کیوبا کی حکومت مظاہرین پر تشدد سے باز رہے؛ صدر بائیڈن کا انتباہ


کیوبا میں لوگ بڑی تعداد میں حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہیں۔ (فوٹو: اے پی)

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کیوبا میں حکومت مخالف احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے کیوبا کی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔

امریکہ میں گن کنٹرول کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کے موقع پر پیر کو وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ “کیوبا کے عوام جابرانہ حکومت سے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ہم نے کیوبا میں اس نوعیت کے مظاہرے طویل عرصے بعد یا غالباً کبھی نہیں دیکھے۔”

صدر بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ “امریکہ، کیوبا کی عوام کے ساتھ آفاقی حقوق کے حصول کی جدوجہد میں اُن کے ساتھ کھڑا ہے اور ہم کیوبن حکومت سے کہتے ہیں کہ وہ پر امن مظاہرین کی آواز دبانے کے لیے تشدد سے گریز کرے۔”

صدر بائیڈن روز ویلٹ روم میں ایک اجلاس میں شریک ہیں (رائٹرز)
صدر بائیڈن روز ویلٹ روم میں ایک اجلاس میں شریک ہیں (رائٹرز)

صدر نے کیوبا کی جانب سے اس دعوے کی بھی تردید کی کہ امریکہ عوام میں بدامنی پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی صدر بائیڈن کے بیان کے بعد محکمۂ خارجہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہ کیوبا کی حکومت کی یہ بہت بڑی غلطی ہو گی کہ وہ اس وقت ملک کے درجنوں شہروں اور قصبوں میں ہونے والے مظاہروں کو امریکہ کے کسی اقدام کے نتیجے کے طور پر بیان کرے۔

اس بیان سے کچھ ہی دیر پہلے پیر کو کیوبا کے وزیرِ خارجہ برونو روڈریگز پریلا نے امریکہ کے فنڈز سے چلنے والی مشنریز پر الزام عائد کیا کہ وہ بدامنی کو ہوا دے رہی ہیں۔

ان کے بقول کیوبا میں کوئی حکومت مخالف تحریک نہیں چل رہی بلکہ گزشتہ روز جو کچھ دیکھا گیا وہ ایک بدنظمی تھی، انتشار تھا اور اس کی وجہ وہ ’کمیونیکیشنل آپریشن‘ تھا جو کچھ عرصے سے تیار کیا جا رہا تھا اور جس میں دسیوں لاکھوں لوگوں نے خود کو وقف کر رکھا ہے۔

اس سے ایک روز قبل کیوبا کے صدر میگوئل ڈیاز کینال نے قومی سطح پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں اپنی کابینہ کے ساتھ کھڑے ہو کر کہا کہ سماجی بدامنی کی وجہ امریکہ کی جانب سے معاشی جبر کی حکمت عملی ہے۔

کیوبا کے صدر نے ملک کے اندر نام نہاد ’انقلابی‘ شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ حکومت مخالف مظاہروں کا جواب دیں۔

کیوبا میں مظاہرے کیوں ہوئے؟

اتوار کو کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں مظاہرین آزادی اور اتحاد کے مطالبات پر مبنی نعرے لگا رہے تھے کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کر کے کچھ افراد کو گرفتار کر لیا۔

مظاہرین ملک میں کرونا وبا کے باعث پیش آنے والی مشکلات، خوراک اور ادویات کی قلت اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔

پولیس ہوانا میں کیپیٹل بلڈنگ کی حفاظت پر مامور ہے (ایسوسی ایٹڈ پریس)
پولیس ہوانا میں کیپیٹل بلڈنگ کی حفاظت پر مامور ہے (ایسوسی ایٹڈ پریس)

کیوبا میں 1959 کے بعد سے ہی کمیونسٹ طرزِ حکومت قائم ہے جب سابق صدر فیڈل کاسترو نے اقتدار سنبھالا تھا۔

امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے ریاست ٹیکساس سے رکن ری پبلکن رہنما ٹیڈ کروز نے کہا ہے کہ کیوبا کی حکومت نے کئی نسلوں پر ظلم و ستم کیا ہے اور ان کی آزادی سے انکار کیا ہے جس کے سبب کئی خاندان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا مار دیے گئے۔ اور آئندہ دنوں میں بہادر مظاہرین کو دبانے کے لیے تشدد کا دائرہ وسیع ہونے جا رہا ہے۔

ایک اور ری پبلکن رہنما مارکو روبیو نے صدر جو بائیڈن پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ انہوں نے مظاہرین کو تسلیم کرنے میں پورا ایک دن لیا۔

ری پبلکن سینیٹر لنزی گراہم نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’ صدر بائیڈن، کیوبا میں آزادی کو اب آپ کی ضرورت ہے۔‘

ہاؤس اسپیکر، ڈیمو کریٹ رہنما نینسی پلوسی نے بھی ایک ٹوئٹ میں کیوبا کے مظاہرین کے لیے حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’کیوبا کے عوام کی جانب سے آزادی اور بنیادی حق کا مطالبہ پرامن طریقے سے سڑکوں پر آ رہا ہے اور مظاہرین بڑے حوصلے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘

یورپین یونین کے چوٹی کے سفارت کار نے بھی پیر کے روز اپنے بیان میں کیوبا کے عوام کی جانب سے مظاہرے کے حق کی حمایت کی اور کیوبا کی حکومت پر زور دیا کہ وہ مظاہرین کے تحفظات کو سنے۔

جوزف بوریل نے برسلز میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ یہ ایسا مظاہرہ ہے جس میں اس سطح کے عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے جو 1994 کے بعد نظر نہیں آیا۔

امریکہ میں کمیونزم کے خلاف اور کیوبا کے مظاہرین کے حق میں مظاہرے

اسی اثنا میں کیوبا سے بنیادی تعلق رکھنے والے امریکی شہری پیر کو میامی میں لٹل ہوانا نامی ریسٹورنٹ کے باہر جمع ہوئے تاکہ کیوبا میں جاری مظاہروں کے شرکا کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کر سکیں۔

اتوار کو تقریباً پانچ ہزار افراد نے ورسیلیز ریسٹورنٹ کے سامنے مظاہرہ کیا۔ یہ جگہ بھی کیوبا سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی آمدو رفت کے لیے مشہور ہے۔ مظاہرین نے کیوبا اور امریکہ کے جھنڈے لہرائے اور کیوبا میں کمیونزم کے خاتمے کے نعرے لگائے۔

مظاہرین اتوار کو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں بھی کیوبا کے سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments