علی اکبر ناطق کا ناول: کماری والا


بچپن میں ہمارے گاؤں ایک مداری آیا کرتا تھا۔ جو سڑک کنارے اپنی ڈگڈگی بجا کر مجمع لگاتا تھا۔ اس کا کم سن بیٹا بانسری بجا بجا کر لوگوں سے پیسے وصول کر رہا ہوتا تھا کہ اچانک باپ بیٹے کی ڈگڈگی اور بانسری بجنا بند ہو جاتی تھی۔ وہ مجمعے کی جانب منہ کر قسمیں دیتا کہ اس مجمعے میں کوئی جادوگر موجود ہے وہ مہربانی کرے ہماری بانسری اور ڈگڈگی پر سے اپنا جادو ختم کردے۔

جادو گر کے سامنے نہ آنے پر وہ اپنے بیٹے کی گردن کاٹ کر پلاٹ کے دوسرے کونے میں رکھ دیتا اور التجا کرتا کہ اگر اب بھی جادوگر سامنے نہ آیا تو اس کا بیٹا دوبارہ زندہ نہیں ہوگا۔ پھر مجمعے میں سے ایک مقامی آدمی نکلتا اور گاؤں والوں کو پتا چلتا کہ وہ جادوگر ہے گو کہ ہم گاؤں والے اسے ایک عام آدمی سمجھتے تھے۔

آج برسوں بعد میں خود کو وہیں روڈ کنارے کھڑا وہ معصوم بچہ سمجھ رہا ہوں جو اس ڈرامے کو دیکھ کر حیرت سے پلکیں چھپکانا بھول جاتا اور مداری ختم ہونے کے کئی دنوں بعد تک ماں بہنوں کو قسمیں کھا کھا کر ان کے سچا ہونے کا یقین دلاتا تھا۔

ہاں آج میرا پالا ایک ایسے ہی جادوگر سے پڑا ہے۔ جو ڈگڈگی نہیں بلکہ قلم کے زور سے مجمع لگاتا ہے اور پھر مجمعے میں موجود لوگوں کے دل و دماغ پر قابض ہو کر انھیں اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ اس جادو گر کا نام ہے علی اکبر ناطق۔

انسان تو مٹی کا بت ہے لیکن والدین کی جانب سے رکھا اس کا نام اسے دنیا میں اکبر یا افضل بناتا ہے۔ جس شخص کے والدین نے اس کا نام ہی علی اکبر رکھ دیا ہوں پھر خدا اسے زندگی میں ادنیٰ رکھ کر اپنے اسد کی شان کیسے کم کرتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علی اکبر ناطق کا قلم دریاؤں کی سی روانی سے لکھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی تحریر بہار کی ہوا کے مست جھونکے کی طرح کبھی دلفریب اور خوش کن ہوتی ہے تو کبھی صر صر کی طرح روح تک کو جلا دینے والی۔ کبھی آسمان کی طرح بلند ہوتے بگولوں میں بے بس مجبور کاغذوں کی مانند قاری کو اپنے ساتھ ساتویں آسمانوں کی سیر کرانے کو اڑا لے جانے والی اور کبھی ساحلوں پر کسی حسین محبوب کے انتظار میں ٹھہری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ میرے دوست حیران ہوں گے کہ وہ محمد وسیم شاید جو علی اکبر ناطق کے چھیڑے فقہی مسائل پر کھل کر، بنا کسی لگی لپٹی کے جواب دیا کرتا تھا آج اس کے قصیدے لکھنے بیٹھ گیا۔

دوستوں اگر میں چیخوف، شولو خوف، گیبریل گارشیا، اروندھتی رائے، جسونت سنگھ، سعادت حسن منٹو یا دیگر ادبا کو پڑھ کر لطف لیتا ہوں، ان کے لکھے کی تعریف کرتا ہوں تو مجھے علی اکبر ناطق کے معاملے میں بھی اس کی سوچ اور فقہی وابستگی کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس کے لکھے پر داد دینی یا تنقید کرنی چاہیے۔ اس لیے قصہ مختصر کرتے ہوئے اصل موضوع کی جانب آتا ہوں۔

میں خود ایک ادنیٰ ناول نگار ہوں اس لیے ملک میں لکھے اپنے ہم عصر ناول نگاروں کے ناول پڑھنے میں خاص دلچسپی رکھتا ہوں تا کہ ان سے کچھ سیکھ سکوں۔ یہ میرے لیے ممکن نہ تھا کہ پاکستان کے ابھرتے ناول نگار علی اکبر ناطق کو بنا پڑھے رہ سکوں۔ میں نے ان کے دونوں ناول پڑھے۔ ”نو لکھی کوٹھی“ ایک دلچسپ کہانی رکھنے کے باوجود کہیں کہیں جھول کا شکار رہا۔ مگر ”کماری والا“ میں اس نے ساری کسر پوری کر دی۔

یہ ناول ضامن علی نامی ایک لڑکے کی کہانی ہے جیسے دس سال کی عمر میں اپنے ہمسائے میں رہتی ایک نرس کی بیٹی سے عشق ہوجاتا ہے۔ ناول کی ابتدا ایک مسافر سے شروع ہوتی ہے جو کماری والا جانے کو وقت سحر کسی سنسان سڑک پر گاڑی سے اتر کر گاؤں کی جانب پیدل سفر شروع کرتا ہے۔

ناول نگار چونکہ خود دیہاتی ہے، دیہاتی آدمی کا مشاہدہ شہری بابو کی نسبت بہت اچھا ہوتا ہے۔ وہ پرندوں کے بولنے کے انداز، ہوا کا رخ اور ڈھور ڈنگر کی بولیاں سن کر آنے والے حالات جان جاتا ہے۔ وہ اپنے ریوڑ کی ہر بکری کا کھر پہچانتا ہے وہ ہر بوٹی، پھول، درخت اور ہر نظارے کو اہمیت دیتا ہے۔ اس لیے علی اکبر کا من کرتا ہے کہ اپنے مشاہدے میں آنے والی ہر چیز قاری کو دکھائے، یہ کبھی ایسا لگتا ہے جیسے کوئی باتونی آدمی آپ کو ایک ہی گفتگو میں حضرت آدم علیہ السلام سے آج تک کی دنیا کے بارے میں بنانے کی کوشش کرے۔ یا کوئی شخص لوہار کو اچھے مخمل کی خصوصیات اور پہچان بنتا رہا ہو۔ کبھی کبھی یہ کوشش نہ صرف ناول کی ضخامت کا باعث بنتی ہے بلکہ کہانی بھی بوجھل پن کا شکار ہو جاتی ہے۔

اس کہانی میں بھی جب مسافر کماری والا کی جانب روانہ ہوتا ہے تو راستے میں آنے والے ہر کھیت کھلیان، باغ، ٹیوب ویل، درخت، پھول، سبزیوں، ریت مٹی اور ذرائع آمدورفت کے بارے میں بتانے کی کوشش کرتا ہے جو قاری کی دلچسپی کم کر دیتا ہے اور وہ چند لمحوں کو سانسیں بحال کرنے کو ناول رکھ دیتا ہے۔

فلش بیک میں جاتے ہی کہانی اپنا رنگ جمانا شروع کرتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے آگے بڑھتے ہوئے قاری پر ایسا سحر طاری کرتی ہے کہ وہ ناول کو سینے سے لگائے ضامن علی کے ساتھ ساتھ دوڑتا جاتا ہے۔ دس سالہ ضامن علی سکول کی چھٹی کے بعد گھر نہیں جانا چاہتا اور ایک کافی بلند درخت کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا ہوتا ہے۔ ”درخت اتنا بلند ہے کہ اس پر بیٹھی کبوتریوں کی سرخ چونچیں دکھائی نہیں دیتیں“ مگر ناول نگار ان کی جنس جان جاتا ہے۔ یہاں قاری کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔

واحد متکلم میں شروع ہوئی کہانی اچانک اٹھارویں باب سے بیسویں باب تک بیانیے میں چلی جاتی ہے۔ جیسے ہم ایک نئی تکنیک کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال کہانی گھوم کر واپس ضامن کے گاؤں پہنچتی ہے اور نہایت دلچسپ ہوتے ہوئے گاؤں کے ماحول، کھیل تماشوں، لڑائی جھگڑوں سے گزار کر قاری کو ایک نوجوان ضامن علی کے ساتھ شہر پہنچا دیتی ہے۔ پھر کالج کا لونڈا، ترقی پسند کامریڈ جوانوں کے شغل میلوں کا ذکر خوبصورت انداز میں ہوتا ہے۔ پھر جنگ کی وجہ سے تمام ڈاکٹرز کو واپس ملازمت پر بنوانے کا ذکر ہے جو کہانی کے حساب سے انیس سو اکہتر کی جنگ معلوم ہوتی ہے لیکن ضامن علی اپنے گاؤں آئی ڈاکٹر کے گھر وی سی آر پر فلمیں دیکھتا ہے جو حیرت کی بات ہے کیونکہ جے وی سی نے وی سی پی کا جاپان میں افتتاح انیس سو چھہتر میں کیا تھا۔

علی اکبر کے ناولز میں مذہب یا کسی فقہے کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اچھے سب کردار اپنے ناموں سے کسی خاص فقہے کے فرد معلوم ہوتے ہیں جبکہ ولن یا شر پسند کرداروں کے نام عام رکھے جاتے ہیں تا کہ قاری ان کے بارے میں خود فیصلہ کر سکے۔

ہمارے ہاں ایک عجیب بات محسوس کی گئی ہے کہ اردو ادب کے قاری ہر ناول میں اس کے تخلیق کار کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بحیثیت ناول نگار میں اس بات کا کھلے دل سے اقرار کرتا ہوں کہ انسان کی تحریر میں اگر وہ خود موجود نہ ہو پھر بھی اس کی مذہبی، فقہی یا سیاسی پسند ناپسند کسی نہ کسی طرح کہانی میں در آتی ہے۔ پاکستان کا قاری چونکہ ناطق کو ایک خاص سوچ کا حامل پاتا ہے تو اس کے لکھے ہر جملے کو اسی رنگ میں پرکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

گو کہ اس ناول میں ناطق نے میانہ روی اختیار کرتے ہوئے بھرپور کوشش کی ہے کہ خود پر لگی اس چھاپ سے بچا جائے لیکن ایک جگہ ایک بدمعاش اور ولن ٹائپ برے کردار کے مولوی، جو جہاد کے نام پر بچے اغوا کرتا ہے، کی داڑھی پر بچے کی والدہ سے تھوک پھنکواتا ہے جبکہ اس جملے میں ”داڑھی“ کے بجائے اگر ”چہرے“ لکھا جاتا تو کہانی پر کچھ اثر نہ پڑتا۔ مجھے یقین ہے ناول نگار نے یہ جملہ کہانی کے بہاؤ میں اس برے کردار سے شدید نفرت کے اظہار کو لکھا ہوگا مگر افسوس کہ اس ملک کا قاری ناول نگار کے ہر جملے کو اس کی سوچ کے مطابق پرکھنے کا عادی ہے اس لیے عجیب لگتا ہے۔

ناول نگار جانتا ہے کہ وہ قاری کو اپنے ساتھ باندھ چکا ہے تو وہ کبھی گاؤں، کبھی شہر، کبھی اسلام آباد اور کبھی کراچی اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا لے جاتا ہے۔ کہانی میں موجود تجسس قاری کو کسی صورت ناول سے نظریں ہٹانے کی اجازت نہیں دیتا۔

پھر ضامن علی ہمیں کراچی لے جاتا ہے۔ وہاں بہاری زبان کا ذکر ہوتا ہے جو ذرا عجیب لگا کیونکہ بہاری الگ زبان نہیں بلکہ اردو کا ایک الگ لہجہ ہے۔ اس پورے باب میں ناول نگار انتہائی محتاط رہتا ہے وہ صدر کراچی اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں کے علاوہ کسی ایسی جگہ بلڈنگ یا علاقے کا ذکر نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے مکمل معلومات نہ ہو یہ ایک ذہین ناول نگار کی خصوصیت ہے کہ جو علاقہ اس کا دیکھا بھالا نہ ہو۔ اس سے پہلو کترا کر گزرتا ہے۔ یہاں ناول نگار وہی پنجاب والی منظر کشی پر انحصار کرتے ہوئے درختوں وغیرہ تک محدود رہتا ہے۔ ڈبل ڈیکر بس، چند اہم عمارتوں، ایم اے جناح روڈ اور ساحل سمندر کا ذکر ہوتا ہے۔ فلیٹس کی منظر کشی اچھی اور حقیقی ہے۔

اردو بازار میں سے بڑی احتیاط کے ساتھ نکلتا ہے اور وکٹوریہ والے کے ساتھ دکنی لہجے میں کبھی رانگڑی اور کبھی حیدر آبادی لہجے میں کراچی کے بارے میں معلومات لیتا ہے۔ قاری کو حیرت ہوتی ہے جب تیز مشاہدے والا ضامن علی پورے کراچی میں کہیں ٹرام نہیں دیکھتا اور نہ اس کا ذکر کرتا ہے جبکہ پورے پاکستان میں یہ واحد سواری ہے جو صرف کراچی میں چلتی ہے۔

ناول نگار کہانی کو ایک بار پھر گھما کر واپس پنجاب لے جاتا ہے وہاں ایک بڑے زمیندار اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے طلال نامی جابر کے علاقے میں جا پہنچتا ہے۔ طلال ایک دنیا دار انسان ہے جس نے جائیداد کے لالچ میں اپنے سارے خاندان کو قتل کروا دیا ہے۔ اس کے خلاف بات کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں مگر ضامن چونکہ قسمت کا دھنی ہے اس لیے اسے علاقے میں اجنبی ہونے کے باوجود ایک تانگے والا اسے کھول کھول کر طلال کے کارنامے بتاتا ہے۔ جو کہ عجیب لگتا ہے۔

ضامن یہاں بھی قاری کو ہر پگڈنڈی، فصل، باغ ان میں لگے درختوں کے بارے میں تفصیل سے بتاتا ہے۔ قاری حیران ضرور ہوتا ہے کہ طلال جیسے ظالم بندے کا شاطر اور عیار منشی ایک اجنبی لڑکے کے بولے جھوٹ پر بھروسا کر کے اسے سارا علاقہ نہ صرف گھماتا ہے بلکہ طلال کے ہاتھوں قتل ہونے والے لوگوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور ان پر وضاحتیں بھی دیتا ہے۔

آگے چل کر ناول کا ہر اہم کردار خود چل کر اس کے پاس آتا ہے اور پھر اسے ساری کہانی کھول کر بتاتا ہے جس سے کہانی کے تانے پانے ملتے جاتے ہیں۔

ضامن علی مفلسی اور گھر پر ہوئی چوری کے بعد اسلام آباد کا رخ کرتا ہے جہاں دو فیکٹریوں میں ملازمت کرنے کا احوال دس بیس صفحات پر بیان ہوتا ہے پھر رہائش کے مسائل، چائے کے ڈھابوں اور اسلام آباد کی سڑکوں پر کہانی کو گھمانے کے بعد ضامن علی دفتر خارجہ میں کلرک بھرتی ہو جاتا ہے۔

وہاں کے بڑے بابو ضامن علی کو کئی صفحات پر مبنی، نوکری کرنے کے سنہرے اصول سمجھاتا ہے، بڑا بابو ضامن کو سمجھاتا ہے کہ ڈی ایم جی افسروں کی فائلز وہاں الماری میں نہیں۔ قاری کو حیرت ہوتی ہے کہ دفتر خارجہ کا ایک تجربہ کار بڑا بابو یہ نہیں جانتا کہ دفتر خارجہ میں ڈی ایم جی گروپ کے آفیسرز نہیں بلکہ فارن افیئرز گروپ کے افسر تعینات کیے جاتے ہیں۔ بہرحال ضامن علی دی تمام ہدایات کو ایک جانب رکھتے ہوئے ایک غلط کام کر جاتا ہے جس کی خوب سزا بھگتا ہے۔

اسلام آباد میں در در خوار ہونے کے بعد وہ چند دوستوں کی مدد سے ڈاکومنٹری بنانے کا کام لے پاتا ہے۔ اس سلسلے میں بلوچستان کا سفر کرتا ہے مگر ہر چیز کو کھل کر بیان کرنے والا ضامن علی ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے بلوچستان کو چار لائنوں میں نمٹا کر آگے نکل جاتا ہے کیونکہ انجانے علاقوں کی کہانی لکھنے میں غلطی کا خدشہ رہتا ہے۔ کہانی کا ہیرو آخر کار اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی ملاقات ایک لڑکی اور ایک لڑکے سے ہوتی ہے جن کے ہاں وہ کرایہ دار کی حیثیت سے رہنے لگتا ہے۔ اس لڑکے سے وہ ناجائز تعلق قائم کرتا ہے پھر اس کی بہن سے بھی اپنی راتیں رنگین کرتے ہوئے اسے اس لڑکی سے پیار ہو جاتا ہے اور وہ اسی لڑکے کو سالا بنانے کو تیار ہو جاتا ہے۔

یہاں سے ناول نگار کا ادبی رنگ اپنے مکمل عروج میں دکھتا ہے اور قاری کو ہر لمحے حیرت کے ایک نئے سمندر میں غوطہ زن کرتے ہوئے کمال خوبصورتی سے تمام کرداروں کو یکجا لا کھڑا کرتا ہے۔ سب کو ملانے کے بعد وہ اپنی محبوبہ کی زندگی بچانے کو واپس ظالم زمیندار طلال کے پاس جاتا ہے جو اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔ طلال کے حالات دیکھ کر قاری کو حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسا زمیندار جس کے بڑوں بڑوں سے تعلقات تھے۔ جس کا بیٹا کئی برس قبل فوج میں میجر تھا اس کا سب کچھ وہ عیار منشی نہ صرف اپنے نام لگوا لیتا ہے بلکہ طلال کی کزن کے بچوں کو بھی قتل کرنے کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ جو کہ ملکی حالات دیکھتے ہوئے کسی آرمی افسر کی موجودگی میں غیر حقیقی لگتا ہے۔

قصہ مختصر، چھ سو اڑتیس صفحات پر مشتمل ناول ”کماری والا“ پاکستان میں لکھے جانے والے چند بہترین ناولوں میں شمار کرنے کے لائق ہے۔ اتنے ضخیم ناولوں میں ناول نگار سے کچھ بھول چوک ہو جاتی ہے جس سے کہانی کو گہن نہیں لگتا۔ ناول نگار بھی انسان ہوتا ہے وہ جذبات احساسات اور قصے کے ایک ایک تار کو جوڑتے ہوئے کچھ جھوٹی موٹی چیزیں مس کر جاتا ہے۔

ہر قاری کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے مگر میرا پڑھنے کا انداز ایک عام قاری کی نسبتاً بالکل مختلف ہے۔ میں بہت دلچسپی سے ایک ایک سطر کا مزہ لے کر پڑھتا ہوں شاید اسی لیے ایسی معمولی باتیں مجھے ایک لمحے کو بدمزہ کرتی ہیں مگر دیگر لوگ کہانی کے طلسم کے زیر اثر صرف لطف کشید کرتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں۔

مجھے علی اکبر ناطق دونوں ناولوں میں جو ایک چیز عجیب لگی وہ ہیرو کا ہر چیز کے بارے میں پرفیکٹ ہونا ہے۔ وہ کسی بھی چیز کو دور سے دیکھ کر اس کی سو فیصد لمبائی، چوڑائی، بلندی حتیٰ کے عمر تک ٹھیک ٹھیک بتا دیتا ہے اور یہ ہم جیسے کند ذہن قاری کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔

جیسے۔
صفحہ نمبر 10۔ ”تین ایکڑ کا خالی رقبہ“
صفحہ نمبر 10۔ ”ڈیڑھ ہاتھ چوڑے اور پانچ ہاتھ لمبے بینچ“
صفحہ نمبر 12۔ ”ساڑھے پانچ گز لٹھے کی پگڑی“
صفحہ نمبر 14۔ چھ انچ کھلے دہانے والا ٹیوب ویل ”صفحہ نمبر 14۔ آٹھ دس فٹ کے قطر کا حوض“
صفحہ نمبر 26۔ ”دو سو قدم سکول کا فاصلہ“
صفحہ نمبر 31 ”میدان کی لمبائی پچاس گز اور چوڑائی زیادہ سے زیادہ پچیس گز تھی“
صفحہ نمبر 33۔ ”کمروں کو تقسیم کرتی چار فٹ اونچی دیوار“
صفحہ نمبر 34۔ ”کل آٹھ کنال پر مشتمل ڈسپنسری“
صفحہ نمبر 34۔ چار کنال کے احاطے میں تین کمرے ”
صفحہ نمبر 369۔ ”چالیس سال کے کلرک کو آواز دی“

میرا اپنا خیال ہے کہ ایسے مقامات ہر اگر ”کم از کم، زیادہ سے زیادہ یا اندازہً“ کا اضافہ کیا جاتا تو ضامن علی کی طبعیت سے تال میل درست بن پاتا۔

میں آخر میں اس عمدہ ناول کی اشاعت پر جہلم بک کارنر، جناب گگن شاہد ان کے بھائی امر شاہد صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے ادب دوست لوگوں کو ایک لاجواب تحفہ عنایت کیا۔ شنید میں آیا تھا کہ اس ناول کا پہلا ایڈیشن ایک ماہ میں ختم ہو گیا تھا۔ پہلے میں اسے گپ سمجھا تھا مگر اب ناول کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔

تمام باریکیاں اپنی جگہ، میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ علی اکبر ناطق اس دور کا ایک بڑا کہانی نویس اور قصہ گو ہے۔ وہ مختلف کہانیوں کے الجھے دھاگے اس خوبصورتی سے ایک دوسرے سے جوڑتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔ وہ ایک جادوگر ہے جو اپنے قلم سے قاری کو ہیپاٹائٹس کر کے اس کا دل و دماغ اپنے قابو میں کر لیتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پاکستان میں اتنا عمدہ ادب لکھا جا رہا ہے۔ ایسے ہاتھ سلامت، ایسی سوچ سلامت اور ایسے کہانی کار سلامت رہیں تو انشاءاللہ پاکستان میں ادب کا مستقبل نہایت روشن ہوگا۔

میری اس عمدہ ناول کے تخلیق کار علی اکبر ناطق سے درخواست ہے کہ میرے کچے پکے تبصرے کو ایک ادنیٰ قاری کی رائے تصور کرتے ہوئے سنجیدہ نہ لے بلکہ مسکرا کر اگلے ناول کی جانب بڑھ جائے۔ میری دعا ہے کہ خدا اس کے قلم کو دیگر مسائل سے بچا کر بہترین ادب لکھنے کو استعمال کرے اور اس ذہین ناول نگار کی توانائیاں بہترین ادب تخلیق کرنے میں صرف کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments