نِسان کے مالک جاپانی قید سے ڈبے میں چھپ کر بیروت کیسے پہنچے؟ اپنے ڈرامائی فرار پر ان کا پہلا بیان

ڈیئربیل جورڈن اور سائمن جیک - نامہ نگار برائے کاروبار، بی بی سی نیوز


کارلوس اور اہلیہ

سنہ 2019 میں دسمبر کی ایک سرد رات ساڑھے دس بجے گاڑیوں کی ایک معروف کمپنی کے سابق سربراہ ایک طیارے میں موجود ڈبے میں بند تھے اور جاپان سے فرار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔

گاڑیوں کی معروف کمپنی نسان کے سابق سربراہ کارلوس غصن یاد کرتے ہیں کہ ’طیارے نے رات 11 بجے اڑان بھرنا تھی۔‘

’30 منٹ سے میں طیارے میں اس ڈبے کے اندر بند تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ یہ طیارہ کب اڑان بھرے گا۔ یہ میری زندگی میں انتظار کی سب سے طویل گھڑی تھی۔‘

اب پہلی بار نسان اور رینالٹ کمپنیوں کی سابق سربراہ نے اپنے پُر خطر فرار کے بارے میں بات کی ہے۔

بی بی سی کو دیے خصوصی انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ٹوکیو کی گلیوں میں اپنی پہچان خفیہ رکھنے کے لیے بھیس بدلا ہوا تھا۔

انھیں جاپان سے باہر سمگل کرنے کے لیے موسیقی کے آلات کے ایک بڑے ڈبے کا انتخاب کیا گیا اور جب وہ اپنے آبائی ملک لبنان داخل ہوئے تو انھوں نے کافی پُرسکون محسوس کیا۔

’بڑی بات یہ تھی کہ اب میں آخرکار اپنی کہانی بیان کر سکوں گا۔‘

نومبر 2018 میں کارلوس غصن کو اپنی سالانہ تنخواہ کم بتانے اور کمپنی کے فنڈ کا غلط استعمال کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب کارلوس جاپان کی بڑی کار کمپنی کے چیئرمین تھے۔ وہ فرانس میں رینالٹ کمپنی کے بھی چیئرمین تھے اس کے ساتھ وہ نسان، رینالٹ اور مٹسوبشی کے اشتراک کی سربراہی کر رہے تھے۔

انھوں نے کمپنی میں اخراجات کم کرنے کی کوشش کی جو شروع میں متنازع ہوا لیکن بعد میں یہ سمجھا گیا کہ اس نے کمپنی کو بچا لیا ہے۔ انھیں انتہائی قابل احترام شخصیت تصور کیا جاتا تھا۔

فرانسیسی کمپنی رینالٹ آج بھی اس جاپانی کمپنی کی 43 فیصد ملکیت رکھتی ہے۔ کارلوس کا خیال ہے کہ وہ رینالٹ اور نسان کی آپسی لڑائی کا شکار ہوئے جس میں رینالٹ کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے نسان نے جوابی اقدامات کیے۔

اس حوالے سے ایک شو بی بی سی فور پر 14 جولائی کو نشر ہوگا جس کا عنوان ’کارلوس غصن: دی لاسٹ فائٹ‘ہے۔

ڈبہ

’پریشانی اور شدید صدمہ‘

تین سال قبل ٹوکیو ائیر پورٹ پر اپنی گرفتاری کا لمحہ بیان کرتے ہوئے کارلوس کہتے ہیں کہ ’یہ ایسا تھا جیسے آپ کو کسی بس نے کچل دیا ہو یا آپ بہت بڑے صدمے سے گزرے ہوں۔ میری واحد یادداشت پریشانی اور شدید صدمے کی ہے۔‘

کارلوس کو ٹوکیو کے حراستی مرکز لے جایا گیا جہاں انھیں قیدیوں کا لباس دے کر ایک قید خانے میں بند کردیا گیا۔ ’اچانک مجھے اپنی گھڑی، کمپیوٹر، ٹیلی فون، نیوز اور قلم کے بغیر زندگی سیکھنا تھی۔‘

ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے کارلوس کو حراست میں طویل عرصہ گزارنا پڑا اور انھیں ضمانت کے بعد ٹوکیو میں اپنے گھر میں قید رکھا گیا۔ یہ واضح نہیں تھا کہ ان پر مقدمہ کب شروع ہوگا۔ خدشہ تھا کہ اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ جاپان جیسا ملک جہاں سزاؤں کا تناسب 99.4 فیصد ہے یہاں کارلوس کو سزا کی صورت میں 15 سال قید ہوسکتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

کارلوس غصن کے لیے انٹرپول کے ریڈ نوٹس جاری

غصن کے فرار کا سفر ’بلٹ ٹرین پر شروع ہوا‘

امریکی باپ بیٹے نے کارلوس غصن کے فرار میں اپنا کردار تسلیم کر لیا

کارلوس غصن جاپان سے کس طرح فرار ہوئے؟

گھر میں قید کے دوران کارلوس کو بتایا گیا کہ وہ اب اپنی اہلیہ کیرل کے ساتھ رابطہ نہیں رکھ سکیں گے۔ اس وقت انھوں نے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔

’منصوبہ یہ تھا کہ میں اپنا چہرہ نہیں دکھا پاؤں گا تو مجھے کہیں چھپنا ہوگا۔ چھپے رہنے کے لیے مجھے ایک ڈبے کی ضرورت تھی، جیسے سامان کا بیگ جس میں کوئی مجھے دیکھ نہ سکے۔ اگر کوئی مجھے پہچان نہ سکے تو یہ منصوبہ کام کر سکتا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ موسیقی کے آلات کا بڑا ڈبہ ’ایک سمجھدار فیصلہ تھا۔ خاص کر ایسے وقت میں جب جاپان میں کئی کنسرٹ ہو رہے تھے۔‘

لیکن جاپان میں ایک معروف، اور اب بدنام، شخص دارالحکومت میں اپنے گھر سے ایئر پورٹ جا کر کیسے فرار ہوسکتا تھا؟

کارلوس کے مطابق منصوبے کے تحت انھیں معمول کے مطابق اپنا دن گزارنا تھا۔ ’یہ عام دن ہوگا جب میں عام کپڑوں میں چہل قدمی کروں گا۔ عام رویہ رکھوں گا اور پھر اچانک سب بدل جائے گا۔‘

کئی برسوں تک دنیا کی ایک بڑی کار کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے سوٹ پہننے والے کارلوس کو اب کچھ سادہ کپڑے جیسے جینز اور جوگر پہننا تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مجھے ایسی جگہ جانا تھا جہاں میں پہلے کبھی نہیں گیا تھا۔ ایسے کپڑے خریدنا تھے جو پہلے کبھی نہیں خریدے۔‘

’یہ سب کرنے سے میں اپنی کامیابی کے لیے زیادہ سے زیادہ امکان پیدا کرسکتا تھا اور اپنے اوپر سے توجہ ہٹا سکتا تھا۔‘

’یہ موقع جانے دیا تو زندگی کی بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی‘

کارلوس ٹوکیو سے اوساکا ایک بلٹ ٹرین میں گئے جہاں ایک نجی طیارہ مقامی ایئر پورٹ پر ان کا انتظار کر رہا تھا۔ لیکن پہلے وہ اس قریبی ہوٹل گئے جہاں یہ ڈبہ ان کا منتظر تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ ڈبے میں داخل ہوجائیں تو آپ ماضی یا مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتے۔ آپ صرف اس لمحے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔‘

ویڈیو

’آپ خوفزدہ نہیں ہوتے۔ آپ کسی جذباتی کیفیت سے نہیں گزرتے بلکہ آپ کا دھیان اس بات پر مرکوز ہوتا ہے کہ ’یہ آپ کا واحد موقع ہے جسے آپ کھو نہیں سکتے۔ اگر آپ نے اسے کھو دیا تو زندگی کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ جاپان میں یرغمال بن کر رہنا ہوگا‘۔‘

مائیکل اور پیٹر ٹیلر نامی دو لوگوں نے کارلوس کو ہوٹل سے ایئر پورٹ منتقل کیا جو موسیقار بنے ہوئے تھے۔

کارلوس یاد کرتے ہیں کہ وہ اس ڈبے میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک رہے جبکہ انھیں ایسا محسوس ہوا کہ ’یہ ایک آدھ دن تھا۔‘

جب اس نجی طیارے نے اڑان بھری تو کارلوس کو معلوم ہوگیا کہ اب وہ قید سے آزاد ہیں۔ انھوں نے رات بھر سفر کیا اور ترکی میں طیارہ تبدیل کر لیا جس کے بعد اگلی صبح وہ بیروت اترے۔

لبنان اور جاپان کے درمیان قیدیوں کی واپسی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کی وجہ سے کارلوس کو وہاں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔

تاہم جاپان نے امریکی شہریوں مائیکل ٹیلر اور ان کے بیٹے پیٹر کو امریکہ کے حوالے کر دیا ہے جہاں انھیں کارلوس کی مدد کرنے کی وجہ سے تین سال قید کا سامنا ہے۔

نسان میں کارلوس کے سابق ساتھی گریگ کیلی کو بھی سزا کا سامنا ہے جو ٹوکیو میں فی الحال گھر میں قید ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے سابق باس کی آمدن چھپانے میں مدد کی مگر وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔

جاپان میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ کیا ہوا؟

کارلوس کا کہنا ہے کہ ’مجھے بتایا گیا کہ (گریگ کیلی کا) مقدمہ رواں سال کے اواخر میں ختم ہوجائے گا۔ خدا جانتا ہے اس مقدمے کے نتائج کیا ہوں گے۔ جیسا میں نے کہا یہ بوگس وجوہات ہیں۔‘

’میں جاپان میں ان سب لوگوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہوں جو نظام انصاف میں یرغمال بنائے جانے کے متاثرین ہیں۔‘

دوراندیش مگر انا پرست سربراہ

بزنس ایڈیٹر سائمن جیک کا تبصرہ:

یہ لبنان اور برازیل سے تعلق رکھنے والے اس عالمی شہرت یافتہ انسان کی کہانی ہے جو اپنی تجدید، دور اندیشی اور انا پرستی کے ساتھ اس شعبے میں ایک باہر کا شخص ہے۔

وہ اس صنعت کے سربراہ کے بجائے ملک کے سربراہ جیسی زندگی گزارتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی 60ویں سالگرہ کے موقع پر ایک شاہانہ پارٹی میں انھوں نے اپنی عدالت سجائی جس میں ویٹروں کے عملے نے انقلابیوں جیسے کپڑے پہن رکھے تھے۔

رینالٹ اور نسان کے اس سابق سربراہ کو ان کمپنیوں کے لوگ ناپسند کرتے تھے۔ نسان میں لوگوں کو خدشہ تھا کہ وہ روایتی جاپانی کاروبار میں مداخلت کریں گے۔ جبکہ رینالٹ میں کچھ لوگ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ وہ پیرس کے جریدوں میں نظر آتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے تھے۔

کسی بھی بڑی کمپنی کے سربراہ کو سیاسی معاملات میں حساس رہنا ہوتا ہے۔ کارلوس نے نسان میں قریب 20 سال گزارے مگر ٹوکیو میں وہ اپنی گرفتاری پر حیران تھے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان اداروں سے رابطہ کھو چکے تھے جنھیں وہ قریب لانا چاہتے تھے۔

ان کی زندگی میں کارپوریٹ اور عالمی سیاست کے ساتھ ایک پُر خطر فرار شامل ہے جس پر ہالی وڈ کی فلم بن سکتی ہے۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور وکلا کی مدد سے وہ خود پر لگے الزامات کے خلاف لڑیں گے۔

تب تک وہ جلاوطنی میں زندگی گزاریں گے جہاں بیروت میں ان کی رہائش کے باہر مسلح گارڈ تعینات رہتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp