بانو قدسیہ اور اشفاق و شہاب پر تنقید


چلیے پھر یہی کر گزریے کہ ناقدین کا گلہ گھونٹ کر اپنے خداؤں کو تنقید سے بچا لیجیے۔ آپ کے مزاج فقط اس لیے برہم ہیں کہ لوگ بانو قدسیہ۔ اشفاق احمد۔ اور قدرت اللہ شہاب پر تنقید کیوں کرتے ہیں۔ کیا اختلاف روا رکھنا یا تنقید کرنا گناہ کبیرہ ٹھہر گیا ہے۔ ایک کہانی جو لکھی گئی ہے۔ اک سبق جو پڑھایا گیا ہے۔ ایک سوچ جس کا پرچار کیا گیا ہے۔ اس پر تنقید تو ہو گی۔ لوگ پہلے ہی آزادانہ بول نہیں سکتے اور اب آپ چاہ رہے ہیں کہ لوگوں کے تخلیق کیے ہوئے ادب پر تنقید بھی نہ ہو۔ اب اس جہالت پر کیا ڈگڈگی بجائیں کہ تنقید سے کوئی اوج ثریا سے کھائی میں نہیں گر جاتا۔ مگر آپ لوگ تو شخصیات کے اسیر ہیں۔ مکہ کے کفار لات و منات و عزی کو پوجتے تھے اور آپ کن کی پرستش کرتے ہیں۔ نام پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔ آپ امام مالک کی سیرت سے واقف نہیں ہوں گے۔ گر ہوتے تو تنقید سے کبھی منع نہ کرتے۔ امویوں کا دور حکومت ہے۔ بولنے پر پابندی ہے کہ ملوکیت کا یہی ثمر ہوتا ہے۔ مگر کچھ درویش پھر بھی بے باکی سے باز نہیں آتے اور بازو تڑوا لیتے ہیں۔ امام مالک بھی انہی میں شامل ہیں۔ موطا پڑھنے سے آپ امام کا مقام بخوبی سمجھ جائیں گے۔ امام نے رسالت مآبﷺ کی قبر کی طرف انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ صرف اس قبر والے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ باقی ہر ذی روح سے اختلاف روا رکھا جا سکتا ہے۔ دلیل آپ نے یہ دی کہ لوگ بانو قدسیہ۔ اشفاق احمد اور قدرت اللہ شہاب پر تنقید کر کے مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ معلوم نہیں لوگ باطن کو کیسے کھنگال لیتے ہیں۔ نیتوں کے حال تو خدا ہی جانے ہے مگر بندے کیوں خدا بنے جاتے ہیں۔

سورہ توبہ کیا آپ نے نہیں پڑھ رکھی۔ ”اے نبی! مدینہ کے اردگرد ایسے منافق ہیں جن کو آپ بھی نہیں جانتے (کہ وہ منافق ہیں )۔ جب سردار الانبیا کو بھی یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ لوگوں کی نیتیں جان سکیں تو آپ کیسے قادر ہو گئے کہ لوگوں کی نیتوں پر فیصلے صادر کریں کہ وہ تنقید مشہور ہونے کے لیے کرتے ہیں۔ آپ ویسے تو ہر دم قوم کی اخلاقی رہ نمائی فرماتے ہیں اور اکثر سر بازار دہائی بھی دیتے ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر بد تمیزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ان تین شخصیات پر تنقید کرنے والوں کے بارے میں آپ نے جو سوشل میڈیا پر لکھا ہے وہ اس قدر اخلاق سے گرا ہوا ہے کہ اس کا حوالہ دیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ غالب نے پھر کس کے لیے کہا تھا کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

کیا اندھی عقیدت نے آپ کی عقل کا بار اٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔ شاید اب یہی ہوا چلے گی کہ کسی طرح تنقید کا خاتمہ کیا جائے۔ فارمولہ ہم بتائے دیتے ہیں۔ جس طرح آپ نے تین لوگوں کے نام دیے ہیں کہ ان پر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح ہر شخص تین تین لوگوں کے نام دے اور ساتھ یہ بھی لکھ دے کہ ان پر تنقید کرنے والا بد نیت اور مردود ہے جو اس لیے تنقید کر رہا ہے کہ مشہور ہونا چاہتا ہے۔ امید ہے کہ تنقید روکنے کے خاطر خواہ نتائج نکلیں گے۔ کوئی تو ساقی آئے جو خرد کی دوا پلائے کہ تنقید سے معاشروں میں بہتری آتی ہے۔ کبھی کبھی یہ خیال گزرتا ہے کہ لوگوں کی ذہنیت ہی فقط اس بنیاد پر استوار کی گئی کہ جب تم دیکھو کہ تمھارے نظریات پر یا تمھاری پسندیدہ شخصیات پر کوئی تنقید کر رہا ہے تو لٹھ لے کر چڑھ دوڑو۔ اس بات کی مطلقاً پروا نہ کرو کہ ناقد کی بات کس قدر درست ہے۔ بس مخالف کو چیر پھاڑ ڈالو۔

یہ اگر ممکن نہ ہو تو اس کی کردار کشی میں لگ جاؤ۔ جھوٹے الزام بھی لگانا پڑ جائیں تو کچھ پروا نہ کرو۔ آخر جھوٹ بولنا کوئی بری بات تھوڑی ہے۔ آپ جیسے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہی اس قصے کو دہرا دہرا کر دہرے ہوتے ہیں کہ لوگ سر عام سیدنا عمر پر تنقید کرتے تھے۔ کوئی جمعے کے دوران ٹوک دیتا تھا کہ آج دیر سے کیوں آئے ہو اور کوئی پوچھ لیتا تھا کہ یہ کرتا کیسے بنوایا ہے۔ سیدنا عمر تو امیر المومنین تھے اس لیے ان پر تنقید کی جا سکتی تھی اور آپ نے جن کے نام لکھے ہیں وہ تو فرشتوں سے بھی بلند مقام رکھتے ہیں اس لیے وہ تنقید سے مبرا ہیں۔ صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ آپ کو ڈر کس بات کا ہے۔ لوگوں جانتے ہیں کہ ان تینوں شخصیات کے نظریات کیا تھے اور تنقید کرنے والے کا نقطہ نظر بھی جان جائیں گے کہ وہ کیوں تنقید کر رہا ہے۔ کھرے کو کھوٹے سے الگ ہونے میں آخر دیر ہی کتنی لگتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments