بلاعنوان



اگلے عام انتخابات کے انعقاد میں ابھی ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے۔ مگر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے لئے سیاسی کھلاڑی ابھی سے اپنے لنگوٹ کس رہے ہیں۔ درحقیقت اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کا اپنا ہی ایک نشہ ہوتا ہے۔ صاحب اختیار کے لئے بے تحاشا پروٹوکول کی سہولت، خوشامد کلچر اور اوپر سے پولیس اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر من پسند افسران کی تقرریاں اور تبادلے جیسے عیش ہمارے مقروض اور پسماندہ ملک کی روایت بن چکے ہیں۔ لہذا آج کل ہر دوسرا سیاستدان حکومت کی ٹرین پر چڑھنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ کیوں کہ انہیں اپنے علاقے اور برادری میں اپنی ناک بھی اونچی رکھنی پڑھتی ہے۔ ورنہ رعب اور دبدبہ برقرار نہیں رہتا۔ لہذا سیاست میں صاحب اختیار ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

موجودہ ہائبرڈ نظام میں انقلابی سیاست کی گنجائش اب ختم ہو چکی ہے۔ سیاسی میدان میں موجود دو تین انقلابیوں کے ساتھ ہونے والے ”حسن سلوک“ کو دیکھنے کے بعد باقی سیاسی راہنماء نظریے کی سیاست سے تائب ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا بھی کانٹوں پر پاؤں رکھنے کے برابر سمجھا جانے لگا ہے۔ ان تمام خواریوں سے بچنے کا واحد راستہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں پر بیعت کرنا ہے۔ اسی لئے ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں آج کل اسٹیبلشمنٹ کے آستانے پر حاضری دینے کے لئے بیتاب دکھائی دے رہی ہیں۔

مستقبل کے سیٹ اپ میں اپنی جگہ بنانے کے لئے مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری اور پرویز مشرف کو بار بار وردی میں صدر منتخب کرانے کا نعرہ مستانہ لگانے والے چوہدری پرویز الہی بہت زیادہ متحرک ہوچکے ہیں۔ زرداری صاحب کی سیاسی مہارت کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے۔ جبکہ چوہدری پرویز الہی اپنے ہم عصر سیاستدانوں کی فہرست میں بہت آگے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے حکومت کے علاوہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔

حالیہ سینیٹ الیکشن میں انہوں نے تحریک انصاف، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ایک پیج پر لاکر پنجاب کی سطح پر بلا مقابلہ سینیٹرز منتخب کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ چوہدری برادران اپنی صلاحیتوں اور جوڑ توڑ کی سیاست کی بدولت 2002 کے بعد سے کسی نہ کسی حیثیت سے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان رہنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس دفعہ شاید ان کا ارادہ کسی بڑے عہدے کا حصول ہے۔ سپیکر کے خشک اور بے وقعت منصب سے وہ اکتائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل انہوں نے مقتدر حلقوں کی خواہش پر مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کا بوریا بستر گول کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بدلے میں مولانا فضل الرحمن کو بعض یقین دہانیاں بھی کرائی گئی تھیں۔ مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے جمعیت کے سربراہ چوہدری برادران سے ابھی تک ناراض ہیں۔ دراصل چوہدری صاحب بھی بڑے مجبور تھے۔ کیوں کہ جنہوں نے وعدہ پورا کرنا تھا۔ انہوں نے رسید ہی نہیں دی۔

ماضی میں ایک عدد وعدہ میاں شہباز شریف سے اسلام آباد کے تخت پر بٹھانے کا بھی کیا گیا تھا۔ وہ اس حوالے سے بڑے پرجوش بھی تھے۔ کیوں کہ ان کی ملک کا وزیراعظم بننے کی دیرینہ خواہش جو پوری ہونے جا رہی تھی۔ مگر بقول شاعر:۔

” قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند۔ دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا۔“

عین آخری وقت پر طاقتور حلقوں نے اپنا ارادہ بدل کر عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیا۔ اور چھوٹے میاں کے وزیراعظم بننے کی حسرت ایک بار پھر دل میں ہی رہ گئی۔

ایک معتبر صحافی نے اپنے ایک کالم میں شہباز شریف کو سیاست کے میدان کا بارہواں کھلاڑی قرار دیا ہے۔ بقول ان کے آنے والے الیکشن میں اگر وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ تو اس کے نتیجے وہ بارہویں کھلاڑی کی حیثیت سے ہی ریٹائر ہو سکتے ہیں۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ عمران خان ان کے طاقتور حلقوں سے رابطوں کی وجہ سے بہت خائف ہیں۔ دراصل وہ شہباز شریف کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ خان صاحب کی خواہش ہے کہ کسی طرح ان کو کسی کرپشن کے کیس میں سزا مل جائے۔ تاکہ وہ سیاسی میدان سے آؤٹ ہو جائیں۔

بعض سیاسی پنڈت قبل از وقت انتخابات کی پیشن گوئیاں کرتے پھر رہے ہیں۔ بقول ان کے اگر اگلے چھ ماہ تک موجودہ حکومت عوامی فلاحی اقدامات پر بڑی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ تو قبل از وقت انتخابات کا بگل بج سکتا ہے۔ وزیر خزانہ کی طرف سے بجٹ تقریر میں آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہ لینے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اس صورت میں مارچ 2022 میں انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔

وزیراعظم پہلے ہی اڈوں کے معاملے پر امریکہ کو دو ٹوک جواب دے کر عوام کی نظروں میں اپنا امیج بہتر بنا چکے ہیں۔ اگر وہ عوام کے مسائل کم کرنے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ تو اس صورت میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن بعض مبصرین ملک کی مجموعی معاشی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کو رد کر رہے ہیں۔

موجودہ حالات کے تناظر میں انتخابی سیاست میں کسی بھی سیاسی جماعت کی کامیابی کا انحصار اب الیکٹیبلز کی مرہون منت ہے۔ اس لئے بڑی سیاسی جماعتیں الیکشن سے پہلے ایسے سیاستدانوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ جو جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اسی لئے جناب زرداری نے پچھلوں دنوں لاہور کا دورہ کیا۔ اور چند اچھی ساکھ رکھنے والے ایسی شخصیات سے ملاقات بھی کی۔ مبصرین کے مطابق زرداری صاحب کو اپنے مقصد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

بدقسمتی سے پنجاب کی حد تک پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کی وقعت اب اتنی نہیں رہی۔ جتنی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے دور میں تھی۔ کچھ عرصہ پہلے ہونے والے ضمنی الیکشن میں پنجاب کی ایک صوبائی نشست پر پیپلز پارٹی کا امیدوار صرف ڈھائی سو کے قریب ووٹ لے سکا تھا۔ ایسی صورت حال میں کوئی مصیبت کا مارا ہوا شخص ہی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کا خواہش مند ہوگا۔ البتہ جنوبی پنجاب سے گیلانی خاندان، کھر فیملی اور مخدوم احمد محمود پیپلز پارٹی کے لئے کچھ نشستیں نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ق لیگ کے راہنماؤں کی لاہور میں آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں وزیراعظم سے طویل بیٹھک کو دیکھا جائے۔ تو مستقبل میں ہونے والی سیاسی صف بندی کے تانے بانے بننے میں آسانی ہو سکتی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ اور خسرو بختیار گروپ کا آئندہ کی صف بندی میں کیا لائحہ عمل ہوگا۔ اس کے بعد ہی سارا سیاسی منظرنامہ واضح ہو سکے گا۔

دوسری طرف نون لیگ سیاسی میدان میں ان رہنے کے لئے مزاحمت کے بیانیے کو سرد خانے میں ڈال کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پاور شیئرنگ فارمولے پر فی الحال راضی ہو چکی ہے۔ میاں نواز شریف کی طرف سے طاقتور شخصیات کے خلاف زبان بندی اور مریم نواز کے لہجے میں تبدیلی سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہ شہباز شریف کو تمام اختیارات کے ساتھ ٹیم کی کپتانی دے دی گئی ہے۔ اب یہ چھوٹے میاں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے پتے کس طرح کھیلتے ہیں۔

اسی کی دہائی میں پیپلز پارٹی کو برسراقتدار آنے سے روکنے کے لئے جس طرح کے غیر جمہوری اقدامات کیے جاتے رہے۔ اب بھی اسی طرح کی کوششیں نون لیگ کا راستہ روکنے کے لئے کی جا رہی ہیں۔

اگر آئندہ ہونے والے انتخابات میں آرٹی ایس کے ڈرامے یا کسی اور غیر روایتی طریقے سے نون لیگ کی ممکنہ جیت کا راستہ روک کر کسی دوسری پارٹی کو اقتدار کی مسند پر بٹھایا گیا۔ تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ کیوں کہ ملک کسی مزید نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments