زخمی افغانستان


چار عشروں سے گھائل افغانستان ایک بار پھر زخموں سے چور ہونے جا رہا ہے۔ امریکی انخلاء کے بعد طالبان نے پھر سے سر اٹھانا شروع کیا ہے اور مختلف علاقوں میں پیش قدمی کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کی بھی اطلاعات ہے۔ بزور شمشیر شاید طالبان کابل پر قبضہ جما سکے۔ لیکن جیت نہ ان کی ہوگی نہ اشرف غنی کی انتظامیہ کی بلکہ ہار افغان عوام کی ہوگی۔

اپنی ناکامی کو دیکھتے ہوئے امریکہ اور اتحادیوں نے افواج کو نکالنا شروع کیا ہے۔ بغیر کسی مستقبل کے منصوبے کے انہوں نے افغانوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اور اپنے اسی دھوکے کو دہرایا ہے جو انہوں نے روسی انخلا کے بعد اپنایا تھا۔ نہ کوئی معاشی بہتری کے لیے کام کیا اور نہ معاشرتی اور ملٹری بہتری کے لئے۔ اور افغانستان کو 90 کی دہائی کی طرح طوائف الملوکی کی آگ میں پھر جھونک دیا ہے۔

المیہ یہ بھی ہے کہ یو این او بھی خاموشی کی گہری نیند میں سویا ہوا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ یہ تنظیم خواب غفلت کی نیند سے جاگ کر اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ اور سب سے بہترین طریقہ جو اس ملک کو مزید تباہی سے بچا سکتا ہے وہ یو این کی امن برقرار رکھنے والی پیس کیپنگ فورس ہے۔ دونوں اطراف سے سیز فائر ہونے تک اگر اقوام متحدہ کی امن کی افواج افغانستان میں تعینات کی جاتی ہے تو اس سے افغان عوام اور کو امن سے رہنے کا موقع فراہم کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان، افغانستان کے حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے سویت کی دراندازی اور اس کی انخلا کے بعد جو مسائل پاکستان نے برداشت کیے اس کے جھٹکے اب بھی محسوس ہو رہے ہیں۔ اب جبکہ امریکی انخلا ہو رہا ہے۔ افغانستان میں سراسیمگی، اور اندرونی خلفشار کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اس صورتحال میں پاکستان کے حالات پر اثرات لازمی عنصر ہے۔ اور سب سے بڑا مسئلہ افغان پناہ گزینوں کا ہوگا جو کہ پہلے ہی سے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ اگر لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان میں وارد ہوتے ہیں تو ملکی معیشت جو کہ پہلے ہی کرونا اور دوسری وجوہات کی وجہ سے وینٹی لیٹر پر ہے کی مزید تباہ حالی کا اندیشہ ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کو بہت سے مزید چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ اگر طالبان طاقت کے زور پر کابل فتح کرتے ہیں

اور اس دوران اگر دنیا اور یو این او اسے تسلیم نہیں کرتی۔ تو ہمارے پاس کیا اپشن ہوگا۔

اگر انڈیا طالبان سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے اور پاکستان میں عدم استحکام کا باعث بنے۔ تو ہمارے پاس کون سے آپشن ہو گے۔ یہ تمام خطرات اپنی جگہ موجود ہے ہمارے پالیسی بنانے والوں نے یقیناً غور و خوض کیا ہوگا۔

افغانستان کی موجودہ خانہ جنگی کا واحد حل طالبان اور افغانستان کی موجودہ حکومت کے درمیان مذاکرات میں پوشیدہ ہے۔ بال اب طالبان کی کورٹ میں ہے۔ میں نہ مانوں والی رٹ سے نقصان افغانوں کو ہی ہوگا۔ بہتر یہیں ہوگا کہ طالبان انتخابات میں حصہ لے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ اور ملک کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق چلنے دے۔ اسی میں سب کی بھلائی ہوگی۔ اسی سے گھائل افغانوں کے زخموں پر مرہم رکھی جا سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments