مصر میں خواتین نے خاموشی توڑنے کا فیصلہ کیا: ’فرشتہ صفت شوہر نے میرا ریپ کیا، میرا حمل ضائع ہو گیا‘

وائیل حسین - بی بی سی نیوز، قاہرہ


عورت

مصر میں خواتین جنسی استحصال سے متعلق اپنی خاموشی توڑ رہی ہیں اور حال ہیں میں اب ازدواجی ریپ کے حوالے سے بحث شروع ہوئی ہے، ایک ایسا موضوع جس پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔

34 برس کی صفا (نام تبدیل کیا گیا ہے) کو ان کی شادی کی رات ان کے شوہر نے ریپ کیا اور اس حملے کی وجہ سے انھیں کئی چوٹیں بھی آئیں۔

وہ کہتی ہیں ’میری ماہواری چل رہی تھی اور میں اس رات سیکس کے لیے تیار نہ تھی۔ میرے شوہر کو لگا کہ میں ان کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے بچ رہی ہوں۔ انھوں نے میری پٹائی کی، میرے ہاتھ باندھ دیے، میری آواز کو بند کر دیا اور میرا ریپ کیا۔‘

تاہم معاشرتی دباؤ کے خوف کی وجہ سے صفا نے پولیس میں شکایت درج کرانے سے انکار کر دیا۔

مصر کے پدر شاہی معاشرے میں ظلم کا نشانہ بننے والوں کو ہی مورد الزام ٹھہرانا عام ہے، خاص طور پر جب متاثرہ شخص عورت ہو۔

لیکن اپریل میں مسلمانوں کے اسلامی مہینے رمضان میں جب ایک ٹی وی سیریز ’نیوٹن کریڈل‘ میں ایک مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ زبردستی کرتے دکھایا گیا تو بہت سی خواتین کی بری یادیں تازہ ہو گئیں۔

لیکن اس سے بہت سی خواتین کو سوشل میڈیا پر اس بارے میں بات کرنے کا حوصلہ بھی ملا۔

عورت

کچھ ہی ہفتوں میں فیس بک پر ’سپیک اپ‘ نامی ایک پیج پر تقریباً 700 خواتین نے اس بارے میں اپنے تجربات شیئر کیے اور ان میں سے ایک 27 برس کی ثنا(نام تبدیل کیا گیا ہے) بھی تھیں۔

انھوں نے لکھا: ’وہ ایک فرشتہ صفت انسان تھا۔ ہماری شادی کے ایک برس بعد میں حاملہ تھی اور ہمارا بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ ہمارا ایک معمولی سی بات پر جھگڑا ہوا اور انھوں نے مجھے سزا دینے کا فیصلہ کیا۔‘

’انھوں نے مجھ سے زبردستی کی اور میرا ریپ کیا۔ میرا حمل ضائع ہو گیا۔‘

ثنا نے طلاق لینے کے لیے اکیلے یہ لڑائی لڑی اور اب وہ اپنے شوہر سے علیحدہ ہو چکی ہیں تاہم بچہ کھو دینے کا صدمہ انھیں آج بھی ہے۔

مصر کے کئی علاقوں میں زبردستی اور پر تشدد سیکس عام ہے خاص طور پر شادی کی پہلی رات۔

یہ بھی پڑھیے

جنسی حملوں کے جواب میں مصری خواتین کا ’فیمینسٹ انقلاب‘

عرب خواتین اب جنسی ہراس کے واقعات پر خاموش نہیں

’بیوی کے ساتھ زبردستی سیکس، جرم قرار نہ دیں‘

اس بارے میں جاری بحث اس وقت مزید بڑھ گئی جب ایک مشہور گلوکار کی سابقہ اہلیہ نے انسٹاگرام پر اپنے مبینہ ازدواجی ریپ کی کہانی سنائی۔ ان کی روتی ہوئی ویڈیو وائرل ہو گئی اور اس پر سرخیاں بنائی گئیں۔

خاتون نے اس حوالے سے قانونی نظام میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا تاہم ان کے سابق شوہر نے ردعمل دیتے ہوئے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو میں ان الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا۔

عورت

مصر کے حکومتی ادارے نیشنل کونسل فار وومین کی جنوری 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر برس ازدواجی تشدد کے اوسطاً 6500 سے زیادہ کیس ریکارڈ کیے جاتے ہیں، جن میں ازدواجی ریپ، جنسی ہراسانی اور زبردستی سیکس شامل ہیں۔

خواتین کی رہنمائی اور قانونی آگاہی کے مرکز ’وومین سینٹر فار گائیڈنس اینڈ لیگل اویئرنیس‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ریدا ڈینبوکی کہتے ہیں کہ ’یہاں مصر میں ازدواجی ریپ کا الزام یہاں کے اس عام کلچر پر عائد کیا جاتا ہے جس میں یہ مانا جاتا ہے کہ شادی کا معاہدہ بیوی کو 24/7 سیکس کے لیے دستیاب رہنے کا پابند کرتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہاں عام عقیدے کی کچھ مذہبی تشریحات کی جاتی ہیں کہ اگر ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ جنسی تعلق بنانے سے انکار کر دے تو وہ ’گناہ گار‘ بن جاتی ہے اور ’فرشتے پوری رات اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘

اس بحث کا حل نکالنے کے لیے مصر کی اسلامی مشاورتی کونسل دارالافتا نے کہا کہ ’اگر شوہر اپنی بیوی کو جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے تشدد کرے تو عورت کو عدالت جا کر اس کے خلاف شکایت درج کرانے کا حق حاصل ہے تاکہ اسے سزا مل سکے۔‘

ریدا ڈینبوکی کہتے ہیں کہ اس کے باوجود خواتین کی رہنمائی اور قانونی آگاہی کے مرکز ’وومین سینٹر فار گائیڈنس اینڈ لیگل اویئرنیس‘ نے گذشتہ دو برسوں میں ازدواجی ریپ کے 200 کیس ریکارڈ کیے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جنھیں ’پہلے رات کا خوف‘ کہا جاتا ہے۔

مصر کا قانون ازدواجی ریپ کو جرم قرار نہیں دیتا، جس کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی طرف سے جنسی تشدد کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے، اور عدالت اسے ثابت کرنا مشکل سمجھتی ہے۔

ازدواجی ریپ کے زیادہ تر مقدمات جو عدالت میں جاتے ہیں، وہ مصری پینل کوڈ کے آرٹیکل 60 کی وجہ سے کسی سزا پر ختم نہیں ہوتے۔

اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ ’شریعت (اسلامی قانون) کی بنیاد پر نیک نیتی سے کیے جانے والے کسی بھی عمل پر پینل کوڈ کی دفعات کا اطلاق نہیں ہو گا۔‘

لیکن ریدا ڈینبوکی کہتے ہیں کہ ازدواجی ریپ کو ’پورے جسم کا معائنہ کرنے کے بعد ثابت کیا جا سکتا ہے۔‘

مصر میں، جہاں ابھی تک قدامت پسندانہ اقدار کا غلبہ ہے، تبدیلی اکثر دیر سے آتی ہے تاہم اب ازدواجی ریپ کا شکار بننے والی خواتین کی آوازوں کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32465 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp