محسن خان کا ناول : اللہ میاں کا کارخانہ  


حال ہی میں بھارت اور پاکستان میں شائع ہونے والا محسن خان کا ناول ”اللہ میاں کا کارخانہ“ دل کو چھو لینے والی کتاب ہے۔ یہ ناول ایک بچے کی آپ بیتی ہے۔ جو اپنے ہوش سنبھالنے سے لے کر بلوغت کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اپنے اردگرد کے ماحول کا جو اثر لیتا ہے اس کو قلم بند کرتا رہتا ہے۔ یوں یہ ڈائری ایک معصوم کی مختصر سی سوانح بن جاتی ہے۔

جبران نامی بچہ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوتا ہے جس کا باپ تبلیغی جماعت کا سرگرم کارکن ہے۔ ولید اپنے دو بچوں جبران اور نصرت کو کسی اسکول میں داخل کروانے کی بجائے دینی مدرسے میں داخل کروا آتا ہے جہاں مدرسے کا واحد معلم حافظ عبد الرحمٰن ( عرف حافی جی) ایک نیم خواندہ مگر مذہبی تعلیم سے آراستہ سیدھا سادہ مولوی ہے۔ جو فارغ اوقات میں بچوں سے جسم دبوانے، کھانا منگوانے کا کام لیتا ہے۔

ہماری ملاقات ناول کے مرکزی کردار جبران سے اس وقت ہوتی ہے جب وہ ایک خواب دیکھ رہا ہے جبران پتنگ بازی کا بہت شوقین ہے۔ شاید اسی لئے خواب میں بھی وہ پتنگیں ہی دیکھتا ہے۔ خواب میں ایک خوبصورت پتنگ کی ڈور اس کے ہاتھ جاتی ہے وہ بہت خوش ہوتا ہے اور پتنگ کو اڑاتا گھر کی طرف دور پڑتا ہے۔ اسے رنگین پتنگ کے دلفریب کاغذ کی پھڑپھڑاہٹ بہت بھلی لگتی ہے۔ مگر ابھی گھر میں داخل نہیں ہو پا تا کہ والد کی کرخت آواز اس کے کانوں میں پڑتی ہے وہ کہہ رہے تھے ”جبران، نصرت اٹھو نماز کا وقت ہو گیا ہے“

جبران، نصرت، اماں اور ابا پر مشتمل یہ گھرانا مذہبی رسم و رواج پر سختی سے کاربند ایک لگی بندھی خشک اور جامد زندگی بسر کر رہا ہے۔

نصرت ایک معصوم بچی ہے جو اپنے اکلوتے بھائی جبران سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ وہ اکثر اس کی غلطیوں پر پردے ڈالتی ہے۔ وہ جبران کی طرح پتنگ بازی نہیں کرتی بلکہ ابا سے چھپ چھپ کر کہانیوں کی کتابیں پڑھتی ہے۔

جبران کا والد ایک معمولی دکاندار کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت کا رکن بھی ہے اور اکثر دعوت دین کے مشن پر گھر سے دور رہتا ہے۔ یوں جبران اور اس کی بہن سال کا زیادہ عرصہ شفقت پدری سے محروم مدرسے کے سخت گیر مولوی کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔ جہاں ان کے معصوم اذہان کی کنڈیشننگ اس طرح کر دی جاتی ہے کہ وہ پیش آنے والے ہر واقعے کو اللہ میاں سے منسوب کرتے اور اور زندگی کے عام واقعات کو بھی مذہب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر جب جبران کی مرغی کو بلی اٹھا لے جاتی ہے تو وہ اس بات پر حیران ہوتا ہے، کہ جب اللہ میاں نے مرغی بنائی تھی تو پھر بلی بنانے کی کیا ضرورت تھی۔

مروجہ مولویانہ مذہب کی سدھائی بچے کے دماغ میں اس قدر راسخ ہے کہ رات کو جب وہ سو جاتا ہے تو اللہ میاں اس کے خواب بھی میں آ جاتے ہیں :

” اس دن جب میں سو یا تو میں نے خواب دیکھا کہ ہمارے گھر کا دروازہ تیز آواز کے ساتھ کھلا اور اللہ میاں ہمارے گھر داخل ہوئے ہم نے بڑی حیرت سے ان کو دیکھا۔ وہ خوب لمبے چوڑے تھے ان کا چہرہ چاند جیسا تھا منہ ناک اور آنکھیں نہیں تھی کپڑے برف جیسے سفید تھے وہ ہمارے پاس آ کر ابا کی پیڑی پہ آرام سے بیٹھ گئے۔ اور ہمارے سروں پر اپنا روئی جیسا نرم ہاتھ پھیر کر پوچھا تم لوگ کیا پڑھ رہے ہو؟ میں نے کہا آپ کا سپارہ پڑھ رہے ہیں۔

تو انہوں نے کہا: خوشی خوشی کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میری کالی مرغی کو جسے آپ نے بنایا تھا بلی لے کر چلی گئی۔ اس لئے ہم لوگ خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا میں تمہاری اس کالی مرغی کو دوبارہ بنائے دیتا ہوں اور اپنی بڑی بڑی جیبوں سے بہت سارے کالے پر نکال کر ہوا میں اچھالے تو ہماری کالی مرغی پر پھیلا کر اڑتی ہوئی بڑے اطمینان سے آنگن میں اتر آئی۔ پھر مرغی دانا چگنے اور کھٹا کھٹ انڈے دینے لگی۔ ذرا سی دیر میں اس نے اتنے انڈے دے دیے کہ سفید انڈوں سے میرا آنگن چھپ گیا۔ ٰ

اسی طرح جاڑوں میں جمعے کے لئے نہاتے وقت جب بچے کو سردی لگتی ہے تو موسم کے فطری تغیرات کو بھی وہ کار خدا گردانتا ہے۔ کیونکہ اس کا خدا کا تصور ایک شخصی خدا کا تصور ہے۔ اس کو یہ تعلیم ہی نہیں دی گئی کہ دنیا کے حالات و واقعات کے ساتھ خدا کا تعلق بلا واسطہ نہیں بلکہ بل واسطہ ہے۔ اور یہ واسطہ قوانین فطرت ہیں۔ اور یہ کہ کائنات کا نظام قوانین فطرت سے چل رہا ہے۔

ان بنیادی سائنسی توجیحات سے بے خبر معصوم بچہ دنیا کی تمام حقیقتوں کو مذہبی تناظر اور اللہ میاں سے منسلک کر کے دیکھتا اور سوال کرتا رہتا ہے۔ جاڑوں میں نہاتے وقت میں سوچا کرتا تھا اللہ میاں کو یہ بات معلوم ہی ہو گی کہ جاڑوں کے دنوں میں بچوں کو نہاتے وقت کتنی سردی لگتی ہے؟ تو پھر انہوں نے جمعہ کا دن سردیوں میں کیوں رکھا؟ وہ تو اسے گرمیوں میں بھی رکھ سکتے تھے اگر یہ نہیں کرنا تھا تو جمعہ کے دن گرمی ہی کر دیا کریں۔

وقت کا پہیہ ذرا آگے چلتا ہے تو جبران، اس کی بہن اور ماں کے لئے کڑی آزمائشیں آ گھیرتی ہیں۔ ان کا والد دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی سے روابط اور دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات کی بنا پر گرفتار ہوجاتا ہے۔ غربت، شوہر کی گرفتاری اور زمانے کی بے حسی کے ہاتھوں بے بس، لاچار اور بیمار بیوی ایک دن چل بستی ہے۔

جبران اور نصرت کو اپنے چچا کے ہاں پنا لینا پڑتی ہے۔ جہاں پہلے سے منہ پھٹ اور بد تمیز چچی اور حواس باختہ دادی جان اپنے دو بچوں کے ساتھ موجود ہیں۔ جبران کے چچا جان البتہ ایک متوازن شخصیت کے مالک کتاب دوست انسان ہیں جو بھائی کی اولاد کے لئے ایک نرم گوشہ ضرور رکھتے ہیں۔ مگر بیوی کے ہاتھوں مجبور بھی ہیں۔ کچھ دن کی راحت کے بعد جبران کے لئے ایک اور دریا کا سا منا تھا ایک دن چچا پر اچانک فالج کا حملہ ہوا اور وہ چند ماہ فالج زدہ پر آشوب بیماری کاٹنے کے بعد داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔

جبران کی چچی کوئی عجیب سا بہانہ بنا کر جبران کو گھر سے نکال دیتی ہے اور جبران حافی جی کے پاس پہنچ جاتا ہے حافی جی اس بار جبران کا بہت خیال رکھتے ہیں۔

جبران ایک ذہین اور معصوم شرارتیں کرنے والا بھولا بھالا بچہ تھا۔ مگر یہاں آ کر قدرے سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ حافی جی اپنی لگی بندھی زندگی جاری رکھتے ہیں۔ جبران دن کو ان کی واحد بکری چراتا ہے اور ویرانے میں واقع قبرستان پر اپنے چچا اور ماں کی قبر پر جا کر دعا کرنا نہیں بھولتا : ”اللہ میاں میری ماں کو جنت میں اچھا سا گھر دیجئے گا“ ۔

پھر ایک دن حافی جی اپنے آبائی قصبے میں واپس چلے جاتے ہیں۔ جبران اس بھری دنیا میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ وہ بھی کچھ دن شدید بخار میں مبتلا رہنے کے بعد فوت ہو جاتا ہے۔

ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ناول کے چودہ باب ہیں ہر باب سے پہلے ایک دو سطروں کا پیش لفظ ہے جسے بچے کے معصوم تجربات کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے۔ پیش لفظ کی چند سطور ملاحظہ ہوں۔

”ہم تیز دھوپ اور سخت سردیوں کے موسم میں کٹی پتنگوں کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں۔ یہ کبھی تو ہمیں مل جاتی ہیں اور کبھی اونچے درختوں کی شاخوں میں الجھ کر پھٹ جاتی ہیں۔ یا تیز ہوا کے ساتھ خوب اونچائی پر جا کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔“

”یہ دنیا ایک تماشا گاہ ہے یہاں کوئی تماشا دکھا رہا ہے تو کوئی تماشا دیکھ رہا ہے“
”بچپن کی باتیں ساری زندگی انسان کے ذہن میں پاگر ہوتی رہتی ہیں“

”چونی چرانے کے جرم میں مرغا بنا کر عبرت کی چھڑیاں ماری جائیں اور شرمندگی کا احساس نہ ہو تو دل میں اٹھنی چرانے کا خیال ضرور آئے گا“

”تم جتنی بھی کوششیں کر لو، ہوگا وہی جو اللہ میاں چاہیں گے۔“
”دیوار کے قریب لگایا گیا درخت کبھی سیدھا نہیں اگتا۔“
” چیزیں ویسی ہی دکھائی دیتی ہیں۔ جیسے تم ان کو دیکھنا چاہتے ہو۔“

”الجھی ہوئی ڈور کو سہولت سے نہ سلجھایا جائے تو زیادہ الجھ جاتی ہے اور اسے توڑ کر گانٹھیں لگانا پڑتی ہیں“

”ماں کے مرنے کا دکھ کیا ہوتا ہے یہ وہی بتا سکتا ہے جس کی ماں مر گئی ہو۔“

یوں تو یہ ایک معصوم بچے کی آپ بیتی ہے مگر انسانی سطح پر یہ ایک ناول سنجیدہ غور و فکر کی دعوت بھی دیتا ہے۔

والدینیت یا انگریزی میں parenting ایک اہم ذمہ داری ہے۔ بچے پودوں کی طرح ہوتے ہیں ان کو شفقت، مناسب ماحول اور محبت سے کی گئی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کو خود رو پودوں کی طرح مدرسوں کی منافقت کی خاردار جھاڑیوں کے بیچ پھلنے پھولنے اور نشو و نما پانے کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ جہاں بچوں کو اہل مدرسہ کے قول اور فعل میں واضح تضاد نظر آئے۔ اور بچے ایک کنفیوز ذہن کے ساتھ طرح طرح کے سوالات اپنے دماغ لے کر پروان چڑھیں۔

ناول کا اول انتساب اللہ میاں کے نام ہے، جبکہ کتاب کے آخر میں دوسرا انتساب کچھ اس طرح لکھا ہے :

”ان تمام بچوں کے نام جن کی انگلیوں پر خوش رنگ تتلیاں اپنے پروں کے رنگ چھوڑ کر فضاوں میں گم ہو گئیں۔“

اللہ میاں کا کارخانہ سادہ زبان میں لکھا گیا سنجیدہ موضوع پر اہم ناول ہے۔ یوں یہ کتاب پڑھنے لائق ہے اور بلا شبہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments