آزاد کشمیر کے انتخابات


میرا ایک چھوٹے بھائیوں جیسا دوست ہے۔ سیاست و صحافت میں دلچسپی تو کیا اس کے بارے میں گفتگو بھی پسند نہیں کرتا۔ امریکہ کی ایک مشہور یونیورسٹی سے مگر اس کی بیوی نے ابلاغ کا ہنر سیکھا ہے۔ شادی کے بعد وہ پاکستان میں صحافت کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ میں نے بہت مشکل سے اسے قائل کیا کہ بھول جائے۔ ابتدا مجھ سے دل شکنی والی تقریر سنتے ہوئے خفا رہی ہے۔ میرا انجام دیکھ کر اب مگر سمجھ چکی ہے۔ کئی بار بہت چاؤ سے نہاری وغیرہ بناتی ہے اور مجھے مدعو کر کے داد سمیٹنا چاہتی ہے۔ میں اس کی گفتگو سے ہمیشہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

میرا دوست کاروباری ہے۔ ہمہ وقت اپنا دھندا چمکانے میں مصروف رہتا ہے۔ کاروبار ہی کے سلسلے میں تقریباً تین ماہ قبل اسے آزاد کشمیر جانا پڑا۔ اس کی بیوی کبھی آزاد کشمیر نہیں گئی تھی۔ اس کے ساتھ سیاحت کی خاطر روانہ ہو گئی۔ آزاد کشمیر سے لوٹنے کے چند دن بعد مجھے کھانے کے لئے بلایا۔ ان کے ہاں موجودگی کے دوران ایک رپورٹر اور سفر نامہ لکھنے والے ادیبوں کی طرح خاتون خانہ اپنے مشاہدات و تاثرات بیان کرتی رہی۔ اس کے مشاہدے میں آئی ایک بات نے مجھے چونکا دیا۔

میرے دوست اور اس کی بیوی کو آزاد کشمیر کا ایک رہائشی ڈرائیور اسلام آباد سے وہاں لے کر گیا تھا۔ میری میزبان خاتون نے بتایا کہ جیسے ہی وہ مری سے گزر کر مظفر آباد کی حدود میں داخل ہوئے تو ڈرائیور نے انگریزی میں اسے ”ویل کم ٹو خیبر پختونخوا“ کہتے ہوئے حیران کر دیا۔ ہنر ابلاغ کی طالب علم نے سنجیدگی سے استفسار کیا کہ اس نے یہ الفاظ کیوں ادا کیے ہیں۔ ڈرائیور نے میری میزبان کو بتایا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے نئے انتخابات ہونے والے ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدوار ان کی بدولت زیادہ تعداد میں جیت کر حکومت بنائیں گے کیونکہ آزاد کشمیر کے ووٹر روایتی طور پر اسی جماعت کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں جو وفاق میں بھی برسراقتدار ہو۔ ڈرائیور کا دعویٰ تھا کہ آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو گئی تو بعد ازاں وہاں کے ”ریاستی“ تشخص کو بدلنے کی کوشش ہوگی۔ اس کے نتیجے میں نتھیاگلی اور ایبٹ آباد کی قربت کی وجہ سے مظفر آباد خیبرپختونخوا میں ماضی کے قبائلی علاقوں کی طرح مدغم بھی ہو سکتا ہے۔

واقعہ سنا کر میری رائے جاننے کی کوشش ہوئی۔ میں نے دانشورانہ رعونت سے ڈرائیور کے بیان کردہ خدشات کا تمسخر اڑایا۔ مصر رہا کہ آزاد کشمیر کو ”ریاست“ کے بجائے ”صوبہ“ بنا کر پاکستان عالمی برادری کے روبرو مودی سرکار کی جانب سے 5 اگست 2019 کے دن لئے اقدامات کی توثیق کرتا نظر آئے گا۔ آزاد کشمیر کا ”ریاستی تشخص“ لہٰذا ہر صورت برقرار رہے گا۔ میزبانوں کے پاس میری رائے رد کرنے کے لئے کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں تھی۔ محض ایک ڈرائیور کے بیان کردہ خدشات تھے۔

آج سے چند دن قبل لیکن مجھے کئی دوستوں کی جانب سے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے ایک خطاب کی وڈیو بھیجی گئی۔ انتخابی مہم کے لئے ہوئے ایک جلسے کے دوران وہ انتہائی جذباتی نظر آرہے تھے۔ ان کی جذباتی تقریر کے دوران نوجوان سامعین کا ایک گروہ تواتر سے ایک نعرہ بھی بلند کرتا رہا۔ وہ نعرہ تھا : ”بچہ بچہ کٹ مرے گا۔ کشمیر صوبہ نہیں بنے گا“ ۔ وہ وڈیو دیکھتے ہی میں نے میزبان خاتون کو فون کیا۔ نہایت خلوص سے اعتراف کیا کہ ہنر ابلاغ کی طالب علم کا مشاہدہ قابل تعریف تھا۔ میں نے دانشورانہ رعونت سے مگر اس پر توجہ نہیں دی تھی۔

مذکورہ کلپ دیکھنے کے بعد ہی میں نے وہ کالم لکھا تھا جس کے ذریعے فکر مندی سے گلہ کیا کہ میرے کئی نوجوان ساتھی اپنی توانائی کو آزاد کشمیر جا کر برسرزمین حقائق کے مشاہدے کے لئے استعمال نہیں کر رہے۔ ہم سب نے فرض کر لیا ہے کہ 25 جولائی کے روز وہاں ہوئے انتخاب میں تحریک انصاف ہی کامیاب ہوگی کیونکہ آزاد کشمیر کے ووٹر اسی جماعت کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وفاق میں بھی حکومت ہو۔ سیاسی عمل میں روایت کی اہمیت کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھرپور انتخابی مہم اگرچہ بسا اوقات حیرتوں کے در بھی کھول دیتی ہے۔ صحافیانہ تجسس تقاضا کرتا ہے کہ ”روایت“ کی وجہ سے نمودار ہوئے ”حقائق“ کا مسلسل جائزہ لیا جائے۔ اقبال نے ویسے بھی کہہ رکھا ہے کہ زندگی میں ثبات فقط تغیر کو نصیب ہوتا ہے۔

بہرحال اخبارات کو بغور پڑھنے کی عادت ریٹائر ہوئے رپورٹر کو یہ دہرانے کو مجبور کر رہی ہے کہ آزاد کشمیر میں جاری انتخابی مہم کا پیشہ وارانہ نگاہ سے تازہ سوالات اٹھاتے ہوئے جائزہ نہیں لیا جا رہا۔ میرے چند دوست بلکہ برسرزمین جائے بغیر 25 جولائی کے روز ہونے والے انتخابات کے ”نتائج“ کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ ان کی دانست میں تحریک انصاف اکثریتی جماعت بن کر ابھرے گی۔ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) تیسرے نمبر پر رہے گی۔

چند ساتھیوں کی جانب سے آزاد کشمیر کے 25 جولائی کے روز ہونے والے انتخابات کے ”نتائج“ کی تصدیق یا تردید کے لئے میرے پاس کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے۔ تاہم اگر وہ درست ثابت ہوئے تو سیاسی اعتبار سے ان کا سب سے زیادہ نقصان محترمہ مریم نواز صاحبہ کو ہوگا۔ حال ہی میں پنجاب میں جو ضمنی انتخابات ہوئے تھے انہوں نے مریم صاحبہ کی Vote Pullingکشش کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا تھا۔ یہ اثر ہمیں پرویز خٹک کے آبائی شہر یعنی نوشہرہ میں بھی نظر آیا۔ ڈسکہ میں دوبار انتخاب کا انعقاد اور اس کے نتیجے میں کاٹنے دار مقابلے کے بعد محترمہ نوشین افتخار کا انتخاب مذکورہ بالا تناظر میں اہم ترین رہا۔ آزاد کشمیر میں مریم نواز صاحبہ کے بھرپور جلسوں کے باوجود اگر 26 جولائی کی صبح نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت تیسرے نمبر پر نظر آئی تو ووٹروں کو متحرک کرنے کے حوالے سے مریم نواز صاحبہ کے امیج کو خاصہ دھچکا لگے گا جس کے اثرات مسلم لیگ (نون) کی اندرونی سیاست پر بھی تیزی سے اثرانداز شروع ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments