ساڑھے تین ماہ کا بچہ جو انڈین ریاست گجرات سے دو مرتبہ اغوا اور پھر بازیاب ہوا


مینا کا بچہ

’میں اب اپنے بچے کو اپنی نظر سے کسی صورت میں دور نہیں کر سکتی۔‘

یہ کہنا ہے ریاست گجرات کے شہر گاندھی نگر کی ایک غریب مزدور خاتون مینا وادھی کا۔ مینا کا تعلق انڈیا کی مغربی ریاست گجرات سے ہے اور وہ ایک مزدور ہیں۔

مگر وہ اپنے بچے کو اپنی نظر سے دور کیوں نہیں کر سکتیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا لگ بھگ ساڑھے تین ماہ کا بچہ پیدائش کے بعد سے اب تک دو دفعہ اغوا کیا جا چکا ہے مگر ان کی خوش قسمتی ہے کہ یہ بچہ اب ان کے پاس ہے، ان کی نگاہوں کے سامنے۔

بی بی سی گجراتی سروس کی بھارگاوا پارکھ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اتنے چھوٹے بچے کو دو مرتبہ کیوں اور کیسے اغوا کیا گیا اور بار بار وہ بازیاب کیسے ہوتا رہا۔

اگرچہ انھیں اپنا بچہ واپس مل چکا ہے مگر 25 سالہ مینا اب تک صدمے سے دوچار ہیں۔ مینا کی اس مشکل کا آغاز یکم اپریل کو اس بچے کی پیدائش کے ایک دن بعد سے ہوا، جب وہ ہسپتال سے واپس گھر لوٹی تھیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ بچے کی پیدائش کے بعد ایک عورت، جس نے اس ہپستال کی ایک نرس ہونے کا دعویٰ کیا تھا جہاں بچے کی پیدائش ہوئی تھی، اُن کے گھر آئی اور مینا سے کہا نومولود کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی ضرورت ہے۔ اس خاتون کی باتوں میں آ کر مینا اس عورت کے ساتھ اپنے بچے کو ہسپتال لے کر چلی گئیں۔ ہسپتال جا کر اس خاتون نے اُن سے ان کا بچہ لیا اور انھیں وہاں بچے کی تصویر بنوانے تک انتظار کرنے کو کہا۔

گھنٹوں گزر گئے لیکن وہ عورت واپس نہ آئی۔ بچے کی فکر میں مینا نے بے چینی میں ادھر ادھر اس عورت کی تلاش شروع کر دی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میرا رونا دھونا سُن کر ہسپتال کا سکیورٹی گارڈ میرا پاس آیا اور پوچھا کیا ہوا ہے۔ جب میں نے اسے ساری بات بتائی تو انھوں نے پولیس کو بلا لیا۔‘

انڈیا کی وزارت بہبود خواتین و بچگان کے مطابق گذشتہ برس کے دوران ملک میں 43 ہزار سے زیادہ نومولود بچے لاپتہ ہوئے۔ گجرات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 3500 بچے ہر سال غائب ہو جاتے ہیں۔

بچے

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ غریب والدین کم ہی ایسے واقعات کی رپورٹ لکھواتے ہیں۔ مگر مینا اور ان کے شوہر کانو نے فوراً پولیس کو اس واقعے کی رپورٹ درج کروائی تھی۔

بچے کی تلاش

پولیس انسپکٹر ایچ پی زالا جو اس بچے کی تلاش کی تفتیش کی سربراہی کر رہے تھے کا کہنا ہے کہ ’مینا کو اس خاتون کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا، وہ اس کا نام تک نہیں جانتی تھی۔ حتیٰ کہ وہ اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتا پا رہی تھی۔‘

لہذا پولیس انسپکٹر زالا اور ان کی ٹیم نے ہسپتال کے سی سی ٹی وی کیمروں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا جہاں انھیں اس عورت کے متعلق پہلا سراغ ملا۔ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں انھیں ایک عورت مرکزی شاہراہ پر چلتے دکھائی دی جس نے اپنی ساڑھی کے نیچے ایک گٹھری چھپا رکھی تھی۔ کیا یہ بچہ ہو سکتا ہے؟ یہ بتانا مشکل تھا۔

تقریباً پچاس رکشہ ڈرائیوروں سے پوچھ گچھ کے بعد انھوں نے اس گتھی کو سلجھا لیا کہ معاملہ کیا ہے؟

فوٹیج میں نظر آنے والی عورت نے قریبی گاؤں جانے کے لیے رکشہ لیا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ اس عورت کے پاس ایک بچہ تھا۔

دوبارہ پولیس نے اس گاؤں میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کو دیکھا اور وہاں موجود دکانداروں سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی اور وہ اس تمام معلومات اور سراغوں کا پیچھا کرتے ہوئے پولیس ایک اور گاؤں تک پہنچ گئی جہاں اس عورت کو اطلاعات کے مطابق آخری بار دیکھا گیا تھا۔

اس علاقے میں تلاش انھیں ایک غیر آْباد فارم تک لے گئی جہاں انھیں اس عورت کے کپڑے اور قومی شناختی کارڈ ملا۔ اس گتھی کو سلجھاتے ہوئے وہ اس شناختی کارڈ پر درج پتے پر پہنچے تو انھیں وہ عورت ایک بچے کے ساتھ مل گئی۔

مگر یہ بچہ مینا کا نہیں تھا۔

اس عورت نے پولیس کو بتایا کہ اس کا شوہر ایک اور عورت کے ساتھ بھاگ گیا ہے جس نے مبینہ طور پر اس کی کچھ چیزیں چرائی جن میں وہ شناختی کارڈ بھی شامل ہے جو پولیس کو ملا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ بچہ اس کی دوسری شادی سے ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ باپ جس نے 24 برس تک بیٹے کی تلاش میں اپنی ہڈیاں تک تڑوا لیں

وہ لڑکا جسے نابینا بھکاریوں کو راستہ دکھانے کے لیے اغوا کیا گیا

’لندن سے اغوا کر کے زبردستی سیکس ورکر بنا دیا‘

چین: والدین کو 32 برس قبل اغوا ہونے والا بیٹا دوبارہ مل گیا

پولیس انسپکٹر زالا نے بتایا کہ ’اس عورت کے بتائے گئے پتے پر ہم نے اس کے شوہر اور اس عورت کی تلاش شروع کی دی اور ہمیں وہ جوڑا ایک بچے کے ساتھ مل گیا۔‘

ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے یہ ثابت ہو گیا کہ اس عورت کے پاس مینا کا بچہ تھا۔ اس جوڑے کو گرفتار کر لیا گیا لیکن وہ اس کے بعد سے ضمانت پر رہا ہے۔

اس عورت نے مبینہ طور پر مینا کے بچے کو اغوا کرنے اور اس غیر آباد فارم میں اپنے شوہر کی پہلی بیوی کے کپڑوں اور شناختی کارڈ کے ذریعے پولیس کو دھوکہ دینے کی کوشش کے جرم کو تسلیم کیا۔

لیکن اس کے شوہر نے پولیس کو بتایا کہ وہ اس بچے کے اغوا کے متعلق کچھ نہیں جانتا اور اس نے یہ سمجھا کہ یہ بچہ اس کا ہے۔

اس خاتون کا کہنا تھا کہ اس نے ایک نوزائیدہ بچے کو جنم دیا تھا جو پیدائش کے وقت ہی مر گیا، اور اسے خوف تھا کہ اگر وہ بیٹے کے بنا گھر واپس جائے گی تو اس کا شوہر اسے نہیں چھوڑے گا۔

مینا کا بچہ

مینا اہنے بیٹے کے ساتھ

پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی کہانی غیر معمولی نہیں ہے۔

سابق پولیس آفیسر دیپک ویاس کا کہنا تھا کہ ’یہاں والدین میں بیٹیوں کی جگہ بیٹوں کے پیدا ہونے کی خواہش ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ‘انھیں بس بیٹے چاہییں، چاہے اس کے لیے انھیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ اس لیے وہ غریب خاندانوں کے بچے اغوا کر لیتے ہیں۔‘

بچے کے اغوا کی دوسری کوشش

مینا اور کانو اپنے بچے کو واپس پا کر بہت خوش تھے لیکن ان کی یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ بچے کے ملنے کے دو ماہ بعد وہ نو جون کو دوبارہ لاپتہ ہو گیا۔

مینا کا کہنا ہے کہ وہ کچرا اٹھا رہی تھی اور اس کا بچہ ایک درخت کے نیچے سو رہا تھا مگر جب وہ واپس آئیں تو بچہ اپنے جھولے میں نہیں تھا۔

پولیس انسپکٹر زالا کا کہنا ہے کہ جب یہ جوڑا دوبارہ دوڑتا ہوا پولیس تھانے پہنچا تو وہ انھیں دیکھ کر وہ حیران ہوئے۔ دوبارہ سی سی ٹی وی فوٹیج نے واقعے کا سراغ لگانے میں مدد دی۔ بچے کے غائب ہونے والے دن کی فوٹیج میں ایک آدمی کو علاقے میں موٹر سائیکل پر ایک بچے کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔

لیکن جب پولیس اس کا کھوج لگا کر اس تک پہنچی تو اس آدمی کا کہنا تھا کہ اس دن موٹر سائیکل پر وہ نہیں تھا بلکہ اس کا ایک دوست تھا جو ریاست گجرات کی قریبی ریاست راجستھان میں رہتا ہے۔

پولیس انسپکٹر زالا کی ٹیم نے راجستھان کی پولیس سے رابطہ کیا اور دونوں ٹیموں نے اس شخص کے گھر چھاپہ مارا۔ وہاں انھیں وہ بچہ مل گیا۔ وہ شخص اور اس کی بیوی تب سے گرفتار ہیں۔ انھوں نے پولیس کو بتایا ہے کہ انھوں نے مینا کا بچہ اس لیے اغوا کیا تھا کیونکہ وہ بے اولاد ہیں۔

پولیس انسپکٹر زالا نے بتایا کہ ‘بچے کو اغوا کرنے والا شخص تعمیراتی شعبے میں بطور ٹھیکیدار کام کرتا ہے اور وہ مینا کے شوہر کے ساتھ ایک تعیمراتی سائٹ پر کام کرتا تھا اور جب اسے بچے کی پیدائش کا علم ہوا تو اس نے اس کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا۔‘

اس واقعے کے چار روز بعد مینا ایک بار پھر سے اپنے بیٹے کے ساتھ تھیں۔ اب علاقہ پولیس باقاعدگی سے اس خاندان اور بچے کو دیکھنے آتی ہے اور مینا کا کہنا ہے کہ وہ اس کے لیے کھلونے لاتے ہیں اور اس کے ساتھ کھیلتے ہیں۔

مینا کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس اسے ہم سے زیادہ پیار کرتی ہے۔‘

پولیس انسپکٹر زالا نے بھی اس کی تردید نہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم بچے کو اپنے نظروں سے دور نہیں کر سکتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp