قربانی اور سازشی ٹولہ


عقل اور وحی کی کشمکش کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور شیطان دونوں کو حکم دیا کہ میرے بنائے ہوئے انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں تو فرشتوں نے فوراً بغیر کسی چوں و چراں کے سجدہ کر دیا جو وحی الہٰی کی تعمیل کی ایک اعلیٰ شکل تھی۔ لیکن ابلیس نے عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے سجدے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں وہ راندہ درگاہ ٹھہرا۔

بلاشبہ عقل ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر کارزار حیات کے لئے کافی نہیں۔ عقل وحی آسمانی کے بغیر نامکمل ہے۔ جب تک عقل وحی آسمانی کے نور سے منور اور اس کے تابع رہتی ہے، تب تک یہ اس کی کی قید میں مقید اور لغزش کھانے سے محفوظ رہتی ہے، لیکن جب یہ وحی کی قید سے آزاد ہو کر اس کے مقابل کھڑی ہوجاتی ہے تو تب اس کی پرواز کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ یہ ہواؤں کو مسخر کرتی ہے، فضاؤں کو ماپتی ہے اور چاند پہ پہنچا دیتی ہے لیکن خود بسا اوقات اپنے خالق کی پہچان تک سے قاصر رہتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صرف عقل پر تکیہ کرنے والوں کو خالق کائنات کے حکمت سے بھرپور احکام بھی سجھائی نہیں دیتے۔ عالم اسلام کے تمام مسلمان بخوبی جانتے ہیں کہ قربانی ایک مستقل عبادت بلکہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم، تابعین و تبع تابعین بلکہ پوری امت کا متوارث و مسلسل عمل بھی قربانی کرنے کا رہا ہے۔ آج تک کسی مفسر، محدث اور فقیہ نے اسے حج اور مکہ معظمہ کے ساتھ خاص سمجھا ہے اور نہ ہی صدقہ و خیرات کو اس کا متبادل سمجھا ہے۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اسلام نے زکوة کے علاوہ صدقہ و خیرات کے ذریعہ غریبوں کی مدد کی بہت ترغیب دی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قربانی کے دنوں میں صدقہ و خیرات قربانی کا قائم مقام ہو سکتا ہے۔ بلکہ دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں قربانی بہت شوق سے کی جاتی ہے اس لئے سازشی ٹولہ ایک عرصہ سے اس متواتر اور یقینی طور پر ثابت شدہ حکم کو ہماری مادی ترقی کے لئے بہت بڑی رکاوٹ باور کرا کر غریبوں اور یتیموں کے درد اور خیرخواہی کے پردوں میں مسلمانوں کو اس سنت ابراہیمی اور محمدی سے دور کرنے پر تلا ہوا ہے۔

قربانی کے بارے میں جتنی آیات یا احادیث ہیں وہ سب جانوروں کا خون بہانے سے متعلق ہیں، نہ کہ صدقہ و خیرات سے متعلق۔ نیز ان میں حج اور مکہ معظمہ کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا ہے کہ وہ ان مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ سورہ حج آیت نمبر 34

امام ابن کثیر اور بعض دیگر مفسرین نے وضاحت فرمائی ہے کہ خون بہا کر جانوروں کی قربانی کا دستور شروع دن سے ہی تمام ادیان و مذاہب میں چلا آ رہا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)

سورہ کوثر میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کو قربانی کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں :سو آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھیے اور (اسی کے نام کی) قربانی کیجئے۔

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔ ترمذی۔

مذکورہ آیات و احادیث سے مندرجہ ذیل چند باتیں واضح ہو کر سامنے آتی ہیں :

( 1 ) استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر رسول اللہ ﷺ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا، حتیٰ کہ اس کا عیدگاہ کے قریب آنا بھی پسند نہیں فرمایا۔

( 2 ) رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی، حالانکہ حج آپ نے صرف آخری سال فرمایا۔ معلوم ہوا کہ قربانی نہ حج کے ساتھ خاص ہے اور نہ مکہ معظمہ کے ساتھ۔ ورنہ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں مسلسل نو سال قربانی نہ فرماتے۔

( 3 ) قربانی کا مقصد فقط ناداروں کی مدد نہیں جو صدقہ و خیرات سے پورا ہو جائے، بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے، اور یہ عبادت اسی خاص طریقہ (خون بہانے ) سے ہی ادا ہوگی، محض صدقہ و خیرات کرنے سے یہ عبادت ادا ہوگی اور نہ اس کے مطلوبہ فوائد و ثمرات حاصل ہوں گے۔ ورنہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دور میں غربت و افلاس دور حاضر کی نسبت زیادہ تھا، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت اور اللہ تعالی کا حکم نہ ہوتا تو سرور عالم ﷺ قربانی کے بجائے ناداروں کے لیے چندہ جمع کرتے یا اتنی رقم رفاہی کاموں میں صرف فرماتے۔

آپ تو یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھنے والے تھے، ان کی پرورش کرنے والوں کو جنت میں اپنی رفاقت کی نوید سنائی، غریبوں اور لاچاروں کے رکھوالا تھے لیکن پھر بھی آپ نے عیدالاضحی کے موقع پر قربانی ہی فرمائی۔ کیوں کہ اللہ کا حکم تھا، سنت ابراہیمی تھی، تب ہی تو امت کو بھی ترغیب دی اور خود بھی اہتمام فرمایا۔ خود کو روشن خیال کہنے والے (در حقیقت تاریک خیال) مادیت کی پوجا سے فارغ ہوں تو ان کو پتہ چلے کہ قربانی کی روح دراصل للٰہیت اور جان نثاری ہے۔ معبود برحق کے سامنے (کیوں ) کا لفظ نہیں بولا جاتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو لخت جگر کے جگر پر چھری چلاتے ہوئے بھی کیوں نہیں بولا۔ دلیل نہیں مانگی۔ حکمت جاننے کی کوشش نہیں کی بلکہ محض اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔

معزز غریب نوازو!

خوب سمجھ لیں! کہ معبود بر حق جب اشارہ کر دے تو اس سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ کیوں؟ اور نہ اس کے حکم کے آگے ’معاشی و مالیاتی‘ مشورے دیے جاتے ہیں کہ وہ چیز کیونکر مطلوب ہے یہ کیوں نہیں لیتے۔ آپ اپنی یہ غریب پرور تحریک کہ: (اسی رقم سے کسی غریب کے ہاتھ پیلے کر لو) دین اسلام کے شعائر کے موقع پر ہی کیوں چلاتے ہو؟ کیا کبھی اس قسم کی کوئی مخلصانہ تحریک ہیپی نیو ائر اور ویلنٹائن ڈے کے موقع پر بھی چلائی ہے؟ شادی اور غمی کے موقع پر خود ساختہ رسومات پر خرچ کرتے ہوئے بھی کبھی غریب یاد آیا ہے؟

ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ پر کیا کچھ نہیں لٹایا جاتا، غیروں کے تہواروں پر کیسی کیسی پارٹیوں کا اہتمام ہوتا ہے، لیکن اس مالیاتی اسراف پر کسی غریب نواز کو آج تک کوئی تکلیف ہوئی اور نہ اس کے خلاف ان کے ہاں تحریک اٹھانے کی کبھی نوبت آئی۔ ان مواقع پر ’غریب کی عید‘ کے پلے کارڈ اٹھائے ان کو آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ تو پھر ”شعائر اللہ“ کو تو کم ازکم معاف کیجئے کہ یہ نام نہاد دانشوروں کی عقل سے بلند اور بہت بلند ایک فلسفہ ہے، اس کو دمڑیوں سے ماپنے کی بات خدارا مت کرو! غریب کے لئے جھوٹی صدا مت لگاؤ! خاطر جمع رکھو کہ ہمارے شعائر میں تو غریب کا باقاعدہ حصہ رکھا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :

”ان (قربانیوں ) سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج افراد کو بھی کھلاؤ“ ۔ سورہ حج 28

ہمارے معاشرے میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی کمی نہیں جن کو پورا سال گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ سوائے ان قربانیوں کے دنوں میں۔ جی ہاں! یہی وہ دن ہوتے ہیں جن میں غریب بھی پیٹ بھر کر کھا لیتے ہیں۔ گوشت کا مزہ چک لیتے ہیں۔ اور رحمت خدا، اتنی عام ہو جاتی ہے کہ منکرین قربانی بھی باربی کیو کے مزے اڑا لیتے ہیں، لہٰذا! آگے بڑھ کر ہماری آواز میں آواز ملائیں۔ خود بھی قربانی کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔ باقی بات توفیق کی ہے کسی کا مال نائٹ کلبوں، مجروں اور اداکاراؤں کے نخروں کی نظر ہو جاتا ہے اور کسی کے مال سے یتیموں، غریبوں اور لاچاروں کی اداسی دور ہو جاتی ہے۔

واللہ ہوالموفق۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments