13 جولائی 1931: جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار


مہاراجہ ہری سنگھ نے 1925 ءمیں ریاست جموں وکشمیرکی باگ ڈور سنبھالی۔ ہری سنگھ کشمیری مسلمانوں سے ناروا سلوک کرنے کے علاوہ ہندوؤں برہمنوں کو بھی ناپسند کرتا تھا۔ کشمیری عوام سخت مصائب کا شکار تھے۔ ریاست میں مسلمانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے عملی طور پر بند تھے۔ کشمیری عوام کی حالت زار پر احتجاج کرتے ہوئے ریاستی وزیر اعظم بینرجی بھی مستعفی ہو گئے۔ ریاست میں سیاسی سرگرمیوں پر کڑی پابندیاں عائد تھیں۔ پوری ریاست میں کوئی اخبار شائع نہیں ہوتا تھا ’حکومت کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں تھا‘ انتظامی کارکردگی ناگفتہ بہ تھی۔ ان حالات میں وادی کشمیر کے بہادر عوام نے مہاراجہ ہری سنگھ کے مستبد اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔

ہم نے شہر کے اطراف و اکناف میں جلسے کرنے شروع کر دیے جن میں ہزارہا مرد و زن شریک ہوا کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ صدیوں کی غلامی کے بعد ایک سوئی ہوئی قوم کسی مست ہاتھی کی طرح جھومتی ہوئی اٹھی ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ (جو تفریح کے ضمن میں بیرون ملک تھے ) ولایت سے لو ٹ کر آئے تو انہوں نے ایک بیان جاری کیا جس میں ڈھکے چھپے انداز میں پولیس اور عدالت کے استعمال کا اشارہ دیا گیا تھا۔ تاہم مہاراجہ نے سیاسی معاملات کے وزیر ویک فیلڈ کے مشورہ پر ریاستی مسلمانوں کا ایک نمائندہ وفد طلب کیا جو ان کے پاس اپنی شکایات اور مطالبات پیش کرے۔ جموں کے مسلمانوں کی طرف سے وہاں کی ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن نے درج ذیل چار افراد کو اپنے نمائندوں کے طور پر نامزد کیا۔ ( 1 ) مستری یعقوب علی ( 2 ) سردار گوہر رحمان ( 3 ) چودھری غلام عباس خان ( 4 ) شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ۔

جموں کے مسلمان نمائندگان کا انتخاب ایک چھوٹے سے اجلاس میں ہوا تھا۔ لیکن ہم نے وادی کشمیر میں اس انتخاب کو رائے عامہ بیدار کرنے اور عوامی قوت کے اظہار کا مناسب موقع سمجھا۔ میں چاہتا تھا کہ کشمیر کے سات نمائندگان کو ایک بھرے جلسے میں عوام خود چن لیں۔ اس طرح ایک طرف ان افراد کی نمائندہ حیثیت شک و شبہ سے بالاتر ہو جائے گی اور دوسری طرف حکومت بھی ان کی آواز کے وزن اور وقار کو نظرانداز نہ کر سکے گی۔ خوش قسمتی سے میرے دوسرے ساتھی بھی مجھ سے متفق تھے۔

21 جون 1931 ءکو ہماری دعوت پر لبیک کہتے ہوئے فرزندانِ کشمیر کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر خانقاہِ معلی کے صحنِ پاک میں جمع ہوا۔ اس اجتماع کو کشمیر کی تحریکِ آزادی کا رسمی افتتاح اور حقیقی آغاز سمجھنا چاہیے۔ کتنی موزوں اور برمحل بات تھی کہ تحریکِ آزادی کی بنیاد اس خانقاہِ فیض پناہ کے پُرسطوت کنگروں کے سائے میں رکھی جائے جو امیرِ کبیر میر سید علی ہمدانی شاہ ہمدانؒ کے نام سے منسوب ہے جنہیں علامہ اقبال نے ”جاوید نامہ“ میں کشمیر کی آزادی کا نشان قرار دیا تھا۔

اس عظیم اجتماع کے سامنے اسٹیج پر کشمیری مسلمانوں کے نمائندے برسوں کے افتراق و انتشار کے بعد گلے مل رہے تھے۔ تلاوت کلامِ پاک کے بعد میں نے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ اپنی تقدیر کو بدلنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب غفلت کا زمانہ گزر گیا۔ اب یا تو ہم اپناحق حاصل کر کے دم لیں گے یا اس جدوجہد میں سربکف ہو کر جان کی بازی لگا دی گے۔ جب مجمع ملّی اور قومی نعروں سے گونج اٹھا تو میں نے سات نمائندوں کے نام ایک ایک کر کے جمہور کی منظوری کے لئے پیشکیے اور عوام فلک شگاف نعروں سے ان کی تائید کرتے گئے۔ اس طرح سے مندرجہ ذیل عمائدین مسلمانانِ کشمیر کے معتبر نمائندوں کی حیثیت سے چن لئے گئے۔ ( 1 ) میر واعظ مولوی یوسف شاہ ( 2 ) میر واعظ احمد اللہ ہمدانی ( 3 ) آغا سید حسین جلالی ( 4 ) خواجہ غلام احمد عشائی ( 5 ) منشی شہاب الدین ( 6 ) خواجہ سعدالدین شال ( 7 ) راقم الحروف شیخ محمد عبداللہ۔

جلسہ ختم ہوا تو عوام کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا۔ نمائندگان اور منتظمین قریب ہی واقع ہمدانیہ مڈل سکول میں چائے نوشی اور گفتگو کے لئے چلے گئے۔ ہمیں کیامعلوم تھاکہ ہمارے پیچھے ایک ایسی چنگاری بھڑکے گی جو کشمیر کے صدیوں سے پکنے والے جوالا مکھی کا دہانہ کھول دے گی۔

عبدالقدیر نامی ایک غیر معروف شخص نے بارود کے اس ڈھیر کو چنگاری دکھائی۔ پشاور میں تعینات یارک شائر رجمنٹ کا انگریز میجر تعطیل منانے کے لئے آیاہوا تھا اور اس نے نسیم باغ میں ایک ہاؤس بوٹ میں رہائش اختیار کی تھی۔ عبدالقدیر اس میجرکے ساتھ خانساماں کی حیثیت سے کشمیر آیا تھا۔ عبدالقدیر فرصت کے اوقات میں ہمارے جلسوں وغیرہ میں بھی شرکت کرتا تھا۔ یہیں اسے مسلمانوں کی حالتِ زار نے متاثر کیا۔ عبدالقدیر درگاہ حضرت بل میں نماز کے لئے آیا کرتا اور کبھی کبھی نماز کے بعدوہاں مسلمانوں کی مظلومیت کے بارے میں تقریریں بھی کرتا تھا۔

 اس دن سے کچھ ہفتے قبل وہ جامع مسجد کے ایک جلسے میں مجھ سے ملا تھا اور اس نے ہماری تحریک سے گہری وابستگی کا اظہار کیا تھا۔ میں نے ایک ان پڑھ غیر ریاستی باشندے کے اس جذبے کی تعریف بھی کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ خانقاہِ معلی کے اس جلسے میں وہ بھی موجود تھا۔ جب ہم چائے نوشی کے لئے چلے گئے ’تو اس نے اپنا دفتر کھول دیا چونکہ عوام جوش کے عالم میں تھے لہذا اس کے اردگرد ایک جھرمٹ لگ گیا۔ اس کی تقریر کی رپورٹ سرکار کی سی۔ آئی۔ ڈی نے یوں قلم بند کی ہے۔

 ”مسلمانو! اب وقت آگیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے یادداشتوں اور گذارشوں سے ظلم و ستم میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور نہ توہینِ قرآن کا مسئلہ حل ہو گا۔ تم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ اور ظلم کے خلاف لڑو۔ عبدالقدیر نے راج محل کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دو“۔

کچھ دن بعد افواہ پھیلی کہ شہر میں گرفتاریاں ہونے والی ہیں۔ ہم سمجھے کہ شاید ہمیں گرفتار کیا جائے گا۔ اس لئے میں ’مولوی عبدالرحیم اور خواجہ غلام نبی گلکار رات کو ایک پڑوسی کے مکان میں شب باشی کے لئے چلے گئے۔ صبح معلوم ہوا کہ پولیس نسیم باغ کے ایک ہاؤس بوٹ سے کسی عبدالقدیر کو گرفتار کر کے لے گئی ہے اس وقت تو ہم اس کے بارے میں بہت کم جانتے تھے۔ لیکن بعد میں اس معاملے کی تفصیلات سے آگاہی ہوئی۔ عبدالقدیر کے خلاف رنبیرپینل کوڈ کی دفعہ 124 (الف) اور 153 کے تحت بغاوت اور غداری کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔

 چونکہ اس کو ہمار ی تحریک سے ہمدردی کی پاداش میں دھر لیا گیا تھا اس لئے ہم نے مقدمے کی پیروی کا فیصلہ کر لیا۔ ابتدائی طور پر تو اسے سنٹرل جیل سے پیدل سیشن جج پنڈت کشن لال کچلو کی عدالت میں سماعت کے لئے ہانکا جاتا تھا۔ لیکن جب لوگ اس کے اردگرد جمع ہونے لگے تو حکومت نے سنٹرل جیل ہی میں مقدمے کی سماعت کا حکم صادر کیا۔

ادھر ہمارے جلسوں کا سلسلہ جاری تھا۔ 12 جولائی 1931 ءکو گاؤ کدل میں ایک بڑا عوامی جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں میرے علاوہ مولوی عبدالرحیم اور گلکار صاحب نے بھی تقریریں کیں۔ ہم نے عبدالقدیر کے مقدمے کی بند کوٹھری میں سماعت کرنے کی مذمت کی اور عوام کو قربانیوں کے لئے تیار رہنے کی تلقین کی۔ جلسہ آدھی رات تک جاری رہا اور ہم تھکے ماندے گھروں کو لوٹے ہمیں کیا معلوم تھا کہ دوسرے دن کشمیر کی پیاسی دھرتی پر ہمارے نوجوانوں کے لال لال لہو کی گرم دھارا صبح کے شفق کی طرح پھوٹ نکلے گی اور ہماری تقدیر کا ایک نیا عنوان جیالے کشمیری سپوتوں کے مقدس خون سے رقم ہو گا۔

 ہمیں کیا معلوم تھا کہ عبدالقدیر کی نسبت سے یہ خونیں واقعہ ہماری تحریک آزادی کے سوکھے چراغ میں طلسمانی روغن ڈال دینے کا باعث بنے گا۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہم تحریک کی ابتدا ہی میں اس خونیں موڑ پر پہنچ جائیں گے جہاں پہنچنے کے لئے ہندوستان کی تحریکِ آزادی کو بیسوں برس انتظار کرنا پڑا۔ 13 جولائی 1931 ء کا حادثہ ہماری تحریک میں وہی اہمیت رکھتا ہے جو ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ میں 1919 ءمیں رونما ہونے والا جلیانوالہ باغ کا سانحہ رکھتا ہے۔

ہم نے گاؤکدل کے جلسے میں عوام سے درخواست کی تھی کہ وہ دوسرے روز یعنی 13 جولائی 1931 ءکو سنٹرل جیل نہ جائیں جہاں عبدالقدیر کے مقدمے کی پیشی مقرر تھی۔ جیل میں اجازت کے بغیر کسی کا داخلہ ممنوع تھا اور ہم خون خرابے کو روکنے کے حق میں تھے۔ لیکن یا تو سبھی لوگوں تک ہماری بات نہیں پہنچی یا جذبات اس قدر مشتعل تھے کہ اٹھے ہوئے قدم نہ رک سکے۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ لوگوں کو سید مقبول بیہقی ’سید محی الدین اندرابی اور محمد یحییٰ رفیقی نے وہاں جانے کی ترغیب دی تھی۔

 ہم نے مولوی عبداللہ وکیل کو عبدالقدیر کا وکیل صفائی مقرر کیا تھا۔ جب 13 جولائی کو مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو عدالت کے باہر ہزاروں کا جمگھٹا لگ گیا جو عبدالقدیر زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ جونہی وکیل صفائی مولوی عبداللہ وکیل جیل کے اندر جانے لگے تو عوام کا ایک ریلا ان کے ساتھ اندر گھس گیا جیل کے حکام کی سٹی گم ہو گئی۔ لیکن وکیل صفائی نے ہماری ہدایات کے پیش نظر لوگوں کو سمجھا بجھا کر جیل کے احاطے سے باہر جانے پر راضی کر لیا۔

 انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ ان میں چند آدمیوں کو عدالت کی کارروائی سننے کے لئے اندر بلایا جائے گا۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا اور لوگ باغ میں نماز ادا کرنے کے لئے صفیں باندھنے لگے۔ اسی دوران جیل کے اہلکاروں نے گورنر رائے زادہ ترلوک چند کو معاملے کی اطلاع کر دی اور وہ مسلح پولیس کے ایک دستے کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔ پہلے تو اس نے جیل کے ملازموں کواس بات پرلتاڑا کہ انہوں نے ہجوم کو جیل میں گھسنے کیوں دیا۔

 اس کے بعد اس نے جیل کے باہر کھڑے پُرامن لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ پولیس نے اندھا دھند گرفتاریاں شروع کر دیں تو ہجوم بھی طیش میں آگیا۔ اور اس نے جواب میں پتھراؤ شروع کر دیا۔ گورنر نے اپنی کوتاہ اندیشی میں پولیس کو گولی چلانے کا حکم دیا۔ بندوقوں کے دہانے ان لوگوں کی طرف کر دیے گئے جو باغ میں نماز کے لئے صف بستہ تھے۔ ایک مسلمان دیوار کی بلندی سے اذان دے رہا تھا۔ پولیس کی گولی سے وہیں ڈھیر ہو گیا۔

 جوش و جنون کا یہ عالم تھا کہ اس کی جگہ فوراً دوسرے آدمی نے لی اور وہ اذان کو جاری رکھنے لگا۔ اس کا سینہ بھی بھون ڈالا گیا۔ اس طرح بائیس سرفروش جامِ شہادت نوش کر گئے۔ زخمیوں کی تعداد تو سینکڑوں تھی۔ ظالم کا ہاتھ اس سفاکی سے اٹھا تو مظلوم بھی مرنے مارنے پر تل گئے۔ انہوں نے جیل کی پولیس لائن میں آگ لگا دی اور اس کا ساز و سامان خاکستر کر ڈالا۔ انہوں نے ایک شہید کا کرتا اٹھا لیا‘ جو اس کے خونِ ناحق سے نقشِ فریادی بنا ہوا تھا ’اور اس خونیں پرچم کے نیچے زخمیوں اور شہداءکو چارپائیوں پرلٹا کر شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ شہدائے کشمیر کی سرخ روئی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ مسٹر ویک فیلڈ نے بعد میں اعتراف کیا کہ ”سارے شہیدوں کے زخم ان کے سینوں پر تھے پشت پر نہیں“۔

میں ان دنوں فتح کدل والے کمرے نواب بازار کے ایک مکان میں آ گیا تھا۔ ایک نوجوان ہانپتے کانپتے میرے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ بے حد خوف زدہ تھا۔ اس لئے اس کے بیان میں ربط نہ تھا۔ اس نے کہا کہ جیل میں ”مارشل لائ“ ہو گیا ہے اور گولیوں سے بہت آدمی مارے گئے ہیں۔ میں نے پہلے یہ خیال کیا کہ یہ نوجوان مارشل لاء کے مفہوم سے ناواقف ہے۔ ممکن ہے جیل میں کچھ گرفتاریاں ہوئی ہوں جن کو یہ مارشل لاءکا نام دے رہا ہے۔ لیکن جب نوجوان تھوڑا سا سنبھل گیا تو اس نے یہ اطلاع دی کہ عوام کا ہجوم لاشوں اور زخمیوں کو لے کر ایک جلوس کی صورت میں شہر کی طرف آرہا ہے۔

 اس خبرسے مجھے سخت تشویش پیدا ہو گئی۔ ایک تو قیمتی جانوں کے اتلاف کا صدمہ تھا۔ دوسرے یہ فکر تھی کہ کہیں معاملہ بگڑ کر فرقہ وارانہ فساد کی صورت اختیار نہ کرے۔ مولوی عبدالرحیم اتفاق سے میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان کو فوراً یہ ہدایت دے کر روانہ کر دیاکہ وہ عوام کو جامع مسجد سے آگے نہ بڑھنے دیں۔ اور شہداءکے جسد اور زخمیوں کو جامع مسجدہی میں روکے رکھیں۔ تھوڑی دیر بعد مولوی عبدالرحیم واپس آگئے۔

 ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ لوگوں کو سمجھانے بجھانے کی ان کی تمام کوششیں اکارت گئی تھیں۔ اور لوگ زخمیوں کو لے کر مہاراج گنج کے شفاخانے کی طرف چل پڑے تھے۔ مولوی صاحب نے یہ خبر دی کہ لوگ سخت مشتعل ہیں اور زینہ کدل و بہوی کدل میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ یہ دہشت انگیز خبر سن کر میں خود بھی جائے واردات کی طرف چل پڑا۔ پوچھ گچھ سے پتہ چلا کہ لوٹ مار کی بنیادی وجہ یہ ہوئی کہ چند مسلمان ایک شہید کا جسد لے کر اس کے مکان واقع وازہ پورہ کی طرف جا رہے تھے اور ایک زخمی کو دوسری چارپائی پر طبی امداد کے لئے مہاراج گنج ہسپتال لا رہے تھے۔

 جب یہ مہاراج گنج پہنچے تو پنجاب کے ہندو دکانداروں نے ’جو مہاراج گنج میں بیٹھ کر کشمیر کی ساری تجارت پر پنجہ جمائے ہوئے تھے‘ ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تھا۔ جب غمزدہ مسلمانوں نے کھتری دکانداروں کو انسانی ہمدردی کے طور پر اس خونِ ناحق پر دکان بند کرنے کو کہا تو ان سیٹھ ساہوکاروں نے دلاسا دینے کی بجائے انہیں کوسنا شروع کر دیا۔ اس پر تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ چند مسلمانوں نے کچھ ہندو دکانداروں پر ہلہ بول دیا اور ان کا مال و اسباب ادھر ادھر پھینک ڈالا۔ ان مواقع پر بدمعاشوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے فائدہ اٹھا کر لوٹ کا مال اپنے گھروں میں چھپالیا مگر جب حالات معمول پر آگئے تو پولیس کی تلاشی کے دوران نہ صرف یہ مال برآمد کیا گیا بلکہ ان کے ذاتی اثاثوں پر بھی ہاتھ صاف کر لیا گیا۔

جامع مسجد پہنچ کر میں نے قتلِ عام کا یہ سفاکانہ منظر دیکھا تو میرے آنسو چھلک پڑے۔ لیکن یہ گریہ و زاری کا موقع نہ تھا۔ میں نے شہداءکی لاشوں کو ایک قطار میں چارپائیوں پر رکھوایا۔ ہماری کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ زخمیوں کی مرہم پٹی کے لئے کوئی وسیلہ بہم نہ تھا۔ حکومت ان کی خبرگیری کی بجائے اپنی سنگ دلی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ ادھر ہم زخمیوں کی دیکھ بھال کی تدابیر کر رہے تھے ادھر حکومت نے رسالہ فوج کا ایک دستہ مہاراج گنج کی طرف روانہ کیا۔

 نیزوں سے مسلح گھوڑ سوار سپاہیوں نے مارپیٹ اور بے حرمتی کا طوفانِ بد تمیزی برپا کردیا اور مسلمانوں کی دھڑا دھڑ گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ کسی نہ کسی طرح نمائندگان میں سے چند اصحاب جامع مسجد پہنچ گئے۔ جن میں میرواعظ محمد یوسف شاہ ’خواجہ غلام احمد عشائی اور خواجہ سعد الدین شال شامل تھے۔ جامع مسجد کے اندر چاروں طرف آہ وبکا کا شور برپا تھا۔ شہیدوں اور زخمیوں کے عزیز و اقارب ان کی چارپائیوں کے اردگرد دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔

 اور ہم بہ صد جبر اپنے دل کے زخموں کو چھپائے ان کو دلاسا دے رہے تھے۔ اتنے میں ایک زخمی نے‘ جو جان کنی کی حالت میں تھا ’مجھے اشارے سے اپنے پاس بلا لیا۔ اور اپنی نحیف آواز میں مجھ سے یوں مخاطب ہوا ”شیخ صاحب! ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ہے‘ اب آپ کی ذمہ داری ہے ’قوم سے کہئے کہ وہ اپنا فرض نہ بھولے“۔ یہ الفاظ اداکرتے ہی اس نے آخری ہچکی لی اور جان‘ جان آفرین کے سپرد کر دی۔ کچھ دیر کے بعد نواب خسرو جنگ فوجی وردی زیب تنکیے ہوئے جامع مسجد میں آئے۔

 ان کے چہرے پر پشیمانی تھی۔ لیکن جب انہوں نے ہمیں بہلانے کے لئے زبان کھولی تو میں نے شہداءکی خون سے لت پت لاشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اس قتل عام کے بعد محض زبانی جمع خرچ سے مسلمانوں کے دلوں پر پھاہا رکھنامشکل ہے۔ ہم ان شہداءکے خون کا بدلہ لے کر رہیں گے اور قوم کے کھوئے ہوئے حقوق کی جو امانت شہداء نے ہمارے سپرد کی ہے اس کو واپس حاصل کر کے ہی دم لیں گے۔

(شیخ عبداللہ کی خود نوشت آتش چنار سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments