بھارتی سپریم کورٹ کی بغاوت کے قانون پر تنقید، حکومت کو نوٹس جاری


سپریم کورٹ نے ایک سابق آرمی افسر میجر جنرل (ریٹائرڈ) ایس سی اوبڈیکرے کی درخواست پر جس میں اس قانون کو چیلنج کیا گیا ہے،
نئی دہلی — بھارت کی سپریم کورٹ نے ملک سے غداری کے قانون پر تنقید کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کر کے استفسار کیا ہے کہ کیا آزادی کے 75 برس بعد بھی اس قانون کی ضرورت ہے؟

چیف جسٹس این وی رمنا نے جمعرات کو سماعت کے دوران کہا کہ یہ نو آبادیاتی دور کا قانون ہے اور اسے برطانوی حکومت جنگِ آزادی لڑنے والوں کے خلاف استعمال کرتی رہی ہے۔ برطانوی حکومت نے اس قانون کا استعمال مہاتما گاندھی کے خلاف بھی کیا تھا۔

انہوں نے حکومت سے کہا کہ اگر اس قانون کے استعمال پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ایسے مقدمات میں بہت کم سزائیں ہوئی ہیں۔ اس قانون کا بہت غلط استعمال ہوتا آیا ہے۔

سپریم کورٹ نے ایک سابق آرمی افسر میجر جنرل (ریٹائرڈ) ایس سی اوبڈیکرے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی۔ درخواست میں مذکورہ قانون کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے اظہار کی آزادی پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ قانون بولنے کی آزادی اور جمہوری حقوق پر غلط طریقے سے اور غیر ضروری طور پر پابندی لگاتا ہے۔

درخواست کے مطابق تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے جو کہ مذکورہ قانون کی وضاحت کرتی ہے، مکمل طور پر غیر آئینی ہے اسے فوراً ختم کیا جانا چاہیے۔

چیف جسٹس این وی رمنا، ایس اے بوپنا اور رشی کیش رائے پر مشتمل بینچ نے کہا کہ جب حکومت بہت سے پرانے قوانین ختم کر رہی ہے تو وہ اس کو ختم کرنے پر غور کیوں نہیں کر رہی ہے۔

اس پر اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا کہ اس قانون کو رہنما ہدایات کے ساتھ قائم رکھا جائے۔

بینچ نے کہا کہ اس قانون کا غلط استعمال اسی طرح ہو رہا ہے کہ ایک بڑھئی کو درخت کاٹنے کے لیے کلہاڑی دی جائے اور وہ اس سے پورا جنگل کاٹنے لگے۔

بھارت میں کسانوں کی تحریک کے دوران بھی درجنوں افراد کے خلاف بغاوت کے مقدمے درج کیے گئے تھے۔
بھارت میں کسانوں کی تحریک کے دوران بھی درجنوں افراد کے خلاف بغاوت کے مقدمے درج کیے گئے تھے۔

عدالت کے مطابق اگر کوئی پولیس افسر کسی گاؤں میں کسی شخص کے خلاف کارروائی کرنا چاہتا ہے تو وہ تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے لگا دیتا ہے۔ اس سے عوام خوف زدہ ہیں۔

یاد رہے کہ مبینہ طور پر حکومت کے خلاف بولنے کی وجہ سے لوگوں پر ملک سے غداری اور انسدادِ دہشت گردی کے قانون ‘یو اے پی اے’ کے تحت کارروائیوں پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے خلاف بولنے والوں پر ان قوانین کا اطلاق کر کے آزادیٔ اظہار پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج ڈی وائی چندر چوڑ نے پیر کو ایک پروگرام میں کہا کہ مخالف آوازوں کو دبانے اور شہریوں کو ہراساں کرنے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کا قانون استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سماجی معاشی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا سپریم کورٹ کی ذمے داری ہے۔

رپورٹس کے مطابق حکومت اور پولیس کی جانب سے جن لوگوں کے خلاف ‘یو اے پی اے’ لگا دیا جاتا ہے وہ بعد میں عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان قوانین کی وجہ سے ان کو برسوں تک جیلوں میں بند رہنا پڑتا ہے۔

‘یو اے پی اے’ قانون 1967 میں بنا تھا۔ حکومت نے 2004 میں اس میں ترمیم کر کے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تنظیموں کو سزائیں دینے کی بھی راہ ہموار کی تھی جب کہ 2019 میں ہونے والی ایک اور ترمیم کے تحت اب کسی انفرادی شخص کو بھی اس قانون کے تحت دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق حالیہ برسوں میں متعدد صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور اسٹوڈنٹس کو اس قانون کے تحت جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔

وزارتِ داخلہ نے رواں برس کے شروع میں پارلیمنٹ میں بتایا تھا کہ 2015 کے مقابلے میں 2019 میں اس قانون کے تحت گرفتاریوں میں 72 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2016 سے 2019 کے درمیان 5982 افراد کو ‘یو اے پی اے’ کے تحت گرفتار کیا گیا لیکن صرف 132 افراد کو سزا ہوئی۔ یعنی ایسے معاملات میں سزاؤں کی شرح دو فی صد سے بھی کم ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک سے غداری کا قانون انگریزوں کے زمانے میں 1860 میں بنایا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جو لوگ گورنر جنرل وغیرہ کے خلاف بولیں ان کے خلاف یہ قانون لگایا جائے۔ لیکن حکومت نے ابھی تک اسے برقرار رکھا ہے۔

اُن کے بقول اس وقت اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ جو لوگ برطانوی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی بات کرتے تھے ان کے خلاف یہ قانون استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن آج کے آزاد ہندوستان میں حکومت کے خلاف بولنے پر اس قانون کا استعمال سراسر غلط ہے۔

ان کے بقول آج تو ہم سب حکومت کے خلاف بولتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت سب پر یہ قانون لگا دے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ اس حکومت کا خاتمہ ہو۔ لیکن حکومت اپنے خلاف بولنے کو ملک کے خلاف بولنا قرار دیتی ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ ملک اور حکومت میں بہت فرق ہے۔

ان کے مطابق غداری کے مذکورہ قانون کو فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ آزاد بھارت میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ یہ انگریزوں کا بنایا ہوا قانون ہے۔ انہوں نے اپنے ملک میں اسے ختم کر دیا لیکن بھارت میں اب بھی باقی ہے۔

انہوں نے اس الزام سے اتفاق کیا کہ حکومت اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے اس قانون کا بے انتہا غلط استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق 2015 سے 2019 تک ‘یو اے پی اے’ کے تحت 7840 افراد گرفتار ہوئے جن میں سے صرف 155 افراد کو سزا ہوئی۔ گویا دو فی صد سے بھی کم لوگوں سزا ہوئی ہے۔

ان کے بقول 98 فی صد افراد پر الزام ثابت نہیں ہوا۔ یعنی ان کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا اور جن دو فی صد پر الزام ثابت ہوا ہے اس پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ عدالت سے جو بے قصور ثابت ہو حکومت اس سے معافی مانگے اور جن پولیس والوں نے ایسے لوگوں کے خلاف فرضی مقدمات قائم کیے ان کو سزا دی جائے۔

خیال رہے کہ حکومت ان قوانین کے غلط استعمال کے الزام کی تردید کرتی ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ جو لوگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں پولیس ان کے خلاف مقدمات درج کرتی ہے اور قانون کے مطابق کارروائی ہوتی ہے۔

اس کے بقول عدالتیں جن لوگوں کو بری کرتی ہیں انہیں فوری طور پر جیلوں سے رہا کر دیا جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments