اب کتاب میں بھی ملالہ


ھم سادہ دل والوں کا خون جلانے کو یہی بہت کافی ہے کہ وقفے وقفے سے ملالہ کسی میگزین یا ٹی وی پہ نظر آئے اور زمانے بھر کی توجہ حاصل کر لے۔ آخر اس لڑکی میں ایسا کیا ہے کہ لاکھوں ستارے گمنام رہ جاتے ہیں اور یہ ایک کے بعد دوسری منزل عبور کرتی چلی جاتی ہے؟ ملالہ کے پیچھے سرگرم لابی کی تازہ واردات نے تو ہمارے دل کے ساتھ روح کو بھی پھونک ڈالا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، سیدھا اس کی تصویر سکول کی کتاب میں چھاپ دی، جہاں کم سن بچے اس کے شر سے ہر گز محفوظ نہ رہ سکیں۔ بھلا ہو ان کا جنھوں نے اس فتنے کا تدارک کرنے کی ٹھانی، وہ تمام کتابیں قبضے میں لینا شروع کیں اور ہمارے معصوم بچوں کو فتنے سے بچا لیا۔

بلاشبہ ہم ایسی کوئی مثال اپنے بچوں کو نہیں دینا چاہتے جس سے وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی تربیت لیں۔

ہم کس منہ سے اپنے بچوں کو بتا پاتے کہ ایک کم سن لڑکی بھی اپنی آواز سے ساری دنیا کو ہلا سکتی ہے؟ ہمارے معصومین کے لیے وہی مثال مناسب ہے کہ ایک مقید دوشیزہ کسی محمد ابن قاسم سے فریاد کیا کرے۔ ہم ہرگز یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ کل کو ملالہ کی شبیہ والی کتابیں پڑھ کے کوئی اور بیٹی ایک ایسا سوال اٹھا دے کہ ہمارے پاس نظریں چرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو۔ ایسا نہیں کہ ہم بچیوں کے حقوق کے خلاف ہیں، آئین اور قرآن میں سب لکھ رکھا ہے، مگر معاشرے کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں نا۔

چلیے مان لیتے ہیں کہ ملالہ کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ محض یہود کی سازش ہے، لیکن دل و دماغ چاہے جتنی گہری نیند میں ہوں، اپنا کام بند نہیں کرتے۔ دماغ پھر بھی سوال اٹھاتا ہے، اور دل پھر بھی وضاحت مانگتا ہے۔ دماغ یہ کہتا ہے کہ چلو ملالہ نہ سہی، ہمارے خاکستر میں کوئی تو ایسی چنگاری ہو گی جسے غیر متنازعہ طور پر ہمارے بچوں کو پڑھایا جا سکے۔ آج کے زمانے کی کوئی ایسی مثال جس کا انٹرویو بلا جھجک بچوں کے ساتھ دیکھا جائے اور فخر سے کہیں کہ بیٹا ایسا بن کے دکھاؤ۔

دل یہ کہتا ہے کہ اگر ہماری ارفع کریم کو بے مثال قدرتی ذہانت نصیب ہوئی جس کی وجہ سے اسے بل گیٹس اور دیگر مغربی اداروں کی پذیرائی حاصل ہوئی تو ہم نے فرط مسرت سے اس کی تصویر اپنے سکولوں میں آویزاں کی اور اسے وہ مقام دیا جو اس کا حق تھا، تو پھر تھوڑی سی شفقت اس بیٹی کے لیے کیوں نہیں جسے سکول جانے کی لگن میں سر پہ گولی کھانا پڑی۔ دل تو جانے کیا کہتا ہے، لیکن دل کا کہنا کیا۔

کیا ثمینہ بیگ کی تصویر چھاپی جائے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی کم عمر ترین کوہ پیما ہے جس نے اپنی لگن میں دنیا کی بلند ترین چوٹی بھی سر کر ڈالی؟ زارا نعیم ڈار کی تصویر ہو جو دنیا بھر میں چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کے امتحان میں اول آئی؟ نگہت چودھری کی تصویر لگائیں جن کے رقص سے منظر تھم جاتا ہے؟ یا پھر آمنہ مفتی جو بانو قدسیہ کے بعد اردو ادب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں؟ یا پھر پاکستان کی پہلی لائسنس یافتہ پائلٹ شکریہ خانم جن کی تربیت اور شوق ضیاء کے دور کی تاریکی میں ڈوب گیا۔

مگر کیا کیا جائے کہ ان میں سے اکثر ناموں سے تو کتاب چھاپنے والے بھی ناواقف ہیں اور والدین کو بھی کوئی خاص علم نہیں۔ یقیناً جو غیر ملکی طاقتیں ملالہ کی تشہیر کرتی ہیں وہ دانستہ ہمارے ”اصلی ہیرو“ کا نام نہیں لیتیں ورنہ آج ہماری کشمکش کچھ کم ہوتی، یا پھر چند اور نام متنازعہ ہو چکے ہوتے۔ ہم خود کیوں یہ نام نہیں لیتے، یہ بحث رہنے دیتے ہیں۔ برا ہو ملک دشمنوں کا جو ہمیں ملالہ میں الجھائے رکھتے ہیں، ورنہ ہمارے سچے ہیرو بھی نامور ہوتے۔

فی الوقت ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ کتابوں میں عظیم خواتین کا تصویری سلسلہ محترمہ فاطمہ جناح پہ آ کے رک جائے، اور اگر کوئی بیٹی پوچھے کہ ان کے بعد کیا اس ملک میں کوئی ایسی قابل فخر لڑکی ہے جس نے ہماری طرح کے مسائل سے لڑ کے کامیابی حاصل کی ہو، تو ہم کنی کترا جائیں اور تاریخ کے پنوں سے چند اور نام نکال لائیں۔ اور اگر کسی خودسر بچے نے یہ پوچھ لیا کہ قائداعظم کے بعد محترمہ فاطمہ جناح ملک کی حکمران کیوں نہ بنیں تو اس گستاخ کو دھیمے سے کہیں کہ بیٹا وہ بات کیوں پوچھتے ہو جو بتانے کے قابل نہیں ہے۔

مگر تمام تر کوشش کے باوجود دل یہ وضاحت ضرور مانگے گا کہ کتاب چھین لینے سے کیا ملالہ کا نقش مٹ جائے گا؟

کیا منہ چڑاتا خالی چوکھٹا زیادہ نمایاں نہیں ہو جائے گا؟ دماغ یہ سرگوشی بھی کرے گا کہ ہمارے اصلی ہیرو آخر ہیں کون، اور جو غیر متنازعہ ہیرو ہیں وہ گمنام کیوں ہیں۔ دل میں یہ کھٹکا بھی رہے گا کہ پورا زور لگانے کے باوجود اگر ملالہ کی تصویر کسی بچے کے دل میں لگ گئی تو اسے وہاں سے کیونکر بے دخل کیا جائے گا۔

ستارہ جبین
Latest posts by ستارہ جبین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments