بات چیت کے ذریعے سمجھوتے کی فطری شرائط


افغانستان میں تقریباً نصف صدی سے خون بہ رہا ہے جس کا آغاز 1975 ء سے سوویت یونین کی سیاسی مداخلت سے ہوا۔ اس نے ظاہر شاہ کا تختہ سردار داؤد کے ذریعے الٹا جو پختون نیشنلسٹ اور اشتراکی نظریات سے متاثر تھا۔ اسے جلد ہی احساس ہو گیا تھا کہ افغان معاشرہ بنیادی طور پر مذہبی معاشرہ ہے جس میں اشتراکی نظام کے خلاف ایک گونہ مزاحمت پائی جاتی ہے، چنانچہ اس نے سوویت یونین کی جبریت سے باہر نکلنے کی روش اختیار کی، تو اسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔

یہی حشر حفیظ اللہ امین کا بھی ہوا۔ اس کی جگہ ببرک کارمل برسراقتدار لایا گیا جو غیر پختون تھا۔ افغان عوام سرکشی پر اتر آئے جسے دبانے کے لیے سوویت یونین افغانستان میں فوجیں لے آیا، مگر اسے عبرت ناک شکست سے دوچار کرنے میں پاکستان کی قیادت نے اہم کردار ادا کیا۔ روسی فوجیں مارچ 1989 ء تک افغانستان کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک کر دریائے آمو کے پار چلی گئیں۔

صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے امریکہ، سوویت یونین اور اپنی سیاسی قیادت کو بڑی دلسوزی سے یہ سمجھانے کی سرتوڑ کوشش کی کہ فوجوں کے انخلا سے پہلے افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام اشد ضروری ہے، ورنہ خون کی ندیاں بہتی رہیں گی اور امن کا قیام ایک خواب پریشان بن کے رہ جائے گا۔ مفاد پرستوں نے ان کی درد بھری آواز پر توجہ نہیں دی اور مجاہدین آپس ہی میں دست و گریباں ہو گئے اور ہولناک خانہ جنگی سات سال جاری رہی۔

ملاعمر نے قندھار میں طالبان کے نام سے تنظیم قائم کی جس نے عوامی حمایت کے بل بوتے پر وار لارڈز کو اسلحہ رکھ دینے پر مجبور کیا۔ ملک میں تقریباً بیس برس بعد امن قائم ہوا اور اہل وطن کو منشیات کی لعنت سے بھی نجات ملی۔ پاکستان نے سب سے پہلے طالبان حکومت کو تسلیم کیا اور سعودی عرب، امارات نے بھی ساتھ دیا۔ دریں اثنا امریکہ میں نائن الیون کا حادثہ پیش آیا جس کا سارا الزام القاعدہ پر تھوپ دیا گیا۔ اسامہ بن لادن اس کے روح رواں تھے۔ ان کا تعلق سعودی عرب سے تھا، لیکن وہ افغانستان میں قیام پذیر تھے۔ امریکہ نے طالبان حکومت سے انھیں اس کے حوالے کر دینے کا مطالبہ کیا۔ جواب ملا ہم اپنا مہمان کسی کے حوالے نہیں کرتے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی رو سے تمام ارکان ممالک افغانستان کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی فوجیں بھیجنے کے پابند تھے۔ پاکستان کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے بے چون و چرا فضائی اسپیس بھی فراہم کر دی اور ہوائی اڈے بھی دے ڈالے۔ امریکی اور نیٹو افواج نے طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اندھادھند بمباری سے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ کر ڈالے۔ بیس برسوں تک افغان عوام کو مزاحمت کی کڑی سزا ملتی رہی اور طالبان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے نئے نئے حربے استعمال کیے گئے، لیکن اسلام سے وابستہ عوام ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے۔

امریکہ نے اس دوران جعلی انتخابات کے ذریعے کابل میں اپنی من پسند حکومتیں قائم کیں اور تین لاکھ نفوس پر جدید اسلحے سے لیس افغان فوج کھڑی کی جس پر دو کھرب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی اور دوحہ میں فروری 2020 ء میں معاہدہ طے پایا۔ ان مذاکرات کی بنیاد پر عالمی سطح پر افغان طالبان افغانستان کے نمائندہ کے طور پر تسلیم کر لیے گئے، تاہم افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات اس لیے ناکام رہے کہ امریکی حمایت سے قائم افغان حکومت مفاہمت کے بنیادی تقاضے پورے کرنے پر تیار نہیں تھی۔ افغان طالبان شدید نامساعد حالات اور آزمائشوں کے باوجود اسلامی نظام کے نفاذ اور عوام کے دکھوں کا مداوا فراہم کرنے کا عزم دہراتے رہے جس کا احترام ازبس ضروری ہے۔

افغان طالبان کا جو وفد محترم اعجاز الحق سے اظہار تعزیت کے لیے آیا تھا، اس نے وہ تمام شکوک و شبہات دور کر دیے ہیں جو ان کے بارے میں مغرب اور ہمارے سیکولر حضرات پھیلاتے آئے ہیں۔ انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ ہم نے ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ہم اعتدال سے معاملات چلانا اور تمام شراکت داروں کو اقتدار میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی اعلان ہو کیا کہ ہم انسانی آزادیوں کا پورا پورا خیال رکھیں گے اور خواتین کے حقوق اور معاشرے میں ان کی باوقار اور جداگانہ حیثیت کا تحفظ کریں گے۔

اس ملاقات کا احوال روزنامہ جنگ میں شائع ہوا، تو اس کے نہایت خوشگوار اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ افغان طالبان نے میری تحریر پر اچھا ردعمل ظاہر کیا اور ایک وڈیو فلم میں محترم اعجاز الحق کو پیغام بھیجا کہ پہلی بار پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے روزنامے میں ہمارا صحیح امیج پیش ہوا ہے۔ ہمیں عالمی برادری کے ساتھ چلنا اور اپنی اسلامی ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے۔ انہوں نے اس امر کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ ہم اہل پاکستان کی سلامتی کی بڑی قدر کرتے ہیں اور بھارت سے الگ تھلگ رہنا چاہتے ہیں جس کے طیارے ہم پر بم برساتے رہے ہیں۔ ہزارہ گروپ سے اچھے تعلقات قائم ہونے پر ایران نے یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چین، پاکستان، روس اور ایران، افغانستان میں قیام امن میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

افغان طالبان کی قیادت میں صحت مند سوچ پروان چڑھ رہی ہے جسے مزید توانا اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے پاکستان کے ارباب اختیار اور میڈیا پر لازم آتا ہے کہ وہ کشادہ دلی سے کام لیں اور مفاہمت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تمام فریقوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ اس حقیقت کا اعتراف پاکستان میں اونچی سطح پر برملا ہونے لگا ہے کہ افغان طالبان میں بڑی تبدیلی آ چکی ہے اور اب انہیں یہ اعلان بھی کرنا ہو گا کہ وہی افغانستان کی نمائندہ طاقت ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔

نوٹ: گزشتہ چند ہفتوں میں بڑی بڑی ہستیاں اور کہکشائیں بجھ گئی ہیں۔ دو روز پہلے اس وین میں زبردست دھماکہ ہوا جس میں تین درجن کے قریبی چینی اور چند پاکستانی سوار تھے۔ فضا سوگوار ہے اور اس حادثے نے بہت بڑے سوالات اٹھا دیے ہیں، ان پر اگلی نشست میں گفتگو ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments