو بڑے پیمانے پر عیسائیت قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ لیکن آج کے جدید دور میں بھی یہ سب ہونا ان کے خیال میں قابلِ قبول نہیں۔

عظمیٰ نورانی کا کہنا ہے کہ اب ایسے غریب علاقوں میں مدارس کے بڑے نیٹ ورک قائم کیے جا رہے ہیں جو مالی لحاظ سے بھی بے حد مضبوط ہیں اور ایسے میں غربت میں گھرے ہوئے افراد کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مذہب تبدیل کریں۔

انہوں نے کہا کہ صاف ظاہر ہے کہ ایسے میں مذہب تبدیل کرنے والے اپنی مرضی سے اسلام قبول نہیں کرتے بلکہ انہیں غربت کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

سابق چئیرپرسن ایچ آر سی پی کے مطابق بنیادی طور پر ریاست کا کردار یہی ہونا چاہیے کہ ایسے لوگوں کو وسائل، سہولیات اور سماجی تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ غربت کی وجہ سے کسی مجبوری کا شکار نہ ہوں۔

اُن کے بقول اس طرح کے واقعات سے ملک کا تشخص خراب ہوتا ہے اور یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ملک میں اقلیتیوں کو تحفظ حاصل نہیں اور یہ معاشی حالات کی بنا پر اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ان کے خیال میں یہ زبردستی تبدیلیٔ مذہب ہی کی ایک قسم ہے کیوں کہ ریاست انہیں اب تک وہ ماحول فراہم کرنے ہی میں ناکام رہی جہاں وہ اس قسم کے استحصال کے خلاف لڑ سکیں۔

اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا کمیشن کیا کر رہا ہے؟

لیکن دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کئی مؤثر اور ٹھوس اقدامات کیے ہیں جن میں سب سے اہم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کمیشن کا قیام ہے اور اس میں تمام اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس کمیشن کا مقصد وفاق اور اس کی اکائیوں میں اقلیتوں کو آئین اور قانون میں دیے گئے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ان کی ترقی کے لیے سفارشات مرتب کرنا اور ہر قسم کی شکایات کا ازالہ کرنا ہے۔

کمیشن کے سربراہ شیلا رام نے چند ماہ پہلے یہ بھی بتایا تھا کہ کمیشن نے ملک سے زبردستی تبدیلیٔ مذہب کے خاتمے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ مل کر مجوزہ قانون تیار کر لیا ہے۔

البتہ، عظمیٰ نورانی کا کہنا تھا کہ کمیشن کے پاس سفارشات جاری کرنے کے علاوہ اختیارات کی کمی ہے جس سے یہ کمیشن ٹھیک طریقے سے کام نہیں کر پا رہا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments