پاک فوج زندہ باد


کراچی کی سپر ہائی وے پر واقع مویشی منڈی میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا کہ جب بیوپاریوں یا شہریوں کے بجائے انتظامیہ کی جانب سے پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے جانے لگے۔ کراچی کی یہ مویشی منڈی ایشیاء کی سب سے بڑی منڈی ہے جو 9 سو ایکٹر کے رقبہ پر محیط ہے، جہاں عید قربان کی آمد کے ساتھ ہی ایک شہر سا آباد ہوجاتا ہے۔ ملک بھر کے طول و عرض سے بیوپاری لاکھوں کی تعداد میں جانور لے کر آتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق چار سے ساڑھے چار لاکھ تاک مختلف نوع کے جانور یہاں بکنے کے لئے لائے جاتے ہیں۔ اب جہاں سندھ حکومت اور انتظامی اداروں کی کارکردگی ویسے ہی کراچی شہر میں ابتر ہے وہاں سپر ہائی وے پر موجود اس منڈی کا تو اللہ ہی مالک ہوتا ہے۔ بیوپاریوں اور خریداروں کو پارکنگ فیس، پانی اور دیگر نام نہاد اخراجات کی مد میں لوٹا جاتا ہے۔ اس دفعہ مسئلہ یہ ہوا کہ جونہی بارش پڑی تو کراچی شہر کا تو تالاب کا منظر پیش کرنے لگ گیا وہیں اس منڈی میں بھی بارشی پانی کے جمع ہونے سے نہ صرف جوہڑ بن گئے بلکہ کچی زمین ہونے کی وجہ سے کیچڑ نے نہ صرف بیوپاریوں، خریداروں بلکہ منتظمین کا بھی جینا دوبھر کر دیا۔

اب یہ ذمہ داری تو بنتی تھی وہاں کی سول انتظامیہ اور سندھ حکومت کی کہ وہ لوگوں کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے فوری طور پر نکاسی آب کا انتظام کرتی اور کیچڑ کو ہٹانے کے لئے بھی اقدامات کیے جاتے۔ مگر روایتی بے حسی، نا اہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزراء پریس کانفرنسز اور فرضی دوروں میں مصروف ہو گئے جبکہ کرپٹ انتظامیہ کان لپیٹ کر سو گئی۔ ایسے میں کراچی کے امن کو بحال کرنے کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والے رینجرز اور پاک فوج مدد کو آگے آئی، پھر کیا تھا نہ صرف وہاں سے بارشی پانی کا احسن اور فوری اخراج کیا گیا بلکہ کیچڑ کو بھی ہٹا دیا گیا۔

یوں پاکستان کی سب سے بڑی مویشی منڈی پاک فوج کی تحسین میں لگی رہی، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاک فوج کی جانب سے کی جانے والے اس فلاحی کام کے لئے کوئی اخراجات وصول نہیں گئے۔ وگرنہ تو یہ حالات ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے 10 روپے کی پارکنگ فیس 30 روپے وصول کی جاتی ہے، احسان الگ سے کہ شکر کریں آپ کو یہ سہولت فراہم کی گئی ہے۔

میرے کالم پڑھنے والے یا سوشل میڈیا پر تحریروں کے ذریعے فالو کرنے والوں کو لازمی یہ لگ رہا ہوگا کہ شاید میرا سافٹ وئیر اپڈیٹ کر دیا گیا ہے، مجھے بھی یا تو سائیڈ پر لے جاکر سمجھایا گیا ہے یا پھر کوئی ڈراوا یا دھمکی دی گئی ہے۔ تو میں یہاں واضح کرتا چلوں کہ میں جن امور پر اختلافات کرتا تھا اور مادر وطن کے لئے ادا کیے جانے والے پاک فوج کے امور کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں تعریف کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔ لاہور جوہر ٹاؤن دھماکہ کے بعد سے را اور این ڈی ایس کے گٹھ جوڑ اور پورے نیٹ ورک کو ہماری افواج اور ان کے اداروں نے جس مستعدی سے ٹریک کر کے بغیر کریڈٹ لئے ٹھکانے لگایا، اس کی کہانی جب میرے علم میں آئی تو میں نہ صرف عش عش کر اٹھا وہاں اپنے ہی نادان دوستوں کی جانب سے لاعلمی میں سوشل میڈیا پر تنقید کے ذریعے دراصل بھارتی میڈیا اور پراپیگنڈا سیلز کو موقع فراہم کرنے پر دکھ بھی ہوا۔

میرے شہر جام پور کی چند کلومیٹر پر مشتمل ایک سڑک کی توسیع اور دونوں اطراف میں سیوریج لائن ڈالنے کے کام کا آغاز ہوا تو اس چند کلومیٹر کے کام کی لاگت اور اس میں ماری جانے والی ڈنڈی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور گھر جاتے ہوئے ملتان لاہور موٹروے پر سفر کرتے ہوئے کیے گئے تعمیراتی کام پر میں پاک فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او کو داد دینے پر مجبور ہو گیا۔ ساتھ ہی کلمہ شکر بھی ادا کیا کہ اگر یہ کام بھی کسی پرائیویٹ کنٹریکٹر کو ملا ہوتا تو نہ صرف مکمل نہ ہوا ہوتا بلکہ کام کا معیار بھی ایسا ہوتا جیسا انڈس ہائی وے کا کہ جو اپنی تعمیر کے کچھ ہی سال بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔

ملتان سے ڈیرہ غازی خان کی دو رویہ سڑک سے انڈس ہائی وے پر چڑھتے ہوئے انسان کی دو سو چھ کی دو سو چھ ہڈیاں ہل جاتی ہیں اور پرکھوں کی یاد الگ آجاتی ہے۔ اسی طرح سے یہ بھی شکر کا عالم ہے کہ پی ٹی اے اور نادرا جیسے اداروں میں انتظامی معاملات دیکھنے والے افسران بھی پاک فوج کے ریٹائرڈ افسران ہیں وگرنہ تو جیسے لاہور دھماکے میں پولیس اہلکار فاحشاؤں اور چند پیسوں کے عوض بکے ویسے ہمارے تمام راز بھی میرے منہ میں خاک دشمن کے پاس پہنچ چکے ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments