بیٹی نور!


یہ بہت غلط بات ہے، میں تمہیں اتنا محنت سے یاد کرا تا ہوں اور تم دو چار دنوں میں سب کھا پی کے گول کر دیتی ہو، کیا ایک ہی چیز میں پورا مہینہ گزر جائے گا، ذرا سوچو! ایک پارٹ میں تم نے تقریباً ڈیڑھ ماہ گنوا دیا، جب کہ ابھی یہ مکمل بھی نہیں ہوا ہے۔ ایسے کیسے کام بنے گا بیٹا، اگر تمہارا یہی حال رہا تو میں نانا سے تمہاری شکایت کر دوں گا اور تم تو جانتی ہی ہو نانا کا غصہ کیسا ہے، پچھلی مرتبہ تم نے ہی کہا تھا، نا نا صرف شکایت نہ کیجئے گا تو میں نے تمہاری بات مان لی، مگر تم میری بات نہیں مانتی۔

میں نے تم سے بار بار تاکید کی کہ پیچھے کا دہراتے رہو، لیکن پتہ نہیں تم کیوں بھول جا رہی ہو۔ تمہیں میں نے رب زدنی علماً والی دعا یاد کرائی تھی کیا تم وہ نہیں پڑھتی؟

بیٹا رانی! دعا بہت بڑا سہارا ہے اللہ سے خوب مانگا کرو وہی مدد کرے گا، کچھ یاد کرنے سے پہلے دعا کو پڑھ لیا کرو۔ ذرا سوچو! ابھی تمہارا یہ حال ہے تو آگے کیا ہوگا، میں نے تم سے ساڑھے نو بجے یاد کر کے سنانے کے لئے کہا تو تم نے دوبارہ کال بھی نہیں کی، یہ تو اور بھی گندی بات ہے۔

تمہارے ساتھ مجبوری یہ ہے کہ تم توجہ سے سنتی بھی نہیں ہو، میں نے تم کو بولا تھا ؛ یاد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ تم وہی سبجیکٹ جو پڑھتی ہے کسی کو پڑھاؤ، جیسے تم تحسین صبا کو پڑھا سکتی ہو، اپنی کسی سہیلی کو پڑھا سکتی ہو، اگر کسی کو پڑھانے میں ہچکچاہٹ ہے تو خود اپنے آپ کو سناو یعنی شیشے کے سامنے کھڑے ہو جاو اور پڑھا ہوا سبق اپنے آپ کو سناؤ۔

تم کو میں نے ایک اور طریقہ بتایا تھا ایک بڑا سا پیپر لو اور جو کچھ پڑھا ہے اس کو پیپر پر لکھو اور اپنے کمرے میں اپنے بیڈ کے بالکل سامنے دیوار پر اس جگہ شیٹ لگا لو جہاں تمہاری فوری نظر جاتی ہو۔ کوشش کرو کہ وہ جگہ تم سے قریب ہو۔ یہ پیپر شیٹ تم کو بلیک بورڈ کا کام دے گی اور وقتاً فوقتاً تم اس کو دیکھ کر پڑھ سکو گے اور اس طرح سے تمہیں چیزیں یاد کرنے میں آسانی ہو گی۔ تم نے بتایا تھا روح اللہ ماموں نے تمہیں بورڈ گفٹ کیا ہے تو اس کا استعمال کیوں نہیں کرتی۔ کیا اسے آچار بنانے کے لئے رکھا ہوا ہے، ایک چیز کا استعمال تو تم ڈھنگ سے کرتی نہیں ہو تو تمہیں دوسری چیز میں کیسے دلاؤں۔

میں نے تمہیں یاد کرنے کا ایک اور طریقہ بتایا تھا ذہن میں کسی چیز کی تصویر بناؤ جیسے پیڑ، پودا، مرغی، کنواں اور جو تم کو یاد کرنا ہے اس کو وہاں پر رکھ دو جیسے پرانا گھر کو پاسٹ ٹینس سمجھو، اپنے روم کو پرزینٹ اور سمڈیگا والے گھر کو فیوچر۔ اس سے وہ تمام باتیں ایک کہانی کی طرح ذہن میں فٹ ہو جائیں گی اور تم پوچھنے پر آسانی سے بتا دو گی۔ تم کو میں نے بتایا تھا نا ہمارا ذہن تصویروں میں سوچتا ہے۔ آنکھ کی یادداشت کان کی یادداشت سے 20 گنا زیادہ ہے۔

ایک چیز میں نے تمہیں اور بتائی تھی کھیلنا اور ورزش کرنا انسانی جسم اور دماغ کے لیے بہت ضروری ہے۔ جب کئی گھنٹے پڑھائی کے بعد تم تھک جاتی ہو تو اس کا مطلب ہے تمہارے دماغ کے ساتھ جسم کو بھی کچھ دیر آرام کی ضرورت ہے۔ پڑھنے کے بعد تھوڑا بریک لیا کرو اور کھیل کود لیا کرو، کھیلنے کے دوران لمبی لمبی سانسیں لینے سے دماغ کو آکسیجن ملتی ہے سوچنے اور یاد کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تمہیں میں نے سائکل اسی لئے خرید کر دیا تھا، لیکن پتہ نہیں تم چلاتی ہو کہ نہیں، ارے آدھا ایک گھنٹہ آنگن میں ہی چلا لیا کرو۔

میں نے تمہیں یہ بھی بتایا تھا یاد کرنے کا سب سے بہترین وقت صبح کا ہے، اس وقت دماغ بالکل فریش رہتا ہے اور جو کچھ یاد کرو فٹ سے دماغ میں گھس جاتا ہے۔ ابراہیم چھوٹے ابو مجھ سے کہتے تھے رات میں سوتے وقت دہرا لیا کرو، یہ یاداشت بنانے اور اسے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے چاہے وہ گرامر سے متعلق ہو، الفاظ کے ذخیرے سے یا کوئی اور معلومات۔ نیند کے دوران ہوتا یہ ہے کہ ہمارے دماغ کا جو حصہ ہیپی کمپوس کہلاتا ہے وہ سیکھنے والے الفاظ کو ان کوڈ کرتا ہے۔ اور کسی چیز کو یاد رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

تمہاری ایک اور گندی عادت ہے تم بتائی ہوئی چیز کو بھول جاتی ہو اور کہتی ہو آپ نے بتایا ہی نہیں تھا، کب بتایا تھا؟ میں نے اس لئے بھی یہ ساری چیزیں لکھ دی ہیں۔ امید ہے کہ تم اس کو توجہ سے پڑھو گی اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو گی۔

آج میں تمہیں کوئی نیا سبق نہیں دے رہا۔ پچھلے دو تین ہفتوں میں جو کچھ پڑھایا ہے بس اسی کو یاد کرو، اب اسی سے تمہارا امتحان ہوگا، ساری چیزیں اچھے سے یاد کرنا، نیا سبق کل سے شروع کریں گے۔

اور ہاں پڑھنے لکھنے کا کام چھت پر جاکر کیا کرو وہاں شانتی رہتی ہے، آج کل تو ادھر موسم بھی اچھا ہوگا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، پرندوں کی چہچہاہٹ اور گھر والوں کی چک چک، پک پک سے پرے پرسکون ماحول، وہاں تمہیں کام کے لئے بھی نہیں بولے گا، اطمینان سے کئی گھنٹے پڑھ سکتی ہو۔ جب تک تمہارا اسکول کھل نہیں جاتا؛ اس کا فائدہ اٹھاؤ۔

ایک بات اور ہم جتنے بھی تمہیں ویڈیوز بھیجتے ہیں ان سب کو جب بھی موقع ملے، بار بار سنا کرو، میرا بہت سارا وقت اسے سننے اور اس میں سے کام کی چیز نکالنے میں چلا جاتا ہے اور تم جب سنو گی ہی نہیں تو پھر کیا فائدہ ہوگا۔

پرسوں تم نے بہت اچھا یاد کیا تھا۔ بہت خوشی ہوئی تھی۔ اگر تم ایسے یاد کر سکتی ہو تو روزانہ کیوں نہیں ویسے ہی یاد کرتی ہو، میرا اچھا خاصا موڈ خراب ہو جاتا ہے۔ وقت خود کا بھی بچاو اور میرا بھی۔ دنیا میں سب سے زیادہ قیمت وقت کی ہے، اللہ تمہیں صحت و عافیت دے اور تمہیں ایک ذہین اور اچھی گڑیا بنائے۔ میری دعائیں تمہارے لئے۔ گڈ لک۔

ادھر بھی بہت رات ہو گئی ہے۔ مجھے اجازت دو، امید ہے کہ تم کل میرا موڈ خراب نہیں کرو گی۔
والسلام
تمہارا ماموں
علم

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments