جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے۔۔۔ اور عورت کی روز مرہ زندگی


“یہ جو آپ نے عورت کے درد کی رام لیلا چھیڑی ہے، ماہواری اور زچگی کے متعلق، پڑھ کے ہمیں تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ عورت کی اہلیت پہ جو شک کیا جاتا ہے، وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں”

ایک بحث میں ہمیں گھیر لیا گیا تھا اور حزب مخالف پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتری تھی۔

“وہ کیسے؟” ہم بھی تیار تھے۔

“دیکھیے، جب وہ ہر ماہ مختلف قسم کے درد سے گزرے گی تو نڈھال ہو کے بستر میں ہی پڑی رہے گی زیادہ وقت۔ کیسے سنبھالے گی گھر اور کیرئیر ؟ کیسے مختلف قسم کے مسائل سے نبٹے گی؟ کیسے ان پوزیشنز پہ کام کرے گی جہاں فورا اہم فیصلے کرنے پڑیں”

“اس کا مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ مختلف قسم کے درد سے نبرد آزما ہو کے اس کی قوت برداشت اس قدر بڑھ جاتی ہو کہ پھر کوئی بات نئی بات نہ ہو اور کوئی مشکل، مشکل نہ لگے۔ سنا ہی ہو گا آپ نے یہ شعر،

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

جبکہ دوسری طرف کا حال دیکھیے کہ جنہیں ہتھیلی کا چھالا بن کر پالا گیا ہو، جنہیں کسی بھی قسم کے درد کا سامنا نہ ہوا ہو، جذباتی مسائل کے انبار کی گٹھڑی بھی پاس نہ ہو، معاشرتی دباؤ بھی دور دور تک موجود نہ ہو وہ کسی طوفان کا کیسے سامنا کریں گے؟

درد، تکلیف، رنج، مصائب زندگی بسر کرنے کی نہ صرف ہمت دیتے ہیں بلکہ اندھیروں میں راہیں کھوجنا بھی ممکن بناتے ہیں، گر کر اٹھنے کی ہمت دیتے ہیں اور ناکامی کا درد انہیں ہارنے سے مایوس نہیں ہونے دیتا۔ اس اٹھنے، گرنے اور پھر سے اٹھنے میں کیا فرق پڑتا ہے اگر دل پر کچھ زخم اپنا نشان چھوڑ دیں”۔

ہماری بلند آواز شدت جذبات سے مدھم ہو رہی تھی۔

“نہیں دیکھیے، میری بات سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ عورتیں ہر کام ڈر اور خوف سے کرتی ہیں۔ کبھی ڈرائیونگ کرتے دیکھا ہے آپ نے ان کو”

“جس صنف کو ساری عمر کمتری اور نا اہلی کی چھڑی سے ہانکا جائے وہ اعتماد کی کمی کا شکار تو ہو گی نا۔ اگر اس کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارتی تو اس کا مطلب تو یہی ہوا نا کہ اس میں اٹھنے کی بھرپور طاقت موجود ہے”

ٹھہریے آپ کو ایک روداد سناتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہو کہ جو درد عورت تمام عمر ہنستے کھیلتے ہوئے جھیل جاتی ہے وہ مرد کے لئے کیسا ہوتا ہے؟

امریکہ میں مقیم ایک آرٹسٹ نیلا الین نے ایک درد سیمولیٹر کے ذریعے ایک تجربہ کرنے کا سوچا۔

درد کا آغاز جسم میں پائے جانے والے اعصابی ریشوں یا نروز سے ہوتا ہے جو پیغام لے کر دماغ تک جاتی ہیں اور دماغ درد کا احساس دلاتا ہے۔ اگر کسی طرح دماغ کو پہنچنے والا راستہ بلاک کر دیا جائے یا دماغ سلا دیا جائے تو درد محسوس ہونا بند ہو جائے گا۔ آپریشن کرنے کے لئے انہی اصولوں کے تحت نصف یا مکمل بے ہوشی کا عمل کیا جاتا ہے۔

اس آلے کو ٹرانس کوٹیینیس الیکٹریکل نروو سٹیمیولیشن مشین (TENS)کہا جاتا ہے۔

آئیڈیا یہ تھا کہ کچھ مرد و خواتین کو اس سیمولیٹر کے ذریعے ماہواری کے برابر درد سے گزار کے دیکھا جائے کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ انہیں یہ آلہ پیٹ پر باندھا گیا اور پھر وڈیو بنائی گئی۔

دیکھا یہ گیا کہ جونہی مرد حضرات کو درد کا جھٹکا دیا گیا، سب کی چیخیں نکل گئیں۔ کچھ پیٹ پکڑ کر دوہرے ہو گئے، کچھ زمین پر گر پڑے اور کچھ اس مشین کو بند کرنے کی درخواست کرنے لگے۔

وہی مشین وہاں موجود خواتین کو لگائی گئی اور ان کے تاثرات کچھ یوں تھے۔

“بس، اتنا ہی”

“یہ تو کچھ بھی نہیں”

“یہ درد تو میری ماہواری کے درد کو چھو کر بھی نہیں گزرا”

جب ایک خاتون نے یہ کہا

“میری ماہواری کا درد اس سے دس گنا زیادہ ہے”

وہیں موجود ایک مرد نے حیرت سے پوچھا

” ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تم اس درد کے ساتھ چل پھر لیتی ہو”

اس وڈیو کے بعد اس بحث کا بھی آغاز ہوا ہے کہ سیمولیٹر کے اس استعمال کو ہر مرد کے لئے لازمی ہونا چاہئے۔ جب معاشرہ عورت کی قابلیت، صلاحیت، ذہانت اور کارکردگی کو مرد کے مقابلے میں جانچ کر ارزاں ثابت کرنے کی کوشش کرے تو یہ بات واضح ہو کہ جو انسان اتنی تکلیفوں کے بعد بھی مقابلے کی دوڑ میں آ کھڑا ہوتا ہے، در حقیقت اس کی صلاحیت کا کسی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا۔

ایک اور خیال بھی زیر بحث آ چکا ہے کہ زچگی کی درد سے مماثلت رکھنے والا سیمولیٹر بھی تجربے کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔

جو صاحب عورت کی اہلیت، لیاقت اور کارکردگی کو جسمانی ساخت میں دفن کرنے کی کوشش کر رہے تھے، ہم نے انہیں بے نظیر بھٹو کا 1988ء کا حمل یاد کروایا جب وہ الیکشن مہم کے سلسلے میں بیس گھنٹے روزانہ کام کرتی تھیں اور زچگی کے فوراً بعد بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈن بھی ملک سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ماں بنی ہیں اور اپنے فرائض پس پشت نہیں ڈالتیں۔

چھوٹا منہ اور بڑی بات نہ ہو تو بتاتے چلیں کہ سیزیرین کے ساتویں دن ٹانکے کھلوانے ہم گاڑی خود چلا کر گئے تھے۔ ماہواری کا درد ساری عمر سہا ہے لیکن وہ کچھ بھی کرنے سے ہمیں روک نہیں سکا۔ انتہائی مصروفیت کے باوجود پانچ حمل کرنے کی ہمت بھی کر لی، تین بچوں کو دو سال تک ماں کے دودھ سے بھی محروم نہیں رکھا۔ اعلیٰ ترین ڈگریاں بھی حاصل کر لیں، نوکری بھی جم کے کی۔

سمجھ لیجیے کہ ایسا ہر عورت کر سکتی ہے اس لئے کہ زندگی کا منبع اس کے وجود میں رکھ دیا گیا ہے اور امید کی کرن اس سے پھوٹتی ہے۔ تخلیق کی صلاحیت اور جنم دینے کی قدرت اسے وہ بنا دیتی ہے جس کی طرف دیکھنے سے آنلھیں خیرہ ہوتی ہیں اور دل ایک بچے کی طرح ہمکنے لگتا ہے۔

ذرا تعصب کی عینک اتار کر دیکھیے تو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments