ملالہ نے آخر اس ملک کے لیے کیا ہی کیا ہے؟


اب یہ موسم مری پہچان طلب کرتے ہیں
میں جب آیا تھا یہاں، تازہ ہوا لایا تھا
اس بات کو چھوڑیے کہ کتاب کیوں ضبط ہوئی۔ اس ملک میں یوں بھی کتابیں ضبط ہوتی ہیں اور سگ آزاد پھرتے ہیں۔ کون سی نئی بات ہے۔

خدمات کی بات کرنے والے بتا دیں کہ علامہ اقبال کی پاکستان کے لیے کیا خدمت ہے۔ یاد رہے کہ خطبہ الہ آباد کے بعد انہوں نے اپنے ایک خط میں ہر اس شخص کو فاتر العقل مجرم قرار دیا تھا جو مسلمانوں کے الگ ملک کی بات کرتا تھا۔

سرسید کی وجہ سے آپ کی میری زندگی میں کیا آسانی آ گئی۔ فاطمہ جناح کے کریڈٹ پر جناح کی بہن ہونا نہ ہوتا تو کیا کوئی انہیں صدارتی انتخاب کے لیے جھوٹے منہ بھی پوچھتا۔

آج وہ کالم نگار جن کی زندگیاں آمریت کے لگائے گئے پودوں اور دہشت گردوں کی تحسین میں گزر گئیں، پوچھتے ہیں کہ ملالہ کی کیا خدمت ہے

2008 میں جب ہمارے منتخب نمائندے اور سالار خوف سے تھر تھر کانپتے تھے، یہی گیارہ سال کی بچی تھی جو پشاور پریس کلب میں اعلان کر رہی تھی کہ طالبان کی کیا جرات کہ وہ مجھ سے سے میرا تعلیم کا حق چھینیں۔

2009 سے یہی بچی بی بی سی کے لیے ڈائری لکھتی ہے۔ تعجب ہے کہ دنیا کی سرخیل یہودی قوم نے بھی بس ایک ڈائری لکھنے والی این فرینک کے بارے میں کبھی نہیں کہا کہ اس کی یہودی قوم کے لیے کیا خدمات ہیں۔ یہ ڈائری ظلم کے خلاف ایسا ہی استعارہ تھی۔ فرق یہ ہے کہ این فرینک کی قوم زندہ تھی اور ہے اور ہماری قوم بس زومبیوں کا ہجوم تھی اور ہے۔

2009 میں ہی جب ہمارے عظیم سیاسی اور مذہبی لیڈر ہالبروک کی نگاہ التفات کے متمنی تھے تو یہی بچی ان سے تعلیم حاصل کرنے میں مدد کے مطالبے کے علاوہ کچھ نہیں چاہ رہی تھی۔

2011 میں اسی ملک ضیاءداد میں ایک تیرہ چودہ سالہ بچی کو پہلا نیشنل یوتھ پیس پرائز دیا گیا۔ اس وقت فاضل کالم نگاروں کو شاید توفیق نہ ہوئی کہ پوچھتے اس کی کیا خدمات ہیں۔

پیپلز پارٹی کے دور میں ہی حکومت نے سوات میں ایک کالج اور سکول کا نام ملالہ کے نام پر رکھا۔ اس وقت بھی ہمارے کالم نگار پوچھنا بھول گئے کہ بھئی کس خدمت کے بدلے؟

جس وقت یہ چودہ سال کی بچی پاکستان میں بچیوں کے پہلے تعلیمی فنڈ پر کام کر رہی تھی ہمارے کالم نگار بھاری پگڑیوں والے اور نورانی چہرے والے طالبان کی مدح سرائی میں مصروف تھے۔

جب سوات اور وزیرستان میں بچیوں کے سکول بم سے اڑائے گئے تو سب سے اونچی آواز پھر ملالہ ہی کی تھی۔ ہمارے کالم نگار اس وقت اپنی گاڑی مکینک سے ٹھیک کرانے میں مصروف تھے۔

طالبان نے تاریخ میں پہلی دفعہ ایک بچی کو براہ راست قتل کی دھمکی دی۔ آج ملالہ کی جرات پر سوال اٹھانے والے اس وقت ڈیرہ غازی خان کے سکولوں میں ”خوش آمدید طالبان“ کے ترانے گا رہے تھے۔

بات صرف دھمکی تک نہیں رہی بلکہ طالبان شوریٰ نے اس قتل کی اجازت دی اور اس کے بعد جو ہوا، سب جانتے ہیں۔

آج اس حملے کو دھوکا کہنے والے اسی آرمی کے گن گاتے ہیں جس نے لمحہ بہ لمحہ نہ صرف اس واقعے کو رپورٹ کیا بلکہ ملالہ کے ابتدائی آپریشن بھی اسی آرمی کے سرجنز نے کیے۔ شاید یہ سب بھی مغرب کے پے رول پر تھے۔

ملالہ گولی لگنے کی وجہ سے ہیرو نہیں بنی، بلکہ ہیرو ہونے کی وجہ سے اسے گولی کھانی پڑی۔ اس حملے کو فراڈ سمجھنے والے لوگوں کی آواز کا نتیجہ جب اے پی ایس کے قتل عام کی صورت میں سامنے آیا تب بھی ان احمقوں کو ہوش نہیں آیا۔

ہم میں سے کتنے لوگوں نے طالبان کے خلاف آواز اٹھائی ہے؟ کتنے لوگوں نے ایک محاذ جنگ میں ہوتے ہوئے ظالموں کے خلاف آواز بلند کی ہے؟ کتنے لوگوں نے بچیوں کی تعلیم کے لیے کچھ کیا ہے؟ اور کتنے لوگوں نے اس مشن کے لیے گولی کھائی ہے۔

ملالہ نے جدوجہد کرتے ہوئے گولی کھائی ہے، وہ اس لیے ان سب سے مختلف ہے جو گھر سے سکول جانے کے لیے نکلے لیکن لوٹ کر نہیں آئے۔ اسی اے پی ایس کا ولید ہو یا ملالہ کے ساتھ زخمی ہونے والی کائنات اور شازیہ۔ سب آج انگلینڈ میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کا علاج اور ان کی تعلیم بھی اسی ملالہ کی بدولت ہوا جس سے یہ کالم نگار پوچھ رہے ہیں کہ وہ ان سے مختلف کیونکر ہے۔

ملالہ کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ زندہ بچ گئی اور ہماری احساس کمتری کی ماری قوم یہ برداشت نہ کر سکی کہ دنیا بھی کسی پاکستانی کو سراہ سکتی ہے وہ بھی ایک بچی کو۔ ملالہ پر تنقید کے دفتر کا ماخذ کوئی تحقیق یا حقیقی اندیشہ نہیں بلکہ صرف احساس کمتری ہے۔ ہم یہ کیسے مان لیں کہ جس عمر میں ہم الفاظ کے ہجے بھی صحیح نہیں کر پاتے تھے اس عمر میں ایک بچی نوبل انعام جیت سکتی ہے۔ اس کی ایک اور ثانوی وجہ ہمارے دلوں میں بسی طالبان کی وہ محبت ہے جس پر اے پی ایس سانحے کے بعد ہمیں مجبوراً پردہ ڈالنا پڑ گیا۔

محمد حنیف کا یہ تبصرہ ہزار کالموں پر بھاری ہے۔ اس لیے اس پر بات ختم کرتے ہیں۔

چھوٹی عمر میں جنگ چھڑ جائے تو ملالہ جیسی لڑکیاں للکارتی بھی ہیں، سر میں گولیاں کھا کر بھی گالی نہیں دیتیں۔ کرموں والی نے نوبل پرائز بھی جیت لیا ہے، لیکن اس کی عمر کا لڑکا باپ کی کمائی سے خریدے سمارٹ فون پر فیس بک اکاؤنٹ بنا کر بہت خوش ہو جاتا ہے اور پوچھتا ہے ”وٹ ہیز ملالہ ڈن فار دس کنٹری؟“

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments