کمپنیاں بعض صورتوں میں مسلم خواتین کے اسکارف پہننے پر پابندی لگا سکتی ہیں: یورپی عدالت


یونین کی اعلیٰ ترین عدالت میں جرمنی کی دو مسلم خواتین ایک مقدمہ لے کر آئی تھیں کہ ان کو ان کے اداروں نے سر پر اسکارف پہننے کی وجہ سے ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو)
ویب ڈیسک — یورپی یونین کی اعلیٰ ترین عدالت نے قرار دیا ہے کہ کاروباری ادارے بعض صورتوں میں مسلمان ملازمین کے سر پر اسکارف پہننے پر پابندی عائد کر سکتے ہیں۔

یونین کی اعلیٰ ترین عدالت میں جرمنی کی دو مسلم خواتین ایک مقدمہ لے کر آئی تھیں کہ ان کو ان کے اداروں نے اسکارف پہننے کی وجہ سے معطل کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی کاروباری ادارہ کام کی جگہ پر غیر جانب داری کو برقرار رکھنے اور معاشرتی تنازعے سے بچنے کے لیے کسی بھی ایسی چیز کو پہننے پر پابندی عائد کر سکتا ہے جس سے کسی سیاسی تعلق، سیاسی نظریے یا مذہبی عقائد کی نشان دہی ہوتی ہو۔

پابندی کے لیے فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ البتہ اس کے لیے لازمی طور پر واضح اور حقیقی جواز ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حقوق اور مفادات کے معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا۔

فیصلے کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک کی مقامی عدالتیں اس حوالے معاملات مخصوص حالات کے حوالے سے دیکھ سکتی ہیں۔

یورپی یونین کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے والی جرمنی کی دونوں خواتین میں سے ایک چائلڈ کیئر سینٹر میں ملازمت کرتی تھی جب کہ دوسری خاتون میڈیکل اسٹور میں کیشئر کے طور پر کام کرتی تھیں۔

جس وقت ان خواتین نے نوکری کا آغاز کیا تھا اس وقت دونوں ہی اسکارف نہیں پہنتی تھیں۔ البتہ بعدازاں زچگی کی چھٹیوں سے واپسی پر انہوں نے اسکارف پہننے شروع کر دیا۔

ان خواتین نے جب اسکارف پہننا شروع کیا تو جہاں یہ ملازمت کرتی تھیں ان کاروباری اداروں کی جانب سے انہیں مطلع کیا گیا کہ انہیں اس کی اجازت نہیں ہے۔

عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات سے واضح ہوتا ہے کہ ان خواتین کو اداروں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ یا تو اسی طرح آئیں جیسے وہ پہلے کام کے لیے آتی تھیں یا وہ کوئی اور ملازمت ڈھونڈ لیں۔

واضح رہے کہ یورپ میں اسکارف یا حجاب پہننے کے معاملے میں حالیہ برسوں میں تنازعات جنم لیتے رہے ہیں۔

یورپی ملک لکسمبرگ میں عدالت نے 2017 میں بھی ایک فیصلہ دیا تھا کہ بعض مخصوص حالات میں کاروباری ادارے اپنے ملازمین پر پابندی عائد کر سکتے ہیں کہ وہ اسکارف نہ پہنیں یا کوئی ایسی چیز زیب تن نہ کریں جس سے کسی مخصوص مذہب کی نشان دہی ہو۔ اس وقت اس فیصلے پر بھی مسلمانوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔

اس خبر میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے شامل کی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments