ملالہ آپ ہماری ہیرو نہیں!


ایک نوعمر بچی بندوق بردار دہشتگردوں کے خلاف ڈٹ گئی، للکارنے لگی، اپنے مشن پر یک زبان ہو گئی، مزاحمت کا استعارہ بن گئی اسے پوری دنیا میں پذیرائی ملی۔ اقوام عالم نے اسے جرات و بہادری کی علامت کے طور پر تسلیم کیا، اس کی ہمت، بہادری اور دلیری کے سامنے سر خم ہو گئے۔ اعزازات و تسلیمات کی برسات ہوئی، حتیٰ کہ نوبل انعام سے بھی نوازی گئی۔ پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہوا، ملک اس کے نام سے پہچانا گیا۔

وہ جہاں بھی گئی دوپٹہ سر پر سجائے رکھا، دنیا کے بڑے بڑے لیڈران ان کے ساتھ ایک نشست کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں، لیکن، اپنے ہی ملک میں ایک مخصوص جتھے کی طرف سے نفرت کی چیخ و پکار میں محبت کے پھول کہیں نیچے دب گئے۔

حالیہ دنوں میں پنجاب میں آکسفورڈ کے معاشرتی علوم میں ساتویں کلاس کے کتاب میں جب ملالہ یوسفزئی کی تصویر کو ہیروز آف پاکستان کے طور پر لگائی گئی تو وہ کتاب ہی ضبط کرلی گئی۔ ملالہ کو یہ پیغام بھیجا گیا کہ آپ کو ہم ہیرو تسلیم نہیں کریں گے۔

اور آخر ہم ملالہ کو ہیرو مانیں بھی تو کیوں؟

ملالہ ہم پوچھتے ہیں کہ آخر آپ نے کیا ہی کیا ہے کہ ہم تمہیں ہیرو تسلیم کر لیں۔ اور ہم خود نے جو تیر مارے ہیں ان کارستانیوں کا ذکر تو خیر رہنے ہی دیں۔ ملالہ آپ بتائیں آپ نے کیا تیر مار لئے۔

ملالہ، ہاں آپ پوری دنیا کے لوگوں کو، ان کے لیڈران، مشیران، کو تو مرعوب کر سکتی ہو، لیکن ہم آپ سے مرعوب ہونے والے نہیں۔ ہاں، یہ ایک الگ بات ہے کہ ہمارے ہیرو ماننے یا نہ ماننے سے آپ کی صحت پر اثر کوئی نہیں پڑنے والا۔

ملالہ، خبر ملی تھی کہ آپ جب پندرہ سال کی تھی تب ہی آپ کو اس فانی دنیا سے معدوم کرنے کے لئے نشانہ بنایا گیا تھا، یہ بھی پتا لگا کہ اس سے پہلے بھی آپ مسلسل دہشتگردوں کو للکارتی رہیں۔

لیکن، شاید باقی دنیا کہ لوگ سمجھ نا پائیں ہمیں سب کچھ پتا ہے کہ آپ نے خود کو قتل کرانے کی یہ ایک انتہائی زیرک طریقے سے منصوبہ بندی کی تھی۔

ملالہ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ دنیا کے چھوٹے سے ملک پاکستان کے ایک چھوٹے سے علاقے سوات سے آپ کو امریکہ اور اسرائیل نے مشہور کرنے کی سازش کی تھی۔ ملالہ ہمیں پتا چل چکا کہ آپ سی آئی اے ایجنٹ ہیں۔ ہم کو معلوم ہیں کہ آپ مغرب کی کٹھ پتلی ہو جو سر میں بندوق کی گولی لیکر، اپنا نام اونچا کرنے کے لئے، دولت اور شہرت کے خاطر، ملک کی بدنامی کا باعث بنیں۔

ملالہ ہمیں پتا چل چکا ہے کہ مرتے مرتے بچنا بھی تمہاری سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی۔

ملالہ تم ٹی وی کی اسکرین پر نظر آتی ہو تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے، تو بولتی ہو تو ہمیں معیوب گزرتا ہے، تم ہنستی ہو تو ہمیں شدید غصہ آتا ہے۔ تم بولو مت، تمہارے بولنے سے ہم شدید فارغ، کھاتے پیتے اور پرسکون نیند سوتے لوگوں کو گویا آپ پر تنقید کرنے کا کام میسر آ جاتا ہے۔

ملالہ تم اپنے گھر واپس آتی ہو تو ہمیں گویا آگ لگ جاتی ہی، دوبارہ یہاں آنی کی غلطی سے بھی غلطی مت کرنا۔

ملالہ تم تو تعلیم بالخصوص عورتوں کی تعلیم کی بات کرتی ہو۔ تم ہماری ہیرو تو ہرگز نہیں ہو سکتی۔ اگر، تم ہماری ہیرو ہو تو بتاؤ تمہارے ہاتھ میں کلاشنکوف کہاں ہے۔ تم جہاں بھی جاتی ہو وہاں امن کی بات کیوں کرتی ہو۔ تم تو کتاب اور قلم کی تبلیغ کرتی ہو۔ خدا محفوظ رکھے ہمیں ایسی تبلیغ کی زد میں آنے سے۔ یہ جو تم سے محبت کرتے ہیں نا، جو آپ پر پھول نچھاور کرتے ہیں نا، تمہاری بات جو غور سے سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نا، وہ باقی دنیا کے لوگ ہوں گے ۔ ہمارا بھلا دنیا سے کیا تعلق۔ ہم آپ کی گمراہ کن باتوں میں آنے والے نہیں۔

اور تو اور آپ سے نوبل امن انعام لینے کا جرم بھی سرزد ہو چکا، تم بھلا ہماری ہیرو کیسے ہوئی۔ آپ سے پہلے بھی ایک شوریدہ سر نے نوبل انعام حاصل کرنے کا جرم کیا تھا، ہمارا ان کے ساتھ کیسا حسن سلوک رہا آپ ذرا وہ ہی معلوم کر لیتی۔

اور تو اور جن نے آپ کو مارنا چاہا آپ تو انہیں کی خیرخواہ بنی بیٹھی ہیں، آپ ان کے بچوں کو بھی پڑھانا چاہتی ہیں۔

آپ تو اس ملک کی عورتوں کے لئے مشعل راہ ہو، آپ اس ملک کی عورتوں کے دماغ میں تعلیم حاصل کرنے جیسا خناس بھرنے کی بھی مرتکب ہو، جواب دو آپ نے یہ جرم کیوں کیا۔

ملالہ، یہ بھی تو آپ کا جرم تھا کہ آپ ایسے شدید حملے کے باوجود بچ کیسے گئیں۔

ملالہ آپ تو جرم پہ جرم کرتی جا رہی ہو، ہمیں معلوم ہوا آپ سوات سے بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینے جیسے گھناؤنے جرم کا زور و شور سے کافی وقت پہلی شروعات کر چکیں۔ تم ہماری ہیرو نہیں ہو سکتی۔

ہمارے ہیرو تو وہ ہیں جن کے ہاتھ میں قلم کے بجائے بندوق ہو۔ جو بچوں کو بجائے تعلیم دینے کے، بندوق چلانے کی تربیت دیں۔ ہمارے ہیرو تو وہ ہیں جو عورتوں کو گھروں میں محصور رکھیں، اور یقینی بنائیں کہ وہ کہیں کچھ پڑھ لکھ نا لیں۔ ہمارے ہیرو تو وہ ہیں جو اسکولوں کو تباہ کر کے دکھائیں۔

ہمارے ہیرو تو حکیم اللہ محسود، ملا فضل اللہ، اسامہ بن لادن، احسان اللہ احسان اور ان جیسے ہیں۔ تم ایک عورت ہو کر اس پدرشاہی معاشرے میں ہماری ہیرو قطعاً نہیں ہو سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments