کمپنیاں بعض صورتوں میں مسلم خواتین کے اسکارف پہننے پر پابندی لگا سکتی ہیں: یورپی عدالت
یونین کی اعلیٰ ترین عدالت میں جرمنی کی دو مسلم خواتین ایک مقدمہ لے کر آئی تھیں کہ ان کو ان کے اداروں نے اسکارف پہننے کی وجہ سے معطل کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی کاروباری ادارہ کام کی جگہ پر غیر جانب داری کو برقرار رکھنے اور معاشرتی تنازعے سے بچنے کے لیے کسی بھی ایسی چیز کو پہننے پر پابندی عائد کر سکتا ہے جس سے کسی سیاسی تعلق، سیاسی نظریے یا مذہبی عقائد کی نشان دہی ہوتی ہو۔
پابندی کے لیے فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ البتہ اس کے لیے لازمی طور پر واضح اور حقیقی جواز ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حقوق اور مفادات کے معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا۔
فیصلے کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک کی مقامی عدالتیں اس حوالے معاملات مخصوص حالات کے حوالے سے دیکھ سکتی ہیں۔
یورپی یونین کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے والی جرمنی کی دونوں خواتین میں سے ایک چائلڈ کیئر سینٹر میں ملازمت کرتی تھی جب کہ دوسری خاتون میڈیکل اسٹور میں کیشئر کے طور پر کام کرتی تھیں۔
#ECJ : A prohibition on wearing any visible form of expression of political, philosophical or religious beliefs in the workplace may be justified by the employer’s need to present a neutral image or to prevent social disputes – wearing of #Headscarves
👉https://t.co/ATb3CgbPxg— EU Court of Justice (@EUCourtPress) July 15, 2021
ان خواتین نے جب اسکارف پہننا شروع کیا تو جہاں یہ ملازمت کرتی تھیں ان کاروباری اداروں کی جانب سے انہیں مطلع کیا گیا کہ انہیں اس کی اجازت نہیں ہے۔
عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات سے واضح ہوتا ہے کہ ان خواتین کو اداروں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ یا تو اسی طرح آئیں جیسے وہ پہلے کام کے لیے آتی تھیں یا وہ کوئی اور ملازمت ڈھونڈ لیں۔
واضح رہے کہ یورپ میں اسکارف یا حجاب پہننے کے معاملے میں حالیہ برسوں میں تنازعات جنم لیتے رہے ہیں۔
یورپی ملک لکسمبرگ میں عدالت نے 2017 میں بھی ایک فیصلہ دیا تھا کہ بعض مخصوص حالات میں کاروباری ادارے اپنے ملازمین پر پابندی عائد کر سکتے ہیں کہ وہ اسکارف نہ پہنیں یا کوئی ایسی چیز زیب تن نہ کریں جس سے کسی مخصوص مذہب کی نشان دہی ہو۔ اس وقت اس فیصلے پر بھی مسلمانوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔
اس خبر میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے شامل کی گئی ہیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).